ایک نئی تحقیق کے مطابق پاکستان انٹرنیٹ صارفین کے لیے
دنیا کے سب سے غیر محفوظ ممالک میں سے ایک ہے اور یہاں استعمال کیے جانے
والے 25 فیصد موبائل فونز پر مال ویئر یا وائرس کے حملے ہو چکے ہیں۔
|
|
سائبر سکیورٹی پر تحقیق کرنے والے ادارے ’کومپیری ٹیک‘ کی تازہ درجہ بندی
کے مطابق الجیریا اس معاملے میں دنیا کا سب سے غیر محفوظ ملک ہے، جبکہ
جاپان اس لحاظ سے سب سے محفوظ ملک تصور کیا جاتا ہے۔
’کومپیری ٹیک‘ کے بلاگ پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سائبر حملوں سے
غیر محفوظ ممالک کی فہرست میں پاکستان ساتویں نمبر پر ہے۔
تحقیق میں دنیا کے صرف 60 ممالک کو شامل کیا ہے کیونکہ ان کے اعدادوشمار
مکمل اور باآسانی دستیاب ہیں۔
پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیم ’بولو بھی‘ کی کارکن
فریحہ عزیز نے اس بارے میں بی بی سی اردو کو بتایا کہ پاکستان میں ’انفرادی
طور پر سائبر سکیورٹی کے حوالے سے بنیادی آگاہی تک نہیں پائی جاتی۔ اس لیے
یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ ہمارا شمار ان ممالک کے ساتھ ہوا جن کا سائبر
سکیورٹی نظام بدترین ہے۔‘
تاہم پاکستان انفارمیشن سکیورٹی ایسوسی ایشن کے صدد عمار جعفری نے ’کومپیری
ٹیک‘ کی دی گئی درجہ بندی کی ساکھ پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’پوری دنیا
کے صرف 60 ممالک کا انتخاب کرنا اس درجہ بندی میں تعصب پائے جانے کا امکان
ظاہر کرتا ہے اور اس کے علاوہ رپورٹ میں دیے گئے مختلف اعداد وشمار قابل
اعتبار ذرائع سے حاصل نہیں کیے گئے۔`
عمار جعفری کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سب کے باوجود یہ بھی کہنا درست ہوگا کہ
پاکستان کو سائبر سکیورٹی کے حوالے سے ابھی بہت کام کرنا ہوگا اور کیا ہی
اچھا ہوتا اگر سنہ 2014 میں سینیٹ میں پیش کردہ قانونی مسودہ منظور ہوجاتا
جس میں نیشنل سائبر سکیورٹی کونسل کے قیام کی پیشکش کی گئی تھی۔ اس میں
سائبر سکیورٹی کے شعبے سے متعلق تمام شراکت داروں کی آرا شامل تھی۔‘
|
|
پاکستان سائبر سکیورٹی کے حوالے سے کتنا
غیر محفوظ ہے؟
’کومپیری ٹیک‘ کی تحقیق میں ممالک کی درجہ بندی مندرجہ ذیل بنیادوں پر کی
گئی:
مالی نوعیت کے سائبر حملے
ملک میں وائرس اور میل وئیر کا شکار موبائل فون اور کمپیوٹرز کی شرح
سائبر جرائم کی روک تھام کے لیے اٹھائے گئے اقدامات اور قانون سازی
رپورٹ میں سائبر سکیورٹی کے ادارے کیسپرسکی کے اعداد وشمار کے مطابق
پاکستان میں تقریباً 25 فیصد صارفین کے موبائل فون مال وئیر اور وائرس کا
نشانہ بن چکے ہیں۔
فریحہ عزیز نے بتایا کہ ذاتی معلومات کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان میں کوئی
جامع قانون موجود نہیں اور 2016 میں منظور ہونے والا سائبر کرائم قانون بھی
اس مسئلے کا کوئی حل نہیں دیتا۔
رپورٹ بھی اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ پاکستان نے سائبر سکیورٹی سے متعلق
تسلی بخش قانون سازی نہیں کی اور نہ ہی اس بارے میں کوئی ٹھوس اقدامات
اٹھائے۔
|
|
سرکاری ویب سائٹس کو خطرہ؟
گلوبل سائبر سکیورٹی انڈیکس کے مطابق پاکستان میں مالی نوعیت کے سائبر
حملوں کا خطرہ بھی موجود ہے۔ اور تو اور، پاکستان کی سائبر حملوں سے بچنے
کی صلاحیت پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی تنظیم انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین ہر سال گلوبل سائبر
سکیورٹی انڈیکس شائع کرتا ہے جس میں دنیا کے تمام ممالک کی سائبر سکیورٹی
کے حوالے سے اقدامات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
پاکستان میں ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والے ادارے ’بائٹس فار آل‘ کے شہزاد
احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ماضی میں پاکستان اور انڈیا سائبر جنگ میں
ملوث رہے ہیں، جس سے متعدد بار ہمارے ڈیجیٹل اثاثے غیر محفوظ ہوئے۔ مگر اس
کے باوجود موجودہ اور گذشتہ تمام حکومتوں نے معلومات کے تحفظ کے لیے کوئی
ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے اور آج ہماری تمام سرکاری ویب سائٹس محفوظ نہیں
جو کہ بہت خطرناک بات ہے۔'
حکومتی موقف کیا ہے؟
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سائبر کرائم کے ڈائریکٹر
جنرل کیپٹین (ریٹائرڈ) شعیب کا کہنا تھا کہ ’یہ درجہ بندی ہماری کارکردگی
کی عکاسی نہیں کرتا۔ یہ درجہ بندی قانون سازی سے متعلق ہے اور اس میں ہم
یقیناً اب تک بہت پیچھے ہیں کیونکہ سائبر سکیورٹی کے حوالے سے کوئی قانون
منظور نہیں ہوا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگرچہ ہم جنوبی ایشیا میں بہت سے ممالک سے آگے ہیں
تاہم قانوں سازی اب بھی بہت سست رفتاری سے ہو رہی ہے۔ ملک میں اگست 2018
میں سائبر کرائم کے حوالے سے ایک باقاعدہ ادارا بنایا گیا ہے مگر اس میں اب
تک بھرتیاں شروع نہیں ہوئیں`
انٹرنیٹ پر ذاتی معلومات دینے سے پہلے دو
بار سوچیے!
فریحہ عزیز کے مطابق ’ہمیں چاہیے کہ انٹرنیٹ پر اپنی ذاتی معلومات کا تحفظ
بالکل ایسے کریں جیسے دیواریں کھڑی کر کے اپنے گھروں کا تحفظ کرتے ہیں۔‘
شہزاد احمد نے بتایا کہ ان کے ادارے نے معلومات کے حصول کے لیے بیشتر
سرکاری اداروں کو درخواستیں بھیجیں، جس پر انھیں کوئی خاطر خواہ جواب موصول
نہیں ہوئے۔ ’ہمیں نہیں معلوم ہو سکا کہ حکومت شہریوں کی ذاتی معلومات کا
تحفظ اگر کرتی ہے تو کیسے؟‘
انھوں نے کہا کہ ’بالخصوص صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور سرکاری افسران
سمیت دیگر لوگ ان سائبر حملوں سے محفوظ نہیں اور اس حوالے سے بڑے پیمانے پر
آگاہی مہم شروع کرنی چاہیے۔‘
|