ومز کو روڈ مانچسٹر برطانیہ کے افغانی ہو ٹل میں میں
میزبان کے ساتھ کھانا کھانے آیا ہوا تھا ‘ سارا دن ویلز کے وسیع و عریض
سبزہ زاروں چشموں ندیوں جھیلوں خوبصورت فطری مناظر سے بھر پور لطف اٹھا نے
کے بعد میرا میزبان مجھے مانچسٹر کی فوڈ سٹریٹ پر کھانا کھلانے لے آیا تھا
‘ میرا میزبان میرے ٹیسٹ سے بخوبی واقف تھا کہ میں کم مرچ مسالوں والے
نمکین کھانوں کو پسند کر تا ہوں‘ اُس نے مجھے اٹالین انگلش ترکش چائینز
کھانوں کی آفر کی ‘ مانچسٹر میں مشہور ومعروف ہوٹلوں کی خوبیاں ‘ خاص ذائقے
کے کھانے بتائے لیکن میں نے سادہ نمکین کھانوں کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ
مجھے افغانی ریسٹورنٹ میں لے آیا ‘ چھوٹے سے ہوٹل کے کاؤنٹر کے اوپر اور
درودیوار پر خوبصورت کھانوں کی تصویریں ہماری بھوک کو اور بھی بڑھا رہی
تھیں اوپر سے دائیں بائیں میزوں پر مختلف لوگ کھانے کھا رہے تھے ساتھ میں
بیرے لذیذ گرما گرم اشتہا انگیز کھانے پھرتی سے مختلف گاہکوں کے سامنے رکھ
رہے تھے اُن کھانوں کی شکل خوشبو ‘اڑتی بھاپ ہماری بھو ک کو اور بھی بڑھا
رہی تھی ہم دن بھر کے تھکے ہارے ہمارے جسم شدت سے فل آف پروٹین کھانے مانگ
رہے تھے ‘ ہمارے منہ کھانے کی رغبت سے پانی سے بھرے جا رہے تھے ‘ میزبان نے
حق میزبانی ادا کر تے ہو ئے مینو میرے سامنے رکھ دیاتو میں نے ایک ہی خواہش
کہ کہ اگر افغانی پلاؤ میوہ جات اور مٹن کے ساتھ مل جائے تو کیا بات ہے تو
میزبان نے اقرار کیا کہ افغانی پلاؤ اِس ریسٹورنٹ کی فیورٹ ڈش ہے باقی آرڈر
میں نے میزبان پر چھوڑ دیا کہ وہ بہتر جانتا ہے کو نسا کھانا زیادہ لذیذ
خستہ مزیدار ہے اب میزبان نے لیمب روسٹ فل مرغ روسٹ بکرے کی چانپوں کا آرڈر
دیا ساتھ ہی ریسٹورنٹ کے مشہور کبابوں کا آرڈر خاص طور پر دیا جو اِس
ریسٹورنٹ کی پہچان تھے ساتھ میں افغانی خمیری روٹی کا بھی آرڈر دیا ہم آرڈر
کا انتظار کر نے لگے میزبان کا فون بجا وہ فون سننے لگا تو میں اطراف میں
دیکھنے لگا اِسی دوران تقریبا ایک پانچ سال کا بچہ باہر شیشے کے پار نظر
آیا جو بار بار لوگوں کو کھانا کھاتے دیکھ رہا تھا اُس کے چہرے پر بھوک کے
تاثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے تھے ‘ کھانے کی بھوک اُس کی آنکھوں اور
چہرے کے تاثرات سے بخوبی دیکھی جاسکتی تھی وہ مختلف لوگوں کو کھانے کھاتے
ہوئے دیکھ رہا تھا اِسی دوران ایک برقعہ پوش عورت اُس کو بازو سے پکڑ کر لے
جاتی ہے بچہ جانا نہیں چاہتا لیکن وہ اُسے گھسیٹ کر لے جاتی ہے بچہ جانا
نہیں چاہتا تھا لیکن ماں ہوٹل انتظامیہ کے خوف سے اُسے گھسیٹ کر لے گئی بچے
کے چہرے کے تاثرات بے چینی بے قراری بھوک میرے دل و دماغ میں فریم ہو گئی‘
بچے کے تاثرات مجھے کاٹ رہے تھے کہ میزبان فون سن کر آگیا اور اپنی باتیں
