ہم سب مختلف اچھی اور بری عادات کے مالک ہوتے ہیں۔ کیا آپ
نے کھبی سوچا ہے کہ عادتیں کیسے بنتی ہیں۔ انسان کا دماغ جب مسلسلہ کسی ایک
کام کو کرتا ہے وہ اس کی عادت بن جاتا ہے۔ ہم بہت سی بڑی عادتوں کا شکار ہو
جاتے ہیں۔ مثلاً جھوٹ بولنا کچھ لوگوں کی عادت بن جاتا ہے۔ پھر وہ ہمیشہ
بات بہ بات جھوٹ بھولتے ہیں جہاں اس کی ضرورت نہیں بھی ہوتی وہاں بھی۔
کیونکہ ان کو جھوٹ بھولنے کی عادت بن جاتا ہے۔ اور وہ سوچے سمجھے بغیر بس
جھوٹ بولتے چلے جاتے ہیں۔ پتہ ہے اس کی وجہ کیا ہے۔ وہ کام کرنے سے پہلے ان
کا دماغ اس کو process نہیں کرتا اور ڈائریکٹ وہ کام کرنا کا عادی ہو جاتا
ہے۔ یہی انسان اور جانور میں فرق ہے۔ انسان اپنی عادتوں کو بدل سکتا ہے۔
کیونکہ وہ پہلے اس process کرتا ہے۔ مگر جانور ساری زندگی وہی کرتا رہتا ہے
جو وہ شروع سے کرتا آیا ہے۔ کیونکہ اس کا دماغ چیزوں کو process نہیں
کرسکتا۔
پتہ ہے انسان اور جانور میں کس عضو کا فرق ہوتا ہے۔ مجھے ہمیشہ سے لگتا تھا۔
دماغ کا مگر میں غلط تھی۔ کیونکہ دماغ جانوروں کے پاس بھی ہوتا ہے۔ جانوروں
کے پاس دماغ کا سامنے والا حصہ نہیں ہوتا۔ جیسے ہم فرنٹل لوب کہتے ہیں۔
انسان کے پاس فرنٹل لوب ہوتی ہے۔ پیشانی کے اندر کا حصہ۔ مگر جانور اس سے
محروم ہوتے ہیں۔
جب انسان آنکھوں سے کچھ دیکھتا ہے تو پیغام اس فرنٹل لوب کو بھیجتی ہے۔ اور
پھر فرنٹل لوب اس بات کو سوچتی ہے، process کرتی ہے اور پھر پیغام پچھلے
حصے کو بھیجتی ہے۔ پچھلا حصہ ہاتھ کو حکم دیتا ہے کہ یہ کام کرو یا ٹھہر
جاؤ۔ یوں ہم کوئی کام کرتے ہیں یا صبر کرکے خود کو روکتے ہیں۔
مگر چونکہ جانوروں کے پاس فرنٹل لوب نہیں ہوتی۔ اس لیے ان کی آنکھیں جیسے
ہی کچھ دیکھتی ہے۔ ڈائریکٹ پچھلے حصے کو پیغام جاتا ہے، وہ ہاتھوں کو حکم
دیتا ہے اور جانور ہر چیز کو چیر پھاڑ کر دیتا ہے۔ کیونکہ وہ اس کو پیشانی
تک لاتا ہی نہیں ہے۔ وہ اس کو process ہی نہیں کرتا۔ اس کو سوچتا ہی نہیں
ہے۔
انسان ہر چیز کو فرنٹل لوب کے پاس لاتا ہے۔ اس کو process کرتا ہے، اس پہ
غور کرتا ہے۔ مگر جب کوئی چیز، کوئی عادت بن جاتا ہے ناں تو آنکھیں اس کو
دیکھتے ہی پیشانی کو پیغام بھیجنے کی بجائے ڈائریکٹ پچھلے حصے کو پیغام دے
دیتی ہیں جو ہاتھ کو کہتا ہے کہ کر ڈالو اور ہاتھ وہ کام کر ڈالتا ہے۔ یوں
سارے اعضاء پیشانی کو بائی پاس کر جاتے ہیں۔ وہ شارٹ کٹ بنا لیتے ہیں۔ جیسے
ہم کمرے میں داخل ہوتے ہی عادتاً سوئچ بورڈ پہ ہاتھ مار کے لائٹ جلاتے ہیں۔
یوں انسان کی عادتیں بنتی ہیں۔ مگر کچھ کاموں میں دماغ کے پچھلے حصے کو مزا
آنے لگتا ہے۔ وہ پیشانی کو بائی پاس کرنے لگ جاتا ہے اور وہ کام ہماری
ایڈکشن بن جاتے ہیں۔ جن لوگوں کو نشہ کی لت لگی ہوتی ہے پتہ ہے وہ کیوں
ہیروئن ایڈکٹ یا شراب یا انٹرنیٹ پہ غلط چیزیں دیکھنے والے ان عادات کو
چھوڑ نہیں پاتے؟ کیونکہ ان کے اعضاء وہ کام کرتے وقت پیشانی کو skip کر
دیتے ہیں۔ وہ اس کو سوچتے نہیں، اس کو پوچھتے نہیں۔ اس بات کو process ہی
نہیں کرتے۔ اس کو compulsive رویہ کہا جاتا ہے۔بنا سوچے سمجھے عادتاً کر
ڈالے جانے والا عمل۔
پتہ ہے ایڈکشن کا بہترین حل ول پاور کا استعمال کرنا ہے۔ ہر بار پیشانی کے
سامنے معاملہ رکھنا ہے اور اس معاملے پہ سوچنا ہے۔ اس کے نفع نقصان کے بارے
میں سوچنے کے بعد پھر اس کو کرنا ہے۔ خود کو غلط کاموں سے روکنے کا یہی
طریقہ ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنی غلط عادات کو بدلیں تو ہمیں اپنی
فرنٹل لوب کو استعمال میں لانا ہوگا۔ اس کو استعمال میں لانے سے ہم اچھے سے
غلط اور صحیح کا جائزہ لے سکیں گے۔ اللہ سب کو آسانیاں عطا فرمائے اور ان
کو تقسیم کرنے کا شرف بھی عطا فرمائے آمین۔ |