مہذب معاشروں میں تنقید تعمیر کی پہلی منزل ہے، جو معاشرے
تنقید برداشت کرتے ہیں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں اور جن میں تنقید برداشت کرنے
کا حوصلہ نہیں ہوتا وہ ذلیل وخوار۔ تنقید ہمیشہ مثبت اور با مقصد ہونی
چاہئیے ذاتی پسند نا پسند، شخصیت، فرقہ، مذہب، لسانیت سے پاک اور بالا تر،
تنقید کا مقصد سسٹم کی خرابیوں کی نشاندہی ہونا چاہئے نا کہ کسی کی ہرزہ
سرائی، خود نمائی اور پوائنٹ سکورنگ.
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے ہم نے اپنے نوجوانان کو، تنقید
کے نام پر لوگوں کی عزتِ نفس سے کھیلنے کا لائسنس جاری کر رکھا ہے اور اسے
تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔ اب جیسے ہی اس بدتمیزی کے سونامی کا
رخ حکومتِ وقت کی جانب ہوا، فوراً سے سوشل میڈیا کا شترِ بے مہار سب کو نظر
آنے لگ گیا اور اسے ریاستی دہشت گردی سے تعبیر کیا جانے لگا۔
یہاں پر چند معصومانہ سوالات محترم وفاقی وزیر اطلاعات صاحب سے۔
1۔ کیا سر عام بجلی ، گیس کے بل جلانا قومی اداروں پر حملہ کروانا عوام کو
سوشل بائیکاٹ پر اکسانا ریاستی دہشت گردی نہیں ہے۔
2۔ کیا سر عام لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا کسی کی سوشل میڈیا پر تزلیل قابلِ
گرفت جرم نہیں، جناب اگر ایسا ہے تو خدارا اپنے گریباں میں بھی جھانکیں۔ سب
سے پہلے تو محترم آپ اور محترم خان صاحب بزات ِخود قوم ،اداروں اور ان
لوگوں سے معافی مانگیں جن کی آپ تزلیل کرتے ریے ہیں ورنہ یہ ڈرامے بند کریں
اور عوام کو مزید بیوقوف مت بنائیں۔
کسی سیانے نے کہا تھا اگر تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ نہ ہو ، تو کم از کم
تنقید کرتے ہوئے اپنے گریبان میں ضرور جھانک لینا چاہیئے۔
اس امید کے ساتھ کہ راقم کی یہ تنقید بادی النظر میں تبدیلی سرکار کو گراں
نہیں گزرے گی، اور کسی قسم کی دہشت گردی نہیں قرار دی جائے گی۔
بقول حبیب جالب
ایسے دستور کو ، صبحِ بے نور کو
میں نہیں جانتا، میں نہیں مانتا |