پاکستان کے شہر ساہیوال میں جنوری کے مہینے میں پنجاب کے
انسدادِ دہشت گردی کے محکمے کے اہلکاروں کے ہاتھوں چار افراد کی ہلاکت کی
تحقیقات کرنے والے ٹیم کی رپورٹ آنا تاحال باقی ہے تاہم شواہد کا فورینزک
تجزیہ کرنے والی ایجنسی نے اپنی حتمی رپورٹ جمع کروا دی ہے۔
|
|
پنجاب فورینزک سائنس ایجنسی لاہور کی رپورٹ کے مطابق ‘سی ٹی ڈی پنجاب کی
جانب سے تجزیے کے لیے جمع کروائے جانے والے زیادہ تر شواہد میں ردوبدل کیا
گیا۔’
فورینزک یا سائنسی تـجزیے کی رپورٹ سی ٹی ڈی پنجاب کے اس مؤقف کی بھی تردید
کرتی ہے کہ ‘پہلے گولی گاڑی میں سے چلائی گئی اور یہ کہ گاڑی میں سوار
افراد نامعلوم موٹر سائیکل سوار کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔’
یاد رہے کہ رپورٹس کے مطابق معاملے کی تحقیقات کرنے والی پانچ رکنی مشترکہ
تحقیقاتی ٹیم کے سامنے زیرِ حراست سی ٹی ڈی اہلکاروں نے اپنے بیانات میں
یہی ابتدائی مؤقف دہرایا تھا۔
‘بندوقوں کی نالیاں، فائر پنیں بدلی گئیں’
پی ایف ایس اے کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ایجنسی کو بھجوائے
گئے سی ٹی ڈی اہلکاروں کے اسلحے کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ اس میں ردوبدل
کیا گیا تھا۔’
ان کا کہنا تھا کہ ’ان کی بندوقوں کی نالیاں تبدیل کی گئیں تھیں۔ کچھ کی
فائر پِنز بدل دی گئی تھیں۔’
کسی بندوق کی فائر پِن کے تجزیے سے یہ پتہ چلانے میں مدد ملتی ہے کہ جو خول
جائے وقوع سے ملے، وہ گولیاں کس بندوق سے چلائی گئیں۔
|
|
اسی طرح ہر بندوق کی نالی اپنی نوعیت کی ہوتی ہے۔ گولی گزرنے سے اس کے اندر
بننے والی جھریوں سے یہ پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیا اس مخصوص بندوق سے ایک
سے زیادہ گولیاں چلائیں گئیں۔
‘سی ڈی آر میں ٹیمپرنگ کی گئی’
پی ایف ایس اے کے اہلکار کے مطابق سی ٹی ڈی پنجاب کی جانب سے جو سی ڈی آر
بھجوایا گیا اس میں بھی ردوبدل کیا گیا تھا۔ ‘تقریباً تمام ہی شواہد میں
تبدیلی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔’
سی ڈی آر یعنی کال ڈیٹا ریکارڈ پولیس کی وائرلیس یا دیگر ذرائع مواصلات کا
مکمل ریکارڈ رکھتا ہے۔ اس سے یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ کس وقت پر پولیس
اہلکاروں کو کس قسم کی کارروائی کے لیے کیا احکامات جاری کیے گئے۔
پی ایف ایس اے کے اہلکار کے مطابق ‘سی ڈی آر کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کی گئی
تھی یعنی اس میں سے پیغامات کو ضائع کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
|
|
‘پولیس کی کھڑی گاڑی پر گولیاں چلائی گئیں’
سی ٹی ڈی اہلکاروں کی جانب سے یہ مؤقف اپنایا گیا تھا کہ وقوعہ کے وقت سفید
سوزوکی آلٹو گاڑی میں سوار افراد کی طرف سے ان پر فائرنگ کی گئی تھی اور
گولیوں کے نشانات پولیس کی گاڑی پر موجود تھے۔
پولیس کی اس گاڑی کو بھی پی ایف ایس اے تجزیے کے لیے بھجوایا گیا تھا۔ پی
ایف ایس اے کی رپورٹ کی مطابق ‘پولیس کی اس گاڑی پر گولیاں اس وقت چلائی
گئیں جب وہ کھڑی تھی اور حرکت میں نہیں تھی۔’
پی ایف ایس اے کے مطابق ‘تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کی گاڑی پر گولیاں
وقوعہ کے بعد چلائی گئیں۔’ تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ گولیاں خود سی ٹی ڈی
اہلکاروں نے اپنے مؤقف کو تقویت دینے کے لیے وقوعہ کے کچھ دیر بعد یا بعد
میں چلائیں؟
‘ہلاک ہونے والوں کو چند گولیاں محض ڈیڑھ
فٹ سے لگیں’
دوسری جانب پی ایف ایس اے کی رپورٹ کے مطابق سفید سوزوکی آلٹو گاڑی میں
سوار ہلاک ہونے والے چار افراد کو متعدد گولیاں لگیں۔ ‘یہ گولیاں مختلف سمت
سے اور مختلف فاصلوں سے گاڑی پر چلائی گئیں۔’
پی ایف ایس اے کے اہلکار کے مطابق ‘سب سے قریب سے چلائی جانے والی گولی
ڈیڑھ فٹ کے فاصلے سے چلائی گئی۔’
|
|
شواہد میں رد و بدل کرنے کی وجہ کیا ہو
سکتی ہے؟
پی ایف ایس اے کی جانب سے شواہد میں ردوبدل کی تصدیق سامنے آنے کے بعد
بظاہر سی ٹی ڈی کے گرفتار اہلکاروں کے اپنے ابتدائی مؤقف پر ڈٹے رہنے کی
منطق واضح ہوتی ہے یعنی مرنے والے سی ٹی ڈی پنجاب کے اہلکاروں کی گولی سے
نہیں مرے اور اس دلیل کو ثابت کرنے کے لیے موقع کے شواہد میں تبدیلی کر دی
جائے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ کیا سی ٹی ڈی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ رد و بدل کرنے کی
یہ کوشش سائنسی تجزیے میں پکڑی جا سکتی ہے؟
ماہرِ قانون اور فوجداری وکیل اعظم نذیر تارڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ
‘شواہد میں تبدیلی کرنا دانستاً سچ کو چھپانے یا مسخ کرنے کے زمرے میں آتا
ہے جس کے تحت ذمہ داران پولیس افسروں کے خلاف کئی دفعات کے تحت سخت ترین
کارروائی ہو سکتی ہے۔”
اس کارروائی کا آغاز تحقیقات کرنے والے متعلقہ پولیس افسر بھی کر سکتے ہیں
اور مدعی مقدمہ بھی عدالت کو اس کی درخواست دے سکتا ہے۔ تو ایسا کیوں کیا
گیا ہو گا؟
اس کی ایک وجہ یہ نظر آتی ہے کہ سی ٹی ڈی کے ملزمان اہلکاروں کے خلاف
کونکلوسِو ایویڈینس یا قطعی شہادت نہ آنے دی جائے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے حالیہ قوانین کے مطابق فورینزک ثبوتوں کو شہادت کے
طور پر قبول کرنا یا نہ کرنا عدالتوں کی صوابدید پر ہے۔ چند مقدمات میں
فورینزک شہادت کی بنیاد پر عدالتوں نے ملزمان کو سزائیں بھی سنائی ہیں
|