عرب شاعر کا قبیلہ میدان میں اترا تو وہ ایک ٹیلے پر چڑھا
اور اپنے قبیلے کا قصیدہ پڑھا کہ "ھماری تلواریں ھمیشہ دشمنوں کے خون سے
سیراب ھوتی ہیں ھمارے پہاڑ وں کی بلند قامتیں اور صحراؤں کے چوڑے سینے
ھمارے قبیلے کی فطرت کو واضح کرتی ہیں" اس لئے میں نے پہلے بھی لکھا کہ
قدیم عربوں میں شاعر قبیلوں اور معاشرے کا مرکزی نقطہ فکر ہوا کرتے تھے
کیونکہ شعراء کو ذریعہ اظہار کی تمام قوّت میّسر تھی۔ جس میں ذہانت، الفاظ
اور مجمع سرِ فہرست ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ان معاشروں کی ذہنی تربیت اور
اُٹھان اسی لافانی شاعری کے سائے میں پروان چڑھی جو اس معاشرے کا ایک اھم
جز تھی، میں چونکہ اس دور کی عربی شاعری اور شاعر کو میڈیا کا ابتدائی
زمانہ سمجھتا ہوں۔
اس لئے میرا خیال ہے کہ قوموں کی اجتماعی نفسیات اور روّیوں کی تشکیل میں
میڈیا کا کردار انتہائی اہم اور بنیادی ہوتا ہے، سو ہم زمانہ حال میں جب
اپنے قومی روّیے میں تشّدد، اخلاقی گراوٹ، اقدار کی پامالی اور بہتان طرازی
کے بڑھتے ہوئے تناسب کو شّدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں تو ان منفی عوامل کا
کھوج ہمیں سب سے پہلے جدید میڈیا کے دروازے پر لا کھڑا کر دیتا ہے،
جہاں صحافت کے نام پر ایک فتنہ انگیزی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ
قصیدہ گوئی یا بہتان طرازی کا سنگھارکیے ریٹنگ کے دریچے سے گاہکوں کو اپنی
اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے دن رات مصروف نظر آتی ہے۔
الیکڑانک میڈیا جوں ہی اپنے بناؤ سنگھار اور نوزائیدگی کے ساتھ صحافت کی
گلی میں داخل ہوتا ہے تو ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے، کیونکہ یہاں ماضی کا
زمانہ تو ہے ہی نہیں کہ گزرے لمحوں سے تجربہ کشید کیا جائے، صحافیوں کی
اکثریت بھی نوجوان اور نا تجربہ کار ہے، اسی لئے جذباتیت مادہ پرستی اور بے
سروپا پروپیگنڈہ جیسے منفی عوامل میڈیا کو کافی حد تک جکڑ لیتے ہیں، جو نہ
صرف سماجی زندگی جو صدیوں سے چلی آتی روایات اور اقدار کی بنیادوں پر کھڑی
ہوتی ہے اور اس کے تمام تانے بانے اسی ڈھانچے سے جڑے ہوتے ہیں کو درہم برہم
کردیتا ہے، بلکہ سیاست میں ہم آہنگی اور مشاورت کی بجائے لعن طعن اور بہتان
تراشی کو فروغ دیتا ہے، جو مجموعی حوالے سے معاشرے پر انتہائی منفی اثرات
مرتب کردیتا ہے، تکلف برطرف ہمارے موجودہ سماجی معاشرے اور قومی سیاست کی
زوال پذیری اس کی بڑی مثالیں ہیں۔
اس وقت عالمی سطح پر مہذّب دُنیا میں میڈیا جن تین چیزوں پر فوکس کر رہا ہے،
ان میں قانون کی بالادستی، بنیادی انسانی حقوق اور سماجی اقدار کا تحّفظ
شامل ہے، گو کہ ہمارے ہاں اس حوالے سے میڈیا کا کردار کوئی زیادہ قابل رشک
نہیں، تاہم بعض سنجیدہ صحافی اور میڈیا گروپ شدید دباؤ کے باوجود اس طرف
میڈیا کا رُخ موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جو یقینًا ایک قابل اطمینان امر ہے، الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا کے علاوہ جدید
ترین اور با اثر سوشل میڈیا رائے عامہ پر اثر انداز ہونے میں دوسروں پر
سبقت لیتا جا رہا ہے، کیونکہ یہاں رسائی نسبتا آسان ھے اور اظہار رائے پر
کوئی قد غن بھی نہیں، چونکہ نوجوان نسل کی اکثریت سوشل میڈیا کی طرف راغب
ہے۔ اس لئےسطحیت اور جذباتیت کا عنصر اور پختگی کا فقدان واضح طور پر نظر
آرہا ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر سوشل میڈیا تیزی کے ساتھ اعتدال کی جانب
بڑھتا محسوس ہو رہا ہے۔
یہاں آگاہی اور تحرّک کا رجحان بدرجہ اُتم موجود ہے، جو نوجوان طبقے کو
عالمی اور مقامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور ارتقائی عمل کا حصہ
بنانے میں حد درجہ معاون ثابت ہو رہا ہے۔
سوشل میڈیا کا قابل ستائش کردار یہ بھی ہے کہ اس نے ریاست کے تمام طاقتور
سٹیگ ہولڈرز بمع میڈیا اور سیاستدانوں کے سب کو کسی حد تک بے لگام ہونے سے
روک رکھا ہے، جب ہم میڈیا کے مجموعی کردار اور معاشرے پر پڑنے والے اس کے
اثرات پر بحث کرتے ہیں، تو ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیےکہ موجودہ دور
میں تیسرے درجے کی صحافت کے لئے گنجائش برق رفتاری کے ساتھ سکڑتی جارہی ہے۔
اب خبر کی سچائی جانچنے کے لئےذرائع کی بہتات پروپیگنڈے کو اُکھاڑنے میں
اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
اس لئے مستقبل کی صحافت تفتیش ریسرچ اور آئیڈیا زکی تلاش کے بغیر ممکن نظر
نہیں آرہی، اس سلسلے میں فعال طبقات کا کردار اور تیزی کے ساتھ بیدار ہوتی
رائے عامہ سب سے بڑی انڈی کیشنز ہیں۔
اب یلو جرنلزم کے لئے نہ تو وہ فضا میّسر ہے اور نہ وہ خوابیدہ رائے عامہ
جس میں اس طرح کی زہر آلود فصلیں کاشت اور توانا ھونے کے مراحل سے گزرتی
ہیں گو کہ صورتحال اب بھی اتنی بہتر اور قابل اطمینان نہیں کہ ہم اس کا
موازنہ مہذب دنیا کے جدید میڈیا سے کر سکیں لیکن فی الحال اس صورتحال کو
کچھ عرصے تک برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ جدید میڈیا ایک سیلاب کی مانند اُمڈ
آیا ہے جو فطری طور پر کسی حد تک بربادی کا سامان بھی کرے گی مگر قانون کی
بالادستی، آزادی اظہار اور سماجی اقدار کے تحفظ کا ضامن بھی یہی میڈیا ہی
بنے گا۔ |