ویلنٹائن ڈے - تصویر کا بھیانک رخ٬ ویڈیو

جی تو 14 فروری آگیا ہے۔  ہاں جی اس کو یومِ محبت کہا جاتا ہے۔آپ نے بھی اس دن کے لیے کچھ نہ کچھ سوچا ہوگا۔آپ کیا سب ہی سوچتے ہیں، اس دن کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ چاہے شدی شدہ ہوں، کسی کے ساتھ منسوب ہوں یا بس ویسے ہی ’’ دوست ‘‘ ہوں۔شادی شدہ جوڑے ایک دوسرے کو تحفے دیتے ہیں۔کہیں گھومنے پھرنے جاتے ہیں۔ یہی کام غیر شادی شدہ جوڑے بھی کرتے ہیں۔ ہے نا!

البتہ کچھ باتیں ہم لوگ نہیں سوچتے۔
 


ہم یہ دن منا کیوں رہے ہیں؟ کہاں سے شروع ہوا یہ دن؟ کس نے شروع کیا یہ دن؟ ہم تک کیسے پہنچا؟ ہمارے معاشرے میں یہ اتنا عام کیوں ہوگیا؟نہیں ! ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت یا فرصت نہیں ہے۔ بس میڈیا ایک ڈگڈگی بجاتا ہے اور ساری قوم بچہ جمہورا کی طرح اس کی ڈگڈگی پر ناچنے لگتی ہے۔

یہ دن اہل مغرب نے ایجاد کیا۔ اہل بظاہر بہت تہذیب یافتہ، بہت خوشحال نظر آتے ہیں، لیکن درحقیقت اندر سے وہ لوگ محرومیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پہلے سائنس اور ٹیکنالوجی اور ترقی کے نام پر مذہب کو ازکارِ رفتہ قرار دیا۔ اس کے بعد وہ مذہب سے بےگانہ ہوتے گئے۔ اس معاشرے کا مرد بہت عیاش، بہت ہوس پرست اور چالاک ہے۔ اس نے اپنی عیاشی، ہوس پرستی کے لیے عورت کو گھر سے بے گھر کیا۔ حقوق کے نام پر، برابری کے نام پر، آزادی کے نام پر۔ اور پھر اس طرح اس نے ایک تیر سے کئی شکار کیے۔ برابری اور مساوات کے نام پر عورت کو ان خصوصی حقوق سے محروم کیا جو بحیثت عورت اس کو ملنے چاہیے تھے اور جو کہ اسلام نے عورت کو 1400سال پہلے عطا کردیے تھے۔ جی میں بالکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں۔ ہمارے معاشرے میں بسوں میں یا کسی بھی چیز کی قطار میں خواتین کو ترجیحاً جگہ دی جاتی تھی اور اب بھی یہ رجحان قائم ہے ( اگرچہ اب بسوں میں صورتحال بہت خراب ہے۔) لیکن مغرب میں اس کا کوئی تصور نہیں۔ بس میں جگہ نہیں ہے تو کوئی بات نہیں عورت بھی مرد کے ساتھ ’’شانہ بشانہ‘‘ کھڑے ہوکر سفر کرے گی۔ کسی بھی چیز کی قطار میں اسے کوئی فوقیت یا ترجیح نہیں دی جائے گی اور وہ بھی مردوں کے درمیان قطار میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتطار کرے گی۔ یہ تو چھوٹی سی مثال تھی۔

اب مغرب کے مرد کی ہوس پرستی اور چالاکی دیکھیے۔ یورپ کے انتہائی سرد موسم کے اعتبار سے اس نے اپنے لیے پینٹ ، کوٹ، ویسٹ کوٹ کا ملبوس پسند کیا ، اور عورت کے لیے اسکرٹ، منی اسکرٹ، چھوٹی ٹی شرٹ وغیرہ کو ’’فیشن ‘‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ وہاں کی عورت اس کی ہوس ناک نظروں کو آسودہ کرتی رہے۔اس کے ساتھ ساتھ آزادی اور مساوات کے نام پر معاش کا بوجھ بھی اس پر ڈال دیا۔ اب عورت گھر کی ذمے داریوں کو بھی دیکھے اور ساتھ ساتھ ہوٹل، دکان، ریسٹورینٹ اور دفاتر میں کام بھی کرے۔ اس طرح خاندانی نظام کو بگاڑ دیا گیا۔ ہوس پرست معاشرے نے خاندانی نظام کو بگاڑا لیکن معصوم اور نوخیز بچے بچیاں اب بھی اس کی پہنچ سے دور تھے۔ اس کے لیے قانون سازی کی گئی کہ 18سال کے بعد بچے عاقل و بالغ ہوجاتے ہیں اور وہ اپنی مرضی کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ والدین کو ان پر روک ٹوک کا کوئی حق نہیں۔ لیجیے صاحب جہاں والدین تھوڑا بہت اپنے بچوں کا خیال رکھ سکتے تھے قانونی طور پر انہیں اس حق سے بھی محروم کردیا گیا۔ اب 18سال کے بچے بچیاں جو گل کھلاتے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ جب بچے والدین سے بے گانہ ہوجاتے ہیں تو پھر والدین کا بڑھاپا اولڈ ہاوئسز میں سسکتے اور اپنے بچوں کی راہ تکتے گزر جاتا ہے اور ایک دن وہ اس دنیا سے گزر جاتے ہیں۔

