آج ایک نانبائی اور اس کی تین بیٹیوں سے ