14 فروری کو"ویلنٹائن ڈے "،"یوم محبت "اور" محبوبوں کا دن"
کے طور پر دنیا کے مختلف حصوں میں منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے،اس دن محبت
کے نام پر شرم وحیاء سے عاری سرگرمیاں ،حیاء سوز آزادانہ "مردو زن "کا
اختلاط ،پھولوں اور"صوتی وتصویری پیغامات "کا تبادلہ کیا جاتا ہے،صورت حال
تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اس دن باپردہ خواتین کو راہ چلتے روک کرزبردستی
چھیڑا جانا اور پھول دینا جیسے واقعات ریکارڈ میں آ چکے ہیں۔درحقیقت یہ دن
اب "یوم اوباشی "یا "یوم بے راہ روی " کی صورت اختیار کر چکاہے ۔
اگر ویلنٹائن ڈے کے پس منظر کا جائزہ لیا جائے اور اس کی حقیقت کو جاننے کی
کوشش کی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ تیسری صدی عیسوی کے عیسائی راہب"
سینیٹ ویلنٹائن "کی طرف منسوب ایک دن ہے،جس کے متعلق مختلف افسا نوی اور
رومانی کہانیاں روایت کی جاتی ہیں ،راہبہ (نن)کے عشق میں مبتلا اس راہب کو
کلیسا کی حدود وقیود کی پامالی اور جنسی تعلقات رکھنے کی پاداش میں سزا موت
دے دی گئی ،جس کو بعد میں" شہید محبت"کا درجہ دیا گیا ،اس کی یاد میں تب سے
اب تک 14فروری کو" یوم محبت "یا "ویلنٹائن ڈے"کے طور پر منایا جاتا ہے۔جب
کہ اس دن متنازعہ پہلوؤں میں سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ "اہل کلیسا" ہمیشہ
اس دن اور اس میں ہونے والی خرافات سے بے زار ہی نظر آئے ہیں اوراس دن کی
مذمت کے ساتھ ساتھ اسے جنسی بے راہ رویکی تبلیغ کا ذریعہ قرار دیاہے ،یہی
وجہ ہے کہ مسیحی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیےاوربینکاک میں
ایک مسیحی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کر دیا جس
پر ویلنٹائن کارڈ فروخت ہو رہے تھے۔“(ویکیپیڈیا)جب کہ ایک عرصہ سے مغرب میں
14فروری بے حیائی کے اس دن کو ہم جنس پرست مرد وعورتیں پورے جوش وجذبہ کے
ساتھ مناتے ہیں۔
تہذیب ومعاشرت کے حوالے اسلامی تعلیمات نہایت واضح اور پاکیزہ ہیں ،یہی وجہ
ہے کہ اسلامی معاشرے میں اخلاقیات،پاکیزگی ، حیاءاورناموس کاعنصر بدرجہ اتم
موجودہے،رسول اللہ ﷺکاارشادمبارک ہے " حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے اور ایمان
جنت میں جانے کا سبب ہے، بے حیائی جفا ہے اور جفا جہنم میں جانے کا سبب
ہے۔(مسند احمد،جامع ترمذی )باحیا ء انسان مخلوق میں محبوب اور اللہ کریم کا
مقبول بندہ بن جاتا ہے۔حیاء کی صفت سے محروم شخص حقیقی محروم ہے،ایسے شخص
کے بارے میں ارشاد نبوی ﷺ ہے "جب تو بے حیاء بن جائے تو جو چاہے کرلے"۔بے
حیاء شخص کسی ضابطہ ء اخلاق کا پابند نہیں ہوتا ہے۔
اسلام نے عورت کو عزت اور پاکدامنی کی چادر پہنائی ہے،ماں ،بیٹی ،بیوی اور
بہن جیسی عظمت عطا کی ،شریعت نے عورت کو حدود و قیود کا پابند بنا کر نہ
صرف تحفظ فراہم کیا بلکہ اس کی عصمت وناموس کی محافظ والد،بھائی اور بیٹوں
کی صورت میں عطاکئے۔بلاشبہ شرم وحیاء عورت کا زیور ہے جو فطرتاً اسے ودیعت
کیا گیا ہے،جب تک عورت اپنے اس زیور کی حفاظت کرتی رہتی ہے، اس وقت تک
معاشرے میں اس کی عزت ،وقار اور عفت قائم رہتی ہے ،معاشرہ پاکیزگی اور امن
کا گہوارہ بنا رہتا ہے،جب عورت خلافِ فطرت حیاء کے پردہ کو چاک کردیتی ہے
تو اس کا مقام ومرتبہ خاک میں مل جاتا ہے اور یہ سامان تفریح یا تشہیری مہم
کا ایک جزوبن کر رہ جاتی ہے،جس کا نتیجہ معاشرے میں اخلاقی برائیوں کی صورت
میں ظاہر ہوتا ہے ۔
ہرزمانے میں "مغرب "عورت کے معاملے میں افراط و تفریط کا شکار رہاہے،دور
جہالت میں عورت کے حقوق کا اس حدتک استصحال کیا گیا کہ اسے تفریح کا سامان
،قابل نفرت اورخریدوفروخت کی شے سے زیادہ حیثیت حاصل نہ تھی،جب کہ پورپ و
امریکہ میں آج بھی " عورت کو "برابری کے حقوق "اور" آزادی نسواں" کے خوشنما
عنوانات دے کر بنت حوا کے حقوق کا استحصال کیا جا رہا ہے ،تشہیر اور
مارکیٹنگ سے لے کر ذرائع ابلاغ تک،رقص وسرور کی محفلیں ہوں یا بازار حسن ہر
جگہ یہ صنف نازک تماشہ بنی ہوئی ہے۔ویلنٹائن ڈے جیسے تہوار اس بے راہ روی
کو مزید فروغ اور تقویت کا باعث ہیں۔مادر پدر آزاد معاشرہ عورت کے حقوق کی
پامالی کا خطرناک حد تک مرتکب ہوچکا ہے،وہ یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی معاشرے
میں عورت کو دئیے گئے مقام و مرتبہ کواپنے "خوشنما نعروں "اور" دعووں" کے
ذریعے متاثر کریں،چادر اور چاردیواری کے تحفظ سے نکال کر سربازار اس کی عزت
کا تماشہ کریں،"برابری "اور" حقوق "کا نعرہ لگا کر عورت کو اس کے فرائض
منصبی "تعمیر معاشرت ،افراد سازی اور تربیت اولاد "سے غافل اور دور کرکے
کسب معاش کی بھاری ذمہ داریاں اس کے کندھوں پر ڈال دیں۔
ستم بالا ستم یہ کہ آزادی نسواں کے "طلسم "میں عورت کو گرفتار کرکے اس کی
عفت،عصمت اور زندگی سے کھیلنا اس آزاد معاشرے کا سب سے خطرناک پہلو ہے،یہی
وجہ ہے کہ مغربی معاشرے میں خاندانی نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے ۔"ویلنٹائن
ڈے "اور "ہیپی نیو ائیر" جیسے مواقع کا اسلامی ممالک اور باالخصوص گزشتہ "دو
دہائیوں "سے پاکستان میں غیرمعمولی فروغ ہمارے اسلامی ومشرقی معاشرے کو
تباہ کرنے کی بڑی سازش ہے، جس کا ہمارا سماج متحمل نہیں ہو سکتا
ہےاوراسلامی تعلیمات ایسے حیاء سوز تہواروں کی نفی کرتی ہیں۔
|