ہنگامہ ہائے شوق

تحریر :عائشہ یاسین، کراچی
اک طویل مسافت کے بعد زندگی جیسے اندھے کنویں میں گرتی محسوس ہورہی تھی۔ کیا کھویا اور کیا پایا کوئی حساب چکتا نہیں ہوا تھا۔ زمانے بھر کا مال و متاع جمع کر رکھا تھا۔ بنگلا، گاڑی، فیکٹریاں کیا نہیں تھا میرے پاس انسان جس کی خواہش دنیا میں نہیں رکھتا۔ دولت، شہرت، عزت سب کے دام لگا بیٹھا تھا پر سکندر اعظم کی طرح خالی ہاتھ، بے بس و لاچار ایک چارپائی پر پڑا تھا۔ زندگی سے موت تک کا سفر کب شروع ہوکر ختم ہوا پتا ہی نہ چلا۔ سگار کا ایک لمبا کش لیا اور زندگی دھواں بن کر گرم ہوا میں محلول ہوگئی۔ یہی حقیقت ہے۔ زندگی میں شور اور ہنگامہ کا اتنا شوق تھا کہ دنیا میں آنکھ کھلنے سے پہلے رونا شروع کیا اور لوگوں کی ہمدردی بٹور لی۔ اسی ہنگامہ شوق میں عمر کاٹی۔

نوجوانی میں دنیا کے رنگینیوں میں خود کو رنگ ڈالا۔ کیا ثواب ہے کیا گناہ کبھی یہ ٹٹولنے کی کوشش ہی نہ کی۔ بس ایک دھن تھی جینے کی اور دنیا کو پا لینے کی۔ جوانی آئی اور خوب رچ کر آئی۔ آج بھی اپنے خوبرو توانا جسم کو یاد کرتا ہوں تو ماضی کتنا خوبصورت لگتا ہے۔ وہ کیا چیز تھی جو مجھے حاصل نہ تھی۔ جب سے پیدا ہوا پیسہ روپیہ ہاتھ کا میل رہا اور شاید اسی لیے میں زندگی کو بھی ہاتھوں کا میل سمجھتا رہا۔ جس طرح بے پروا ہوکر پیسہ اڑاتا رہا ٹھیک اسی طرح اپنی زندگی کے قیمتی لمحات دوست، رشتہ دار، بیوی اور بچوں پر نچھاور کرتا رہا۔

اس سارے شور اور ہنگامے میں مجھے یاد ہی نہ رہا کہ وقت قطرہ قطرہ ابد میں ڈھل رہا ہے۔ یہ رنگینیاں، موج، مستی فقط زندگی کے میلے کا حصہ ہے۔ وقت چرخے کی بان میں چلتا اور لپٹتا جارہا تھا۔ پر کس کو پروا تھی۔ میں تو دنیا جی رہا تھا۔ ایسی دنیا شاید جہاں فنا کا تصور بھول بیٹھا تھا۔ کتنا حسین تھا نہ سب کچھ! پیسہ ہر تالے کی کنجی تھی۔ کوئی بھی کام کرنا یا کرانا کیا مشکل تھا۔ مٹی سے بنا انسان کاغذ کی خوشبو سے زیر ہوجاتا تھا۔ میں گھنٹوں اپنی فتح کا جشن منایا کرتا تھا۔ مگر یہ کیا ابھی مجھے فقط ایک چادر میں لپیٹ کر سب کہاں غائب ہوگئے ہیں۔ میرے دوست احباب، میری بیوی اور ہاں میرے جگر گوشے میری اولاد۔ پتا ہے میرے چار بیٹے اور ایک شہزادی سی بیٹی ہے۔ پر نظر نہیں آرہی شاید صدمے سے نڈھال ہوگی۔ مجھ سے بہت محبت جو کرتی ہے۔ اس کے دو پیارے سے بیٹے بھی ہیں۔ ثمینہ میری بیوی بھی کہاں ہے؟
یہ سوچ کر میں اپنی چارپائی سے اترا تو عجیب منظر تھا۔ سب الگ کمرے میں جمع بیٹھے تھے۔ ایک ہنگامہ لگا ہوا تھا۔ پر وہاں تو میرے مرنے کی باتیں ہورہی تھی۔’’کیا میں مر گیا ہوں؟‘‘ میں نے خود سے سوال کیا تو اسی وقت میرے بڑے بیٹے کی آواز آئی۔ وہ اپنی ساری جائداد کا حساب کتاب لیے بیٹھا تھا پر سلمان تو ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ اس کو میری دولت نہیں میرا سایہ درکار ہے۔ میرا کتنا سینہ چوڑا ہوجایا کرتا تھا اور میری بیٹی اپنے شوہر کے ساتھ مل کر سارے کاغذات کی کاپیاں وکیل صاحب کو دے رہی ہے اور ثمینہ کو دیکھو اس نے ساری چابیاں چھپانا شروع کردی ہیں۔

’’آخر یہ ماجرہ کیا ہے؟‘‘ یہ سوچ کر میں نے مڑ کر دیکھا تو میرا سب سے چھوٹا بیٹا میرے دوسرے اور تیسرے بیٹے کی اطلاع دینے آگیا۔ ’’مما! محمود اور رضا بھائی نے آنے سے معذرت کرلی ہے۔ ان کا جلد آنا ممکن نہیں۔ پاپا کی لاش سوری میرا مطلب ڈیڈ باڈی خراب نہ ہوجائے۔ وہ تیسرے دن آکے وکیل صاحب سے سارے معاملات طے کرلیں گے‘‘۔ مجھے اب چکر آنے لگے تھے۔ کمزوری اور نقاہت رگ رگ میں دوڑنے لگی۔ میں غش کھاتا ہوا اسی چارپائی پر واپس ڈھیر ہوگیا۔ ’’کیا میں اپنے بچوں کے لیے لاش ہوگیا۔ کیا میری ضرورت کسی کو نہیں رہی۔ کیا میں مر گیا یا مر رہا ہوں؟‘‘ یہ سوچ کر میں زارو قطار رونے لگا۔ آج مجھے اپنے اصلیت کا خوب اندازہ ہورہا تھا۔ وہ مہنگے سے مہنگے ہسپتال میں علاج وہ بڑے بڑے ڈاکٹر کیا سب فریب تھا؟ میری اولاد دن رات میرے سامنے ہاتھ باندھے رہتی تھی۔ کیا سب جھوٹ تھا؟ میں نے اپنا سب کچھ ان کے نام ہی تو کر رکھا تھا۔ میری ساری دولت میرے اولاد ہی کی تو تھی پھر اتنی اجنبیت کیوں؟

" کیا سب میرے مرنے کا انتظار کر رہے تھے ؟ کیا میری کوئی اوقات نہیں؟’’میں تو سوچا کرتا تھا کہ اگر میں مرا تو میرا جنازہ بہت دھوم سے نکلے گا۔ میں سب کے دل پر راج کیا کرتا تھا۔ میرے دوست یار سب ہی غم و صدمے سے بے حال ہوجائیں گے۔ میری شان کے مطابق میرا جنازہ ہوگا۔ دنیا رشک کرے گی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ میرے ہاتھ کچھ بھی نہیں ہے۔ یہاں سفید چادر میں اکیلے پڑا ہوں۔ کوئی سوگ نہیں، کوئی ہنگامہ نہیں۔ سب میرا مال بٹورنے میں مصروف ہیں۔ کوئی اولاد مجھے ہاتھ نہیں لگا رہی، میرا چہرہ نہیں چوم رہی۔ مجھ سے فریاد نہیں کر رہی کہ میں ان کو چھوڑ کر نہ جاوں، واپس آجاوں۔ آج میرے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ بھی نہیں۔

میں نے اپنی اولاد کی اچھی تربیت کی ہوتی تو آج میری اولاد میرے سرہانے تو بیٹھتی۔ پر میری اولاد ایسا کیوں کرتی؟ کیا میں نے کبھی اپنے بنانے والے کو جانا کبھی پہچانا؟ کبھی غور کیا کہ میں کیا ہوں اور کون ہوں؟ میں تو اپنے دوستوں کی ساتھ ایسی باتوں کا مذاق اڑایا کرتا تھا بلکہ اگر کوئی مولوی کچھ کہہ بھی دیتا تو میں اس کو پیسے سے خرید لیتا تھا۔ مگر آج میں کیسے اپنی عاقبت خریدوں گا؟ آج میں تہی دامن لوٹ رہا ہوں لامکاں کی جانب۔ سناٹے اور عالم ہو کی جانب۔ ساری دنیا کی طلسمات سے دور۔ اس کی چالبازی اور فریب سے کوسوں دور۔ ابد کی جانب۔ تنہائی کی جانب۔ کتنا اچھا ہوتا کہ میں ساری زندگی تنہا ہی ہوتا۔ کم سے کم دھوکا تو نہ کھاتا۔ تنہا آیا تھا تنہا جارہا ہوں۔ یہ محفل کو چھوڑ کر۔ جہاں کوئی آواز اور ہنگامہ نہیں ہوگا۔ وہاں کوئی مکاں اور زماں نہیں ہوگا۔ خالی ہاتھ آیا تھا اور خالی ہاتھ جارہا ہوں۔ اگر میرا رب مجھے دوبارہ اس محفل میں آنے کا بھی بولے گا تو میں نہیں آوں گا۔ اس دھوکے میں کبھی نہیں آوں گا۔ میں لامکاں میں رہوں گا تنہا اور تنہائی سے پیار کروں گا پر دوبارہ ہنگامہ ہائے شوق میں نہیں پڑوں گا۔
 

Anabiya Choudhry
About the Author: Anabiya Choudhry Read More Articles by Anabiya Choudhry: 27 Articles with 23098 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.