سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی 405 ارب روپے کی آفر بھی
مسترد کر دی
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاون کی انتظامیہ کی
طرف سے کراچی میں 16 ہزار ایکڑ اراضی کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے چار
کھرب روپے جمع کرنے کی پیشکش مسترد کر دی ہے۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اس زمین کی موجودہ قیمت اور ملکی کرنسی کی قدر و
قمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
|
|
بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے اپنی پیشکش میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ وہ
405 ارب روپے کی رقم 12 سالوں میں ادا کریں گے۔ اس پیشکش کے مطابق بحریہ
ٹاون کی انتظامیہ پہلے چھ سالوں میں ہر ماہ دو ارب روپے کی رقم جمع کروائے
گی جبکہ باقی ماندہ چھ سالوں میں ہر ماہ تین ارب روپے کی رقم جمع کروائی
جائے گی۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق اس سے پہلے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کی طرف سے
اس زمین کو جائز قرار دینے سے متعلق سپریم کورٹ کو 358 ارب روپے دینے کی
پیشکش کی گئی تھی جسے عدالت عظمیٰ نے مسترد کر دیا تھا۔
جسٹس عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعرات
کو بحریہ ٹاؤن عمل درآمد مقدمے کی سماعت کی۔
بینچ کے سربراہ نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ
اُن کے موکل نے اس عدالت میں قبضے کرنے کا اعتراف کیا اور شرمندہ بھی نہیں
ہوئے۔ اُنھوں نے کہا کہ سرکاری اراضی کے ایک انچ پر بھی قبضہ برداشت نہیں
کیا جائے گا۔
جسٹس عظمت سعید نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے
کراچی منصوبے کا آغاز سنہ 2013 اور 2014 میں کیا تھا اور پانچ سالوں کے
دوران اُنھیں بہت زیادہ رقم مل جائے گی۔
|
|
بحریہ ٹاؤن کے وکیل کا کہنا تھا کہ لوگوں سے حاصل کی جانے والی اس رقم سے
بہت سارے ترقیاتی کام بھی کرنے ہیں۔
بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بات بنتی نظر نہیں آ رہی اور
عدالت زمین کی اصل قیمت سے آنکھیں بند نہیں کر سکتی۔ عدالت نے بحریہ ٹاؤن
کے وکیل سے کہا کہ رقم کی قسطوں کا معاملہ بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو خود
ہی دیکھنا ہوگا۔
عدالتی استفسار پر نیب کے حکام نے بتایا کہ بحریہ ٹاون کے معاملے میں ایک
ریفرنس کراچی میں دائر کیا جائے گا جبکہ اس کے علاوہ چار اور ریفرنس بھی
دائر کیے جائیں گے۔
بینچ کے سربراہ نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نیب
کو اپنی کارروائیاں کرنے سے نہیں روکے گی۔
عدالت نے نامکمل تفصیلات جمع کروانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
مارکیٹنگ کمپنیوں نے عدالت سے تعاون نہیں کیا۔
بینچ کے سربراہ نے نجی کمپنیوں کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر
اُنھوں نے تعاون نہیں کرنا تو پھر عدالت یہ معاملہ نیب کو بھجوا دیتی ہے۔
عدالت نے اس مقدمے کی سماعت28 فروری تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض
کو یہ پیشکش کی تھی کہ اگر وہ کم ازکم پانچ سو ارب ادا کر دیں تو ان کے
خلاف تمام مقدمات کو ختم کر دیا جائے گا لیکن بحریہ ٹاؤن کے مالک نے اس آفر
کو قبول نہیں کیا تھا۔
|