اس مغربی معاشرے نے اپنے معاشرے کی ان خامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے مختلف دن بنا لیے ہیں۔ والدین کا دن، ماں کا دن، باپ کا دن، اولاد کا دن، محبت کا دن، شوہر کا دن ، بیوی کا دن، یہ دن ، وہ دن اور سال بھر میں اس طرح چھے سات دن منا کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم نے حق ادا کردیا۔ ہم بھی اہل مغرب کی مصنوعی چکاچوند سے متاثر ہوکر اندھا دھداس کے پیچھے بھاگے جارہے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مغرب کی اس اندھی تقلید سے بچتے ہوئے اپنے دین ، اپنی روایات کو فروغ دیں۔ شرم و حیا کے کلچر کو عام کریں۔ لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کو سوچنا چاہیے کیوں کہ لڑکے صرف اور صرف اپنی ہوس ، اپنی سفلی جذبات کی تسکین چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ لڑکیوں کو ہر طرح سے رجھاتا ہے، اپنی شخصیت، اپنی دولت، اپنی صلاحیتوں اور جب ان سب سے کام نہ بنے تو پھر جذباتی بلیک میلنگ کے ذریعے۔

لڑکیاں ان ہتھکنڈوں کے آگےمجبور ہوجاتی ہیں اور پھر عمر بھر کا پچھتاوا ان کا ساتھی بن جاتا ہے۔ جانتے ہیں کیوں؟ سائنس نےبہت ترقی کرلی ہے نا! پہلے ایسی جذباتی غلطیاں ہوتی تھیں تو کسی کو پتا نہیں چلتا تھا۔ اب مرد لڑکی کو بیوقوف بناتا ہے کہ ان ’’حسین‘‘ لمحوں کو موبائل میںمحفوظ کرلیا جائے۔’’ میں کسی کو نہیں دکھائوں گا۔ ‘‘ ’’ بس دیکھ کر ڈیلیٹ کردوں گا‘‘ لڑکیاں بے چاری اس جال میں آجاتی ہیں اور پھر یہ ’’ حسین ‘‘ لمحات ان کی زندگی کا سب سے بڑا روگ بن جاتے ہیں۔ یہ لمحات کیمرے میں محفوظ کرلینے کے بعد محبت کے دعوے دار کے چہرے سے نقاب اتر جاتا ہے۔ اب وہ شادی کے نام سے کترانے لگتا ہے۔ پہلے کہا جاتاہے کہ تمہاری خاطر پوری دنیا سے ٹکر لوں گا۔ لیکن کام نکل جانے کے بعد اب وہ بتاتا ہے کہ ’’ میری امی نہیں مان رہی ہیں۔‘‘ ’’ ابو بہت سخت ہیں۔‘‘ اور ساتھ ہیں اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے وہ کھل کر دھمکی دیتاہے کہ ’’اگر میری ہوس پوری نہ کی تو انجام سوچ لو۔‘‘ ساتھ ہی وہ بڑی فیاضی سے اپنے دوستوں کو بھی اپنی ’’ محبت‘‘ کے جسم سے مستفیض ہونے کا موقع دیتا ہے۔

تو پھر ان سب سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ حیا کے کلچر کو عام کریں۔ اپنے آپ کو بچائیں۔ مغرب کی اس گندگی کو اپنے معاشرے میں فروغ نہ دیں۔

YOU MAY ALSO LIKE:

Every year on February 14, candy, flowers and gifts are exchanged between loved ones, across the United States and in other places around the world, all in the name of St. Valentine.