ماں کے ہاتھوں معصوم بچی کا قتل۔۔؟

تحریر : سید عارف سعید بخاری
گھریلو معاشی و معاشرتی مسائل نے عوام و خواص کو ذہنی مریض بنا کر رکھا دیا ہے ،ناخالص خوراک کی وجہ سے بھی لوگوں کی قوت برداشت ختم ہو کر رہ گئی ہے ۔بات بے بات بچوں،بیوی یا شوہر کو قتل کر دینے یا خودکشی کر لینے کی دھمکیاں دینا بھی ہمارے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ ماں دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جو خود تکلیف اٹھاتی ہے لیکن اپنے بچوں کوپریشان ہونے دیتی اور نہ ہی انہیں تکلیف میں دیکھ سکتی ہے ،انسان تو انسان جانور تک اپنے بچوں کے کیلئے اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتے ،فی زمانہ لائق تحسین ہیں وہ مائیں جو اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ” سوتیلی اولاد” کو اپنے بچوں سے بڑھ کر پیار کرتی ہیں اور ان کی پرورش کرکے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کا سامان کرتی ہیں ۔لیکن اکیسویں صدی میں قیامت کی یہ نشانیاں بھی آئے روز دیکھنے کو آ رہی ہیں کہ مائیں اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو ”قتل ” کر رہی ہیں ۔کوئی ماں کتنی ہی سنگدل اور محبت سے عاری کیوں نہ ہو ،وہ ایساظلم نہیں کر سکتی مگر اب یہ بھی معمول بن چکا ہے۔
گذشتہ روز کراچی میں شکیلہ نامی ماں نے اپنی اڑھائی سالہ بچی انعم کو سمندر کی بے رحم موجوںکی نذر کر دیا ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




ماں شکیلہ اور اڑھائی سالہ معصوم انعم جسے سمندر کی لہروں کی نذر کر دیا گیا

گھریلو معاشی و معاشرتی مسائل نے عوام و خواص کو ذہنی مریض بنا کر رکھا دیا ہے ،ناخالص خوراک کی وجہ سے بھی لوگوں کی قوت برداشت ختم ہو کر رہ گئی ہے ۔بات بے بات بچوں،بیوی یا شوہر کو قتل کر دینے یا خودکشی کر لینے کی دھمکیاں دینا بھی ہمارے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ ماں دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جو خود تکلیف اٹھاتی ہے لیکن اپنے بچوں کوپریشان ہونے دیتی اور نہ ہی انہیں تکلیف میں دیکھ سکتی ہے ،انسان تو انسان جانور تک اپنے بچوں کے کیلئے اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتے ،فی زمانہ لائق تحسین ہیں وہ مائیں جو اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ” سوتیلی اولاد” کو اپنے بچوں سے بڑھ کر پیار کرتی ہیں اور ان کی پرورش کرکے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کا سامان کرتی ہیں ۔لیکن اکیسویں صدی میں قیامت کی یہ نشانیاں بھی آئے روز دیکھنے کو آ رہی ہیں کہ مائیں اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو ”قتل ” کر رہی ہیں ۔کوئی ماں کتنی ہی سنگدل اور محبت سے عاری کیوں نہ ہو ،وہ ایساظلم نہیں کر سکتی مگر اب یہ بھی معمول بن چکا ہے۔

گذشتہ روز کراچی میں شکیلہ نامی ماں نے اپنی اڑھائی سالہ بچی انعم کو سمندر کی بے رحم موجوںکی نذر کر دیا ،دوران تفتیش شکیلہ کا موقف ہے کہ خاوندراشد شاہ نے اُسے گھر سے نکال دیا تھا اور باپ بھی اُسے سہارا دینے کو تیا ر نہ تھا،وہ اس بناء پردل برداشتہ ہو گئی تھی اس لئے نہ صرف بچی سے جان چھڑانا چاہتی تھی بلکہ خود بھی خود کشی کرنا چاہتی تھی۔۔؟گویا اس ماں نے اپنے اس جرم کا ذمہ دار اپنے خاوند اور اپنے باپ کو قرار دیا ہے ۔

خاتون کے اس فعل پر سوشل میڈیا میں ہر دوسرا شخص جہاں اس کو لعن طعن کر رہا ہے وہاں کچھ لوگ اس عمل کی ذمہ داری خاتون کے شوہر اورباپ پر ڈال رہے ہیں ۔لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ معاشرے میں بیسیوں خواتین اپنے خاوند،رشتہ داروں اور لوگوں کے روئیے سے دل برداشتہ ہونے کے باوجود اپنے بچوں کو پال رہی ہیں ۔۔دنیا میں آنے والے ہر زی روح کو رزق دینے کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کر رکھا ہے ،اس لئے اس معاملے میں انسان کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ،اور اگر خدانخواستہ کسی ناجائز تعلق کی بناء پر کوئی زی روح دنیا میں آ بھی جاتی ہے تو اس میں پیدا ہونے والے بچے کا توکوئی قصور نہیں ہوتا ۔یہ الگ بات ہے کہ معاشرہ ایسی خواتین کو عزت دینے کو تیار نہیں ہوتااور لوگوں کے طعنوں سے تنگ آکر اکثر خواتین اپنے بچوں کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک کر چلی جاتی ہیں ۔لیکن پھر بھی انہیں اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے سے گریزکرتی ہیں ۔

کراچی والے سانحے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق کوئی ایسی صورتحال بھی سامنے نہیں آئی ۔محض خاوند اور باپ کی سوچ و فکر کی بدولت خاتون نے دل برداشتہ ہوکر اپنی بچی کو سمندر کی بے رحم موجود کے حوالے کر دیا ۔یوں اس ماں کو بچی پر رحم تک نہ آیا ، وقتی طور پر تو اس نے بچی سے جان چھڑا لی لیکن یہ وہ صدمہ ہے کہ جسے یہ ظالم ماں زندگی بھر بھلا نہیں پائے گی ، یہ روگ اُسے زندگی بھر بے چین اور مضطرب رکھے گا۔

آمدہ اطلاعات کے مطابق پولیس حکام نے واقعہ کے پس پردہ حقائق جاننے کیلئے شکیلہ کے شوہر راشد شاہ اور والد کو بھی شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے،لیکن مذکورہ خاتون کیلئے بچی کو قتل کئے جانے کے علاوہ اور بھی راستے موجود تھے ،شکیلہ بچی کو قتل کرنے جیسے گھناؤنے فعل کے ارتکاب کی بجائے انتظامیہ کی اجازت سے اس معصوم کلی کو ایدھی ہوم، سویٹ ہوم سمیت کسی بھی فلاح ادارے کے سپرد کر سکتی تھی ،خود بھی دارالامان میں پناہ لے سکتی تھی ،بصورت دیگربچی کسی بے اولاد جوڑے کی جھولی میں ڈال دیتی یا کسی خدا ترس انسان کی سرپرستی میں دے دیتی ،تو آج اُسے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

یہ ماں اپنی بچی کو سمندر کی نذر کرنے سے قبل کم ازکم ایک لمحہ ان لوگوں کی طرف ہی دیکھ لیتی کہ جو ساری زندگی اولاد کی نعمت کیلئے ترستے رہتے ہیں اور بالآخر کسی دوسرے کی اولاد کو لے کر پالتے ہیں ،ایسی مائیں اپنی ممتا کی تسکین کیلئے غیر کے بچے کو سینے سے لگا لیتی ہیں ۔۔اور ایک یہ ماں ہے کہ جس نے خاوند کی بے مروتی کی سزا اپنی بچی کو دے کر خود کو دنیاکی نظر میں تماشا بنا لیا ہے ۔یہ ماںمجرم ہے ،اس کا جرم بہت بڑا ہے ،اس کی معافی نہیں ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ ہمارا معاشرہ خاتون کی طرفداری کرکے اُسے معصوم ثابت کرنے کے لئے دلائل پیش کرنے میں لگا ہے ۔فرسٹریشن کو بھی اس کا بنیادی سبب قرار دیا جا رہا ہے ،لیکن اس حوالے سے بیسیوں مثالیں موجود ہیں کہ مائیں خود اذیت ناک زندگی بسر کرتی ہیں لیکن اپنے بچوں کو آنچ نہیں آنے دیتیں ۔پھر یہ کیسی ماں ہے جو ایک ماہ میں ہی اس قدر فرسٹریشن کا شکار ہو گئی کہ اپنی ہی کوکھ سے جنم لینے والی معصوم کلی کو سمندر کی لہروں کی نذر کر دیا۔

معصوم بچی کے ہوتے ہوئے ایک ماں کو گھر سے نکال کر اس کے شوہر نے کوئی اچھا کام نہیں کیا، اس سے بڑھ کر ظلم یہ کہ باپ نے بھی اپنی بیٹی پر دست شفقت رکھنے کی بجائے اسے گھر سے نکال دیا ۔خلع لینے،طلاق ملنے یا بیوہ ہونے کی صورت میں بیٹی کی حقیقی جائے پناہ اس کا میکہ ہوا کرتا ہے ۔اور اس کیفیت میں بیٹی کو سائبان فراہم کرنا باپ کی اولین ذمہ داری بنتی ہے جبکہ بھائیوں کو بھی اپنی بہن اور اس کی اولاد کے سر پر ہاتھ رکھنا فرض بنتاہے ،اس خدمت کا اجر و ثواب رب کائنات نے دیناہے ،اس عمل سے انسان اپنی دنیا و آخرت کو سنوارنے کا سامان کر سکتا ہے۔

باپ ،بھائیوں اور عزیز و رشتہ دار فی زمانہ اپنے ان فرائض سے غافل ہو چکے ہیں ،شوہر کی بے اعتنائی کی شکار خاتون کوہمارا معاشرہ بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔لوگوں کے طعنے عورت کی زندگی کو اجیرن بنا کر رکھ دیتے ہیں ،اگر ہم خلع یا طلاق یافتہ اور بیوہ ہونے والی خاتون کو بہتر ماحول فراہم کر نے پر دھیان دیں تو یقیناً کوئی بھی ماں اپنے بچوں کی جان لینے جیسے گھناؤنے جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتی ۔ایک نظر اگر ہم معاشرتی ناہمواریوں اور اپنی سوچ و فکر پر ڈالیں تو تما م صورتحال بالکل واضح ہو جاتی ہے، اس قسم کے واقعات کے ذمہ دار جہاںمن الحیث القوم ہم خود ہیں ، وہاں حکومت کو بھی بری الذمّہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پریشان حال لوگوں خصوصاً خواتین کے زخموں پر ”نمک پاشی ”کی بجائے مرہم رکھنے کی کوشش کریں ۔اسی طرح ہم سسکتی ہوئی انسانیت کو بچا سکتے ہیں۔
 

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 115356 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.