میں کمرے میں داخل ہوا تو حیرت سے رک گیا جو منظر میرے
سامنے تھا یہ میں ا پنی زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا ایک وسیع و عریض
لمبی چوڑی جہازی سائز کی کھانے کی ٹیبل جس پر دنیا جہاں کے فروٹ مٹھائیاں
سلاد چٹنیاں اور گرما گرم مہکتے ہو ئے کھانے سجے ہو ئے تھے کمرہ کھانوں کی
خوشبو دار مہک سے آنے والے مہمانوں کے دلوں اور معدوں کو للچا رہا تھا ‘
جہازی میز پر تقریبا پچاس سے زیادہ مہمانوں کے لیے آرام دہ زری نقش و نگار
سے سجی کرسیاں کرینے سے لگی مہمانوں کو کھانے کی دعوت دے رہی تھیں پوری میز
پر چکن مٹن بٹیرے مرغابیاں روسٹ پکا کر سجا دی گئیں تھیں ابھی میں اِس حیرت
انگیز نظارے سے نکلا نہیں تھا کہ وردی میں ملبوس بیرا سر پر بڑے سائز کا
تھال اٹھائے اندر داخل ہوا تو میزبان نے مجھے میز پر بٹھاتے ہو ئے بیرے سے
کہا یہ تھال پروفیسر صاحب کے سامنے رکھ دو بیرے نے جب تھال میرے سامنے رکھا
تو میری آنکھیں حیر ت سے پھیلتی چلی گئیں بہت بڑے تھال میں پورا بکرا سجی
کی شکل میں نمک مصالحے لگا کر بھون کر سامنے رکھ دیا گیا میں نے زندگی میں
پہلی بار سالم بکرے کو اِس حالت میں دیکھا تھا ابھی میں بکرے کے جغرافیے
خدو خال کو دیکھ ہی رہا تھا کہ ماہر بیرے نے آری نما چھری پکڑی اور بکرے کے
پیٹ پر چلا دی اُس کی اِس حرکت کے نتیجے میں بکرے کا پیٹ کھل گیا اندر سے
چھوارے بادام کاجو پستہ چاولوں کے ساتھ نکلنا شروع ہو گئے چاول کم تھے میوہ
جات زیادہ تھے اب بیرے نے بکرے کی ران کوپکڑا اورکاٹ کر میری تھال نما پلیٹ
میں رکھ دیا اِسی دوران میزبان نے بھنی ہو ئی سالم مرغابی اور چند تلے ہو
ئے بٹیرے اٹھا کر میری پلیٹ میں سجا دئیے ‘کٹا ہوا لیموں پکڑا اور گوشت پر
نچوڑ نے لگا میں مسلسل جھٹکو ں سے گزر رہا تھا جب میزبان نے کچھ اور کھانے
میری تھال میں سجانے چاہیے تو میں نے اُن کی طرف دیکھا اور بولا جناب بریک
لگائیں میں اتنا کھانا نہیں کھا سکتا تو میزبان جو ملک کا معروف بزنس مین
تھا ‘ فاتحانہ نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے شریر لہجے میں بولا جناب میں
تو آپ کے ساتھ سوڈیڑھ سو بندو ں کی توقع کر رہا تھا آپ تو صرف تین لوگ آئے
ہیں ‘ میں تو جب بھی کسی مہمان کو بلاتا ہوں تو ڈیڑھ دو سو بندوں کا کھا نا
تیار کرا تا ہوں ‘ آپ نے میرا دل ہی توڑ دیا ہے اب اتنا سارا کھانا میں کس
کو کھلاؤں گا جناب کھانا کھلانے سے رزق بڑھتا ہے میں تو یہ نیک کام ضرور
کرتا ہوں اب انہوں نے ملک کے مشہور و معروف روحانی پیروں سیاسی لیڈروں کے
نام گنوانا شروع کر دئیے کہ کون کون اُن کی شاندار بلکہ شاہانہ ضیافت سے
لطف اٹھا چکا ہے ‘ وہ رٹے ہو ئے پہاڑوں کی طرح مشہور و معروف ہستیوں کا
تذکرہ شاہانہ کہر و قہر سے کر رہے تھے جب وہ خوب اپنی ہی مدح سرائی کر چکے
تو ساتھ بیٹھے اپنے دوست کی طرف اشارہ کیا جو کھانا نہیں کھا رہا تھا‘ میں
نے وجہ پوچھی تو میزبان بولا یہ بیمار ہے کچھ بھی اِسے ہضم نہیں ہو تا یہ
میرا بہت اچھا دوست ہے تو میں نے ساتھ بیٹھے ہڈیوں کے ڈھانچے کی طرف دیکھا
‘ میزبان کے ساتھ صرف یہ ایک ہی بندہ تھا یا ہم تھے ‘ باقی ہر طرف کھانوں
کا جھرمٹ تھا جو اپنی اشتہا انگیز خوشبوؤں سے مہک رہا تھا میزبان کا دوست
کسی شدید بیماری کا شکار لگ رہا تھا خون اور زندگی کی رمق اُس کے چہرے پر
نہیں تھی اُس کی رگوں میں بھی خون کی جگہ شاید بیماری ہی دوڑ رہی تھی رنگ
کی سرخی کی جگہ زردی اور سیاہی نے لے لی تھی ہڈیوں کے ڈھانچے کو پتلی سیاہ
جلد نے جکڑا ہوا تھا آنکھوں کی چمک مدہم چراغوں میں بدل چکی تھی ‘ مسلسل
اندورنی بیماری کی وجہ سے چہرے سے بیماری کا خو ف و ہراس جھلک رہا تھا ایک
مصری ممی یا زندہ لاش تھی جو مدہم اداس پریشان نظروں سے میری طرف دیکھ رہی
تھی ‘ خوف کی ٹھنڈی لہر میری ریڑھ کی ہڈی میں لہراتی چلی گئی میں کھانے بھو
ل کر رحم بھری نظروں سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا اوردل میں خدا سے دعا ئیں
مانگ رہا تھا کہ خدا ایسی حالت کسی دشمن کی بھی نہ کرے اُس کی حالت زار سے
لگ رہا تھا کہ اُس کے جسم اور روح کا رشتہ ہلکے سے جھونکے سے ہی شاید ٹوٹ
جائے ‘ میری پریشانی دیکھ کر میزبان بولا جناب آپ کھانا تو کھائیں پھر میرے
بیمار دوست کے بارے میں بات کریں گے اب ہم کھانے کی طرف متوجہ ہوئے اُس
بیمار شخص کی شکستہ حالت دیکھ کر میری بھوک مر چکی تھی بہر حال میں اِس
تجسس میں کہ اُس کی ایسی حالت کیوں ہو ئی جلدی جلدی کھا نا کھانے لگا اب
اگر میں کھانوں کی تفصیل میں جاؤں گا تو اصل موضوع سے ہٹ جاؤں گا بہرحال بے
شمار کھانوں کو چکھنے پھر سویٹ ڈشسز کو چمچہ چمچہ چکھنے کے بعد قہوے کے کپ
ہاتھ میں پکڑ کر ہم اب آرام دہ صوفوں میں آکر دھنس گئے ‘ لذید گرما گرم
کھانوں کا خمار جسم پر چڑھنا شرو ع ہو گیا اب میزبان نے اپنے ساتھ بیٹھے
ہوئے دوست کی طرف اشارہ کیا اور بولا جناب چند سال پہلے یہ میرا دوست لاہور
کے امیر ترین کاروباری افراد میں شامل تھا ‘ نسل در نسل یہ کاروباری خاندان
سے تعلق رکھتا تھا کروڑوں کاکام کرتا تھا بنکوں کے بنک دن رات اِس کے پیچھے
پڑے رہتے تھے کہ اپنے کھاتے ہمارے بنک میں منتقل کر دیں ‘ اِس کے نیچے
ہزاروں ورکر کام کر تے تھے بے شمار دولت کی وجہ سے کروڑوں کی لاٹ اٹھا لیتا
‘ ساری منڈی سے کو ئی چیز اٹھا کر اُسے ذخیرہ کر لیتا پھر اُس جنس کا ریٹ
جب بہت بڑھ جاتا عوام میں اُس چیز کی قلت ہو تی تو پھر مہنگے داموں اُس جنس
کو اپنی مرضی سے فروخت کر تا ‘ یہ منڈی کا کنگ تھا لیکن پھر دوسا ل پہلے یہ
بیمار ہوا پھر نہیں سنبھلا پانچ سال پہلے اِس کا زوال شروع ہو ا بیمار شخص
آرام سے بیٹھا تھا ‘ میں نے میزبان کو روکا اور کہاجناب آپ مجھے اپنے دوست
کے ساتھ کچھ وقت تنہائی کا دیں تو میزبان اٹھ کر باہر چلا گیا میں اٹھا اور
اُس بیمار شخص کے پاس بیٹھ گیا اور بولا جناب آپ کا زوال قدرتی تھا کہ آپ
کے گناہوں کی سزا تو وہ شخص پہلی دفعہ بولا مجھے لگا اُس کی آواز درد کے
کنویں سے آرہی ہے ‘ جناب میں ذخیرہ اندوزی تو کر تا ہی تھا میں کروڑوں میں
کھیلتا تھا ایک نیک شخص میرے پاس آیا اور بولا میں غریب مسکین یتیم گھروں
میں ہر ماہ راشن ڈالتا ہوں لہٰذا مجھے ہر ماہ یہ سامان چاہیے میں نے اُسے
دینا شروع کر دیا وہ نیک انسان تھا ہر ماہ باقاعدگی سے غریب گھروں کے چولہے
چلا رہا تھا اِسی دوران رمضان المبارک کا مبارک مہینہ آگیا تو وہ پھر میرے
پاس آگیا وہ بولا مجھے بہت سارے ٹرک راشن کے چاہئیں جو میں ملک کے دور دراز
دیہات میں غریبوں میں بانٹتا ہوں میں نے اُس کو راشن دیا چند ماہ بعد وہ
آکر بولا میں نے تم سے کام نہیں کر نا میں نے غلطی پو چھی تو وہ بولا تم
راشن میں ملاوٹ کر تے ہو جسے کھا کر بہت لوگ بیمار ہو گئے وہ شخص مجھے بد
دعا دے کر چلا گیا میری ساری دولت نقصان کی نظر ہو گئی معدے میں کینسر کا
پھوڑا بن گیا اُس کا آپریشن کرایا تو میرا معدہ کاٹ کر چھوٹا کر دیا گیا
میری زبان اب ہر قسم کے ذائقے سے محروم ہے مجھے کسی بھی ذائقے کا احساس
نہیں ہو ‘تا میں مر رہا ہوں پروفیسر صاحب مجھے ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کھا
گئی مجھے بچالیں میں اُس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا اور بولا جو بچا ہے
مختلف درباروں پر جاکر غریبوں کو کھانا کھلاؤ کسی غریب کی دعا سے تمہارا
ذائقہ واپس آجائے گا اور خدا بھی معاف کر دے گا پھرمیں بو جھل دل سے واپس
آگیا یہ سوچتے ہو ئے کہ ہم انسانوں کو دھوکہ ملاوٹ دے سکتے ہیں لیکن خالق
کائنات کو نہیں جس کا ہاتھ ہر بدامانت دھوکے باز پر پڑ جاتا ہے ۔
|