بھارت نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا اور اپنی
ساری توانائیاں اس کے خلاف صرف کرنے میں لگا ہوا ہے ۔بھارت کے حکمران
الیکشن میں کامیابی کے لیے پاکستان مخالف نعرے استعمال کرتے ہیں، اس کا
میڈیا پاکستان کے خلاف چیختا چنگھاڑتا ہے اوراس کے شدت پسند پاکستان کے
خلاف لوگوں کو اُکساتے ہیں غرض وہاں کوئی پاکستان کے غم سے آزاد نہیں اور
اِس کی جاسوس ایجنسی ’’را‘‘ تو گویا بنائی ہی پاکستان کے خلاف گئی ہے اور
وہ بڑی تندہی سے اپنا کام کر رہی ہے۔بھارت مشرق سے اگر اپنی سرحد سے
پاکستان کے اندر در اندازی کرتا ہے تو مغرب سے اُسے افغانستان کی سر زمین
میسر ہے جسے وہ دھڑلے سے پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے۔بھارت ہر اُس جگہ
سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے جہاں سے اُسے ذرہ برابر بھی
موقع ملے۔اُس کی کوششوں کا ایک ایسا ہی مرکز بلوچستان بھی ہے جہاں کے سخت
زمینی حالات اور سرداری نظام نے اسے وہ ترقی نہیں کرنے دی جو یہ صوبہ کر
سکتا تھا اور اسی چیز کا نہ صرف بلوچستان کی سیاست میں فائدہ اٹھایا گیا
بلکہ قومی سطح پر بھی اس بات پر سیاست کی گئی۔ اس چیز کا فائدہ دشمن نے بھی
خوب اٹھایا اور بلوچستان میں بدامنی پیدا کرنے کی کاروائیوں میں مسلسل
مصروف ہے۔ اُس نے یہاں شرپسندوں کو ہیرو بنانے کی کو شش میں اپنا بھر پور
کردار ادا کیا اور انہیں ریاست پاکستان کے خلاف ہر قسم کی مدد فراہم کی
گئی،اسلحہ فراہم کیا گیا اور پھر افغانستان میں ان کی تربیت کا اہتمام بھی
ہوتا رہتا ہے،ان کو معاوضہ دیا جاتا ہے اور ہر سہولت دی جاتی ہے۔ ان تمام
کاموں کو سرانجام دینے کے لیے یقیناًبلوچستان میں اُس کے کئی کارندے موجود
ہیں انہی میں سے ایک کارندہ حسین مبارک پٹیل جب پکڑا گیا تو اُس نے اعتراف
کیا کہ اُس کا اصل نام مبارک پٹیل نہیں بلکہ کلبھوشن یادیو ہے اور وہ کوئی
تاجر نہیں بلکہ بھارت کی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔کلبھوشن 3 مارچ 2016 کو
پکڑا گیا اور اُس نے اُس وقت بتایا کہ وہ 2022 میں ریٹائر ہو گا یعنی اُس
کی سروس کے آخری چھ سال بھی اُس نے یہی قتل و غارت گری کرنی تھی جو اُس نے
بلوچستان اور کراچی میں کی لیکن اُس کی بد قسمتی کہ وہ پکڑا گیا اور اپنا
مشن پایہء تکمیل تک نہ پہنچا سکالیکن اُس نے اعتراف کیا کہ اُس نے بلوچستان
اور کراچی میں وارداتیں کرائیں اور ایسا کرنے والوں کو مدد فراہم کی ۔کلبھوشن
کی گرفتاری اور اعترافی بیان کے بعد فوجی عدالت میں اُس پر مقدمہ چلا یا
گیا جس نے دہشت گردی، قتل و غارت کرنے اور بد امنی پھیلانے کے جُرم میں
اُسے موت کی سزا سنائی ۔کلبھوشن کو اپنی سزا کے خلاف پاکستان کی کسی بھی
سول عدالت میں اپیل کا حق ہے تاہم بھارت اپنے جاسوس کے اقبالی بیان کے
باوجود اس بات سے مکر گیا کہ وہ ایک جاسوس ہے۔پاکستان نے کلبھوشن کے ساتھ
ایک فوجی افسر جیسا ہی سلوک کیا لیکن بھارت نے اُسے اپنا افسر ماننے سے ہی
انکار کردیا۔یہ اور بات ہے کہ وہ اُس کا افسر ہے اسی لیے تو وہ اُس کی سزا
کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں پہنچ گیا اور حسبِ معمول اپنے جرائم کا
انکار کرنے لگا ۔کلبھوشن جو چاہ بہار ایران سے پاکستان میں براستہ بلوچستان
داخل ہو ا اُس نے اقرار کیا کہ وہ بھارت کا جاسوس ہے اور عرصہ دراز سے اس
کے لیے کام کر رہا ہے وہ جب یہ بیان دے رہا تھا تو اس وڈیو میں دیکھا جا
سکتا ہے کہ اُس کے جسم پر نہ توکسی سختی کے نشانات تھے نہ تشدد کے جس کا
مطلب یہ تھا کہ اُس نے یہ سب کچھ بغیر کسی دباؤ کے بتایا ہے لیکن اُس کا
ملک اس بات سے انکاری ہو گیا اور اسے بے گناہ ثابت کرنے پر تل گیا ۔کلبھوشن
ایک جاسوس ہے جس نے پاکستان میں دہشت گردی کے کئی واقعات کا بھی اعتراف کیا
اور اس کے باوجود اس کی ماں اور بیوی سے اس کی ملاقات کا انتظام کیا گیا جس
موقع پر بھارت کا ہائی کمشنر بھی موجود رہا اور ایسا کسی دباؤ کے بغیر صرف
اور صرف انسانی بنیادوں پر کیا گیا لیکن اس کے ملک بھارت نے اس پر بھی
اعتراض کیا یہ وہی بھارت ہے جس نے پاکستان کے جنگی قیدی مقبول حسین کو
چالیس سال تک قید میں رکھا نہ اُس کے خاندان کو اس کی خبر دی نہ ملک کو، نہ
صرف یہ بلکہ اُس کو بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے اس کی زبان تک کاٹی
گئی بھارت کو اُس وقت جنیوا کنونشن یا اُس کی کوئی شق یاد نہیں آئی لیکن اب
جاسوس کے لیے اُسے ویانا کنونشن ضرور یا دآگیا اور اُس نے عالمی عدالت
انصاف میں شکایت کی کہ کلبھوشن کو ویانا کنونشن کے تحت کونسلر تک رسائی دی
جائے لیکن وہ یہ مطالبہ کرتے ہوئے یہ بھول جاتا ہے کہ ویانا کنونشن جاسوس
یا دہشت گرد کے لیے نہیں اور پاکستان کا یہ موقف بالکل بجا ہے کہ کلبھوشن
کوئی عام شخص بھی نہیں جاسوس ہے لہٰذا کونسلر تک رسائی پر اُس کا کوئی حق
نہیں اور نہ یہ توقع کی جانی چاہیے کہ کوئی ملک اپنے ہاں دہشت گردی کروانے
والے کو معاف کر دے یہ اور بات ہے کہ پاکستان نے کلبھوشن کے ساتھ اب تک
باعزت سلوک کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں لینا چاہیے کہ اُسے اُن
پاکستانیوں کا خون معاف کر دیا جائے جو اُس کے دہشت گردانہ منصوبوں اور
کاروائیوں کی نذر ہو گئے یا اپنی جانوں سے گئے یا ان کی املاک واموال برباد
ہوئے اور یہ کوئی ایسا الزام نہیں جو ثابت شدہ نہ ہو بلکہ مجرم نے خود اس
کا اعتراف کیا اور ساری دنیا کے سامنے کیا ۔بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں
اپنا جوموقف دیا وہ کسی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔عالمی عدالت انصاف میں
بھارت نے یہ درخواست دی کہ اُسے ویانا کنونشن کے تحت کونسلر تک رسائی دی
جائے جس پر عدالت نے سماعت کے لیے 18تا21فروری2019کی تاریخ دی ہے جس میں
دونوں ممالک کے وکلاء اپنے دلائل دیں گے ۔عالمی عدالت انصاف میں پندرہ جج
ہوتے ہیں جو نو سال کی مدت کے لیے منتخب ہوتے ہیں اور اس وقت ان میں ایک
دلویر بھنڈاری کا تعلق بھارت سے ہے لیکن یہ اُمید کی جاتی ہے کہ پاکستان کے
کیس کی مضبوطی کے لیے یہی کافی ہوناچاہیے کہ کلبھوشن کا اعترافی بیان موجود
ہے جو اُس نے راضی برضا دیا ہے اور ابھی تک اس پر کسی قسم کے تشدد کا کوئی
ثبوت بھارت بھی نہیں دے سکا ہے۔عالمی عدالت انصاف نے اگر پاکستان کو اس کی
سزا پر علمدرآمد سے فی الحال روکا ہے تو کیا یہ عدالت اُن مرنے والوں کے
ورثاء کو ان کے پیاروں کو واپس دلا سکتی ہے وہ بھی جب مجرم خود کھل کر
بتارہا ہے کہ وہ قاتل بھی ہے اور دہشت گردی کا منصوبہ ساز بھی اُس نے ان
لوگوں کے نام تک بتائے جن سے اُس نے رابطے بنائے اور ان کو استعمال کیا یا
اُن سے مدد لی مثلا اُس نے خود بتایا کہ حاجی بلوچ سے اُس کے رابطے تھے جس
نے بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کی، اُس نے خود یہ اعتراف کیا کہ
سانحہ صفورا کے پنتالیس بے گناہ اُسی نے مارے،اُس نے یہ خود بتا یا کہ اُس
کا خاص مقصد سی پیک کو سبوتاژ کر نا تھا یعنی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ
پاکستان کے مستقبل کی ترقی کو بھی روکنا تھا اور اگر اُس نے یہ سارے
اعترافات کیے تو کیا پھر بھی اُسے معاف کر دینا چاہیے۔اب تو توقع یہ بھی ہے
کہ اگر کسی طرح کلبھوشن پاکستان میں سزاسے بچ جائے تو خود بھارت کے لیے وہ
قابلِ قبول نہیں ہو گا۔ دنیا کو بھی سب کے لیے معیار ایک رکھنا ہو گا اگر
وہ دہشت گرد ہے جس کا وہ اعتراف بھی کر چکا ہے تو پاکستانیوں کا خون اس کی
گردن پر ہے۔ لہٰذا اُس کی معافی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہو نا چاہیے اور اس
کو یہ سزا بطور قاتل، بطور دہشت گرد اور بطور جاسوس ہر طرح سے ملنی چاہیے۔
|