بھائی اس ملک میں ہندوستان کی ایمبیسی بھی تو ہے، چین کی
بھی ہے، روس کی بھی ہے، امریکہ کی بھی ہے، ان کے سفرا ور وزرا بھی چکر
لگاتے رہتے ہیں، پھر یہ سعودی شہزادے کی آمد پر واویلا کیسا!؟یہ کون سے سر
پھرے لوگ ہیں جو چیخ وپکار کر رہے ہیں اور جن کی پکڑدھکڑ جاری ہے، ان چند
لوگوں کو پکڑنے سے کیا ہوگا!؟ہمارا مشورہ یہ ہے کہ سعودی شہزادے کی آمدپر
ان لوگوں کو بھی گلی کوچوں میں نکلنے دیا جائے، یہ دوچار لوگ زیادہ سے
زیادہ چندمقامات پر تقریریں کریں گے ، نعرے لگائیں گے اور پھر چلے جائیں گے۔
ان آشفتہ سروں کا گلیوں اور بازاروں میں نکلنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان
کے نکلنےسے دنیا میں پاکستان کی آبرو رہ جائے گی، عالمی برادری کو بھی پتہ
چلے گا کہ ملت پاکستان، یمن کے مسئلے پر اپنے اصولی موقف پر قائم ہے،ملت
پاکستان سعودی عرب میں یعنی سرزمین حرمین شریفین میں شراب و کباب کی محفلوں
سے بیزار ہے اور ملت پاکستان ،اسرائیل کے ساتھ ترکی،سعودی عرب اور اردن کے
تعلقات سے نالاں ہے۔
بس ان لوگوں نے یہی کچھ کہنا ہے اور ان کی تقریروں میں یہی کچھ ہونا ہے
جبکہ دوسری طرف سعودی ولی عہد 4 طیاروں کے ساتھ پاک سر زمین پر لینڈ کریں
گے اور پاکستانی فضائی حدود میں شاہی مہمانوں کو جے ایف 17 کے ساتھ
پروٹوکول دیاجائے گا،جے ایف 17 تھنڈر سے سلامی تو بہت ضروری ہے اس کے علاوہ
گارڈ آف آنر اور 21 توپوں کی سلامی بھی تو پروٹوکول کا حصہ ہے،وزیراعظم
ہاوس میں ظہرانہ اور ایوان صدر میں عشائیہ دیا جائے گا،سعودی وفد کے لئے
300 لینڈ کروزرز مختص کی گئی ہیں،نیز وزیراعظم عمران خان کابینہ سمیت سعودی
ولی عہد کا استقبال کریں گے،اوریہ بھی ہو سکتا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن
سلمان کی گاڑی بھی ہمارے وزیراعظم ہی چلائیں۔
یہ ہم نے استقبال کے لئے جن اقدامات کا ذکر کیا ہے یہ بہت کم ہیں جبکہ
عملاً اقدامات اس سے کئی گنا بڑھ کر کئے گئے ہیں۔ظاہر ہے ایک ایسا شہزادہ
ہمارے ہاں تشریف لارہاہے جسے اپنے اہداف حاصل کرنے کا ہنر آتا ہے، اب بعض
لوگ اسے یمنی عوام کا قاتل کہیں، فلسطینی عوام کا غدار کہیں، امریکہ و
اسرائیل کا ایجنٹ کہیں، جمال خاشقچی کا قاتل کہیں، کہنے والوں کو بھلا کون
روک سکتا ہے، انہیں کہنے دیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سر پھرے اور گستاخ
لوگوں کا منہ بند کرنے کے بجائے ان کی بات بھی سن لینی چاہیے ۔ میں نے
دیکھا ہے کہ ایسے بہت سارے گستاخ اور بے ادب لوگ جو ہر دور میں، قوم و ملت
کی خاطر حکومتوں کے مقابلے میں میں اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہیں، انہیں
تاریخ بڑے اچھے الفاظ میں یاد کرتی ہے۔
سعودی شہزادے کی پاکستان آمد پر شوروغل کرنے والے لوگ باغی ہیں یا ملک و
ملت کے محافظ ، اس کا فیصلہ تو آنے والا مورخ ہی کرے گا۔ ویسے بھی ہمارے
ہاں حالاتِ حاضرہ پر لکھنے والوں سے سنگین غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں، مثلا
کچھ عرصہ پہلے ایف آئی اے کی ویب سائٹ پر 7 ممالک کے شہریوں کو پاکستان آنے
کی اجازت دی گئی تھی جن میں اسرائیل کا نام بھی شامل تھا بعد میں
ڈائریکٹرامیگریشن عصمت اللہ جونیجو نے وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ یہ فہرست
وزارت داخلہ نے بھیجی تھی اور اس میں اسرائیل کا نام غلطی سے شامل ہو گیا
تھا، اسی طرح ایک اسرائیلی طیارے کی پاکستان میں آمد کی خبریں بھی چلیں
تھیں لیکن بعد ازاں اسے بھی غلطی ہی کہا گیا، تو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ
سعودی شہزادے کی آمد کے موقع پر بھی ہماری سرکار سے کئی غلطیوں کے سرزد
ہونے کا امکان ہے ، البتہ ہماری دعا ہے کہ خدا نہ کرےکہ ہماری تاریخ میں وہ
وقت آئے کہ ہم سعودی دسترخوان پر بیٹھ کر کوئی ایسی غلطی کریں کہ جو ہمیں
فلسطینیوں کے سامنے شرمندہ کر دے۔
چلتے چلتےیہ بھی عرض کرتا چلوں کہ چھ ماہ سے تہران میں قائم پاکستان
ایمبیسی ، پاکستانیوں کو پاسپورٹ بناکر نہیں دے رہی اور یہ بھی ایک چھوٹے
سے ٹیکنیکل فالٹ کی وجہ سے ہو رہا ہے، چھ ماہ ہو گئے ہیں، ایمبیسی کے پاس
بجٹ نہیں یا وقت نہیں بلکہ سچ پوچھئے تو اہمیت ہی نہیں چونکہ تحریکِ انصاف
کی حکومت میں یہ بھی ایک چھوٹی سی غلطی ہے، باقی غلطیوں کی طرح اس غلطی کو
بھی ہضم کیجئے۔
کہتے ہیں اچھے وقتوں میں لوگ اپنی ملی مشکلات کے حل کی خاطر ملی تنظیموں کی
طرف رجوع کیا کرتے تھے،لیکن اب ملت کے نام پر بڑے بڑے اجتماعات ہوتے
ہیں،فوٹو بنتے ہیں، عمامہ پوش طلبا کو فوٹوسیشن کے لئے اگلی صفوں میں
بٹھایا جاتا ہے لیکن ان پروگراموں میں پاسپورٹ کے مسئلےکے علاوہ باقی سب
کچھ بیان ہوتا ہے، اب تو یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ طلبا تنظیمیں اور
طلبا تشکل ہی طالب علموں کو ظلم سہنے اور چپ رہنے کے درس دیتے ہیں۔
لہذا میرے میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!صرف سعودی شہزادے کا رونا ہی کیا اب
ہر طرف شہزادے بیٹھے ہوئے ہیں۔ |