شروع کر دیں تھوڑی دیر میں کھانا آگیا دن بھر کی تھکاوٹ خالی معدے کھانوں
کی اشتہا انگیز گرما گرم خوشبو ہم دنیا سے کٹ کر کھانے پر ٹوٹ پڑے افغانی
پلاؤ کے پہلے نوالے نے ہی مجھے پلاؤ کا دیوانہ بنا دیا پھر پلاؤ تھا اُس کے
میوہ جات پلاؤ میں مٹن کی صحت مند خوب پکی ہو ئی بو ٹیاں پتہ ہی نہ چلا میں
آدھی پلیٹ سے زیادہ چٹ کر گیا تو میزبان نے میرا بازو پکڑکر روسٹ مرغ کی
ٹانگ اکھاڑ کر میرے ہاتھ میں دی ‘ جناب یہ مرغ بھی تو دہائیاں دے رہا ہے کہ
کوئی اُسے پوچھ ہی نہیں رہا سر اِس کے ساتھ بھی انصاف کریں‘ میرا معدہ کافی
بھر چکا تھا اب میں کھانے کے سحر سے نکل رہا تھا میں نے گرما گرم مرغ کی
ٹانگ کے لذیز نرم ریشوں کو اُدھیڑنا شروع کیا باورچی کو داد دی ابھی میں
مرغ کی ٹانگ چبا رہا تھا کہ اچانک پھر میری نظر باہر شیشے کے پار بچے پر
پڑی جو غور سے مجھے کھاتا دیکھ رہا تھا بھوک اُس کے چہرے پر ناچ رہی تھی
اِسی دوران بیرے نے اُسے کہا دفع ہو جاؤ تو اُس کی ماں پھر اُسے گھسیٹ کرلے
گئی ‘ میں نے میزبان سے پوچھا تو اُس نے کہا سر آپ کھانے کا ذائقہ کیوں
خراب کر رہے ہیں آپ کھانے کو انجوائے کریں میں پھر کھانے کی طرف متوجہ ہو
تو گیا لیکن معصوم بچے کی آنکھیں مجھے خنجر کی طرح کاٹ رہی تھیں ہم نے خوب
سیر ہو کر کھانا کھایا بلکہ زیادہ ہی کھایا کھانے کے بعد خوشبو دار قہوہ
اور پھر ساتھ ہی انڈین دوکان سے شاہی قلفیاں منگوائی گئیں کھانے قہوے کے
بعد کھوئے الائچی والی قلفی میں اِس خوشگوار حیرت کو انجوائے کر تا ہوا
باہر نکلا بہت سارا کھانا بچ گیا تھا جو میزبان نے گھر کے لیے پیک کروا لیا
تھا میں ٹھنڈی ٹھار الائچی بادام والی کھوئے والی قلفی کا لذیذ ٹکڑا منہ
میں ڈال کر اُسے چوستا ہوا باہر نکلا تو آواز آئی اﷲ کے نام پر ہمیں بھی
کھانا کھلادو اﷲ آپ کا بھلا کر ے ہم دو دن سے بھوکے ہیں ‘ مجھے اور میرے
بچے کو کھانا لے دیں میں نے نسوانی آواز کی طرف دیکھا تو برقعے میں ملبوس
وہی عورت اپنے اسی بچے کے ساتھ ملتجی نظروں سے ہماری طرف دیکھ رہی تھی بچہ
میرے ہاتھ میں قلفی کو گھور رہا تھا میں نے غیر ارادی طور پر قلفی بچے کی
طرف بڑھا دی اُس نے فوری پکڑ لی اور اُسے چاٹنا شروع کر دیا دوست کے ہاتھ
میں پیک کھانے کے شاپر تھے میں نے دونوں پکڑ کر اُس عورت کے حوالے کئے ماں
بیٹے کی بے بسی مجھے کاٹ رہی تھی برطانیہ میں کوئی اِس طرح ہوٹل کے باہر
بھیک مانگے گا یہ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا میرا دوست بڑ بڑا
رہا تھا ان لوگوں نے ہمیں بھی یہاں بد نام کیا ہے عورت نے کھانا پکڑا اور
وہاں سے چلی گئی ہم واپس آگئے میں رات کو کروٹیں بدلتا رہا دوسرے دن دوست
سے کہا آج ہم پھر اُسی ریسٹورنٹ پر جائیں گے اُس بچے اور ماں کو کھانا
کھلائیں گے پہلے تو دوست نے بہت سمجھایا پھر میری بات مان لی اگلی شام پھر
اُسی ریسٹورنٹ کے باہر کھڑے تھے جہاں پر وہی عورت اپنے بچے کے ساتھ سوالی
بنی جھولی پھیلائے بیٹھی تھی میں نے جاتے ہی اُسے کہا آؤ بہن آج آپ کو خوب
کھانا کھلاتے ہیں تو وہ بو لی سر میرا خاوند گھر میں بیمار ہے آپ کل کی طرح
مجھے پیک کروا دیں ہم نے اندر جاکر خود بھی کھانا کھایا اُ سکے لیے زیادہ
کھانا پیک کرا کر باہر آئے تو میں نے کہا آئیں بہن آپ کو ڈراپ کر دیں پہلے
تو وہ انکاری ہو ئی لیکن پھر میرے مثبت رویے پر تیار ہو گئی راستے میں جب
میں نے پوچھا کہ برطانیہ جیسے امیر ملک جہاں پر پونڈوں کی بارش ہو تی ہے جو
پو ری دنیا کے غریبوں کو خوراک کی ایڈ دیتا ہے جہاں پر ویلفیئر ریاست اپنے
بے روزگاروں بوڑھوں یتیموں طلاق یافتہ عورتوں کو بڑا وظیفہ دیتی ہے اُس ملک
میں تم سڑکوں پر بھیک مانگتی پھر رہی ہو پہلے تو اُس نے بتانے سے گریز کیا
لیکن جب میرے میزبان نے میری تعریفیں کی تو وہ مجھ سیاہ کار کو نیک بندہ
سمجھ کر دعائیں لینے کے لیے بتانے پر آمادہ ہوئی ‘ سر میں پاکستان لاہور کی
رہنے والی ہوں میں اور میرامیاں دونوں دس سال پہلے ایک دوسرے کی محبت میں
گرفتار ہو ئے یہ محبت اندھے عشق میں بدلی پھر ہمیں پوری دنیا میں ایک دوسرے
کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں ا ٓتا تھا اب ہم دونوں نے ایک دوسرے کو پانے کے
لیے اپنے ماں باپ کو منانے کی پو ری کو شش کی لیکن میرے ماں باپ کسی بھی
صورت میں میری محبت کی شادی پر راضی نہیں ہو ئے تو میں نے ماں باپ کے کہنے
پر برطانیہ میں شادی کر لی ‘ دل میں یہ پلان تھا کہ وہا ں جا کر اپنے عاشق
کو بلا لوں گی میں شادی کر کے یہاں آگئی یہاں آکر معصوم شریف خاوند کو چھوڑ
دیا اسی دوران میرا عاشق بھی سٹودنٹ ویزے پر یہاں آگیا وہ اپنے والدین کی
جائیداد فروخت کر کے انہیں کنگال کر کے آیا تھا اُس نے آکر مجھ سے شادی کر
لی نہ اُس کے پاس پیپر تھے نہ میرے پاس اُس نے اپنے والدین کو دھوکہ دیا
میں نے اپنے والدین اور خاوند کو ‘ ہم دونوں شادی کے بعد اکٹھے رہنے لگے ہم
دونوں غیر قانونی تھے بد دعائیں ہم دونوں کا پیچھا کر رہی تھیں کچھ عرصہ ہم
عدالتوں میں کیس لڑتے رہے فیصلہ ہمارے خلاف آیا سارے پیسے وکیلوں نے کھا
لیے میرے میاں کو قصائی کی دوکان پر کام کر تے ہوئے زخم لگا ‘ غیر قانونی
ہونے کی وجہ سے علاج نہیں کرا سکتے تھے زخم خراب ہو ا تو وہ بیڈ پر لیٹ گیا
گھر میں فاقے تھے جب بھوک سے مرنے لگے تو میں اب فوڈ سٹریٹ آکر کھانا لے
جاتی ہوں ہم نے والدین کو دھوکا دیا خدا نے ہمیں دھوکا دے دیا اب ہم
برطانیہ کے بھکاری ہیں جو لوگوں کے بچے ہوئے ٹکڑوں پر زندہ ہیں ہم برطانیہ
جیسے ملک میں بھوک سے مر رہے ہیں کیونکہ ہم نے والدین کو ناراض کیا تو ہم
سے خدا بھی ناراض ہو گیا پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ |