آج کل کے معاشرے میں غربت اور امارات کی ناقابلِ عبور
فصیل کو انتہاءِ غربت یا غربت کی لکیر سے نیچے رہنا کہتے ہیں، آخر یہ غربت
کی لکیر ہے کیا بلا یہ وہ بلا ہے جو ایک انسان کو ایک روٹی کی خاطر حیوان
سے بد تر بنا دیتی ہے، یہ وہ بلا ہے جو انسان کو اپنی بوٹیاں نو چنے پر
اکساتی ہے، یہ وہ بلا ہے جو باپ کو اپنی معصوم پریاں بیچنے پر مجبور کر
دیتی ہے۔ جب بھی کسی معاشرے میں امارت تمام وسائل پر براجمان ہوکر خوشی کے
شادیانے بجا رہی ہوتی ہے، تو وہیں غربت اپنی بدنصیبی کی انتہائیں دریافت
کرنے کی لا حاصل کوششش کر رہی ہوتی ہے۔ معزز سامعین آج کل کا انسان اتنا بے
حس ہو چکا ہے کہ وہ اپنے اردگرد رہنے والے ان انسان نما کیڑے مکوڑوں کو
دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا، اگر غلطی سے بھوک کے ہاتھوں مجبور یہ کیڑے
مکوڑے کبھی سامنے آجائیں تو بلڈی ایڈیٹس کہ کر پانچ دس کا نوٹ تھما کر حاتم
طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے ناک بھون چڑھا یہ جا وہ جا، اگر کبھی رات کو
فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے کسی کیڑے مکوڑے پر کسی رئیس زادے کی گاڑی چڑھ جائے
اور وہ کچلا جائے تو قصور اسی کا مانا جاتا ہے بھلا فٹ پاتھ کوئی سونے کی
جگہ ہے یعنی کہ غریب کی جورو سب کی بھابھی۔
بہت سے فلاحی ادارے ، سول سوسائٹی کی تنظیمیں اس نا انصافی کے خلاف آواز
اٹھاتے نظر تو آتے ہیں ، لیکن کیا یہ کوشش بغیر آواز کے نعروں، بغیر سوچ کے
افکار، بغیر عمل کے زندگی ، بغیر مقصد کے منزل اور بغیر فکر کے خیال سے
زیادہ کچھ ہے۔ میرا آپ سب سے سوال ہے کیا غریب ہونا جرم ہے، کیا کوئی جان
بوجھ کر غربت کا انتخاب کرتا ہے، کوئی اپنی نھنی پری اپنی خوشی سے لوگوں کے
در پر نہیں چھوڑتا اور نہ ہی آب وہوا کی تبدیلی کی خاطر فٹ پاتھ پر سوتا
ہے۔ یہ سب کچھ انسان کی مجبوری اس سے کرواتی ہے، اس پاپی پیٹ کا جہنم
کرواتا ہے، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور عام آدمی کے حقوق کا استحصال
کرواتا ہے۔ ہر آنے والی حکومت غریب کو سہانے مستقبل کے خواب دکھا کر غربت
کے خاتمے کے نام پر ووٹ بٹور کر مسند اقتدار پر براجمان ہوتی ہے، مگر
اقتدار میں آنے کے بعد غربت کے بجائے غریب مٹائو پالیسی پر عمل پیرا ہو
جاتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ اجلے شہروں کے دامن پر بدنما داغ کے مصداق
ہیں۔ حاضرین مجلس یہ ایک بیمار ذہن کی بیمار سوچ تو ہو سکتی ہے حقیقت نہیں
غربت صرف گھٹ گھٹ کر مرنا نہیں سکھاتی، یہ معاشرے کی بے حسی ، حقوق کے
استحصال کا آئینہ بھی ہے یہ انسان کو زندگی کا اصل مقصد بھی سمجھا جاتی ہے
جو کہ مسلسل کوشش ، محنت اور لگن پر مشتمل ہے۔ غربت کسی مفلس کی میراث نہیں
بلکہ معاشرے کے استحصالی نظام کا دوسرا نام ہے۔ دنیا کا سب سے بھاری بھر کم
بوجھا غربت ہے، اس بوجھ کو اٹھانا ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔
اس استحصال کی مثالیں اگر میں گنوانے کی کوشش کروں تو شاید میرا قلم میرا
ساتھ چھوڑ دے، انکی تفصیل اتنی بھیانک اور طویل ہے کہ جس کو بیان کرنے کا
مجھ میں حوصلہ بالکل نہیں۔ غربت کا یہ استحصال نہ تو صنف کا محتاج ہے، نہ
عمر، رنگ ، نسل اور کسی بھی شےکا، اس کے لئے کسی کا غریب ہونا ہی کافی ہے
پھر چاہے وہ چار، پانچ سال کا بچہ یا بچی ہو یا پھر ساٹھ ستر سالہ بزرگ۔
ایک دفعہ گھریلو ملازم کا ٹیگ لگ گیا پھر مالک کی مرضی جو چاہے کرے، سارا
دن بچے سنبھلوائے، کپڑے دھلوائے یا گھر کی صفائی یہ جانے بغیر کہ کیا یہ
بیچارے بھوکے تو نہیں، بیمار تو نہیں۔ لیکن گھر میں کوئی نقصان تو ذمہ دار
نوکر، گھر میں چوری الزام نوکر پر، بچہ بیمار ذمہ دار نوکر، میں ان کو
بالکل بری الزمہ قرار دینے کی کوشش نہیں کر رہا لیکن گندی مچھلیاں ہر تالاب
میں پائی جاتی ہیں اس کا مقصد یہ نہیں کہ ہم اپنا ذہن پہلے سے ہی تیار
کرلیں۔ ہمیں چاہیئے کہ اپنے رویوں پر بھی نظر ثانی کریں اپنی ذمہ داریوں کا
بھی احاطہ کریں نا کہ ملازم رکھ کر یہ سمجھ لیں کہ بس آپ کام ختم۔ ان بے
چاروں کو بھی انسان سمجھیں ، ان کے دکھ سکھ کا بھی احساس کریں نہ کہ ان کو
ماریں، گالیاں دیں یا انکی تذلیل کو اپنی تفریح طبع کے لئے استعمال کریں
یاد رکھیں غربت بڑی ظالم شے ہے لیکن ہر شے کی طرح فانی بھی ہے آج ہے کل
نہیں ہوگی اسی طرح امارت بڑی نا پائیدار شے ہے سب یہیں رہ جائے گا۔ |