جس گھر میں میرا بچپن گزرا اس میں چھت پر جانے کے لیئے
کوئی سیڑھی نہیں تھی۔ اگر کبھی کبھار چھت پر جانے کی ضرورت پڑبھی جاتی تو
پیچھے ہمسایوں کی سیڑھیوں کا استعمال کرنا پڑتا تھا۔ چھت پر نا جانے کی وجہ
سے اور والد صاحب کے ڈر کی وجہ سے کبھی پتنگ بازی کی طرف رحجان نہ ہو
سکا۔چھت پر پتنگیں اڑتی دیکھ کر کبھی کبھار دل میں ایک خواہش سی اٹھتی تھی
لیکن والد کے خوف سے وہی دم توڑ دیتی تھی۔ آئے دن خبریں سنتے تھے کہ پتنگ
اڑاتے ہوئے فلاں بچہ چھت سے گِر گیااور کسی کا سر پھٹ گیا تو کسی کی ٹانگ
فریکچر ہو گئی ۔ کیمیل والی ڈور آئی تو موٹر سائیکل سواروں کی شامت
آگئی۔ایک دوسرے کی پتنگ کاٹنے کے لیئے دھاتی ڈور کے استعمال نے کئی قیمتی
جانیں لے لیں۔لاہور میں قیام کے دوران میرے ایک دوست کے ساتھ اس کے گھر
جانے کا اتفاق بھی ہوا۔ جہاں بسنت پوری رات منائی جاتی رہی اور طرح طرح کے
پکوان پکائے گئے اور ہر طرف جشن کا سما ں تھا۔جشن ِ بہاراں کے سلسلے میں
ریس کورس پارک میں بھی جانا ہوا۔جہاں ایک میلہ سجا ہوتا تھا اور بڑی بڑی
پتنگیں اڑائی جارہی ہوتی تھیں۔بسنت ہماری زندگی میں اس طرح رچ بس گئی تھی
کہ اس کے بغیر مزہ نہ آتا تھا۔چاہے آپ کو پتنگ اڑانی آتی ہے یا نہیں ۔آپ
بہت اچھی طرح بسنت انجوائے کر سکتے تھے۔
میرے خیال میں بسنت کا تہوار منانے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کی وجہ سے جو
بے شمار قیمتی جانیں ہر سال ضائع ہوتی ہیں ان کو حکومتی اقدامات روکنے میں
کامیاب نہیں ہوسکے۔اگر پتنگ بازی کسی میدان میں کی جائے اور ممنوع قسم کا
میٹریل استعمال نہ کیا جائے تو پھر انجوائے کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔اگر
یہی کام مکانوں کی چھتوں پر کیا جائے اور تمام ممنوعہ میٹریل استعمال کیا
جائے تو اس سے خطرناک کھیل کوئی نہیں۔
انسان اپنی زندگی کو گزارنے کے لیئے مختلف طریقوں سے انجوائے بھی کرتا ہے
اور لطف اندوز بھی ہو تاہے۔یہ خوشگوار زندگی کا خاصہ ہے۔انجوائے کرنے کے
لیے آپ کو دوسروں کی حفاظت کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے۔ اگر آپ کے انجوائے
کی زد میں آکر کوئی دوسرا فرد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو ایسے انجوائے
کا کیا فائدہ۔پتنگ بازی کے بارے میں ایک سبق مجھے یا دا ٓرہا ہے کہ ایک
پتنگ باز سے پوچھا گیا کہ جب آپ پتنگ اڑارہے ہوتے ہیں اور وہ آپ کی نظروں
سے اوجھل ہو جاتی ہے تو پھر آپ کو کیسے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی پتنگ کہا ں
ہے اور یہ کیسے پتا چلتا ہے کہ وہ کٹ گئی ہے۔ پتنگ باز نے کہا کہ جب میری
پتنگ میری نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے تو میں اس کو دل کی آنکھ سے دیکھتا
ہوں اور ڈور کی کھنچاؤٹ سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ میر ی پتنگ کہا ں ہے؟۔جب
میری پتنگ کٹ جاتی ہے تو اس بات کا پتہ بھی مجھے اپنی ڈور سے ہی ہوتا ہے جب
اس کی کھنچاؤٹ ختم ہو جاتی ہے۔پتنگ باز نے بہت پیاری بات کہی ہے۔ اس کو ہم
اپنی زندگی پر بھی لاگو کر سکتے ہیں۔جب انسان خود کو اﷲ کے حوالے کر دیتا
ہے تو پھر اس کو اپنی حرکت کا اندازہ اپنے اعمال سے ہی ہوتا ہے۔اور جیسے ہی
ہماری ڈور اﷲ کے ہاں سے کٹ جاتی ہے تو پھر ہمارا نام ونشان مٹ جاتاہے۔
جستجو کے مستقل قارئین! آج میں اس کالم میں آپ کی توجہ انتہائی اہم معاملے
کی طرف دلوا رہا ہوں کہ بسنت کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اگر
اس معاملے کی باقاعدہ منصوبہ سازی کی جائے اور پتنگ بازوں کو باقاعدہ
گراونڈ فراہم کیے جائیں۔دھاتی تار کی باقاعدہ چیکنگ کی جائے اور کیمیل ڈور
بیچنے والوں کو جیلوں میں بند کیا جائے۔ یہ لوگ ہی ان پتنگ بازوں کی جانیں
جانے کا سبب بن رہے ہیں۔اگر بسنت کو منانے کے لیے باقاعدہ جگہوں کا انتظام
کر دیا جائے تو ہم لوگ بہت سی قیمتی جانیں بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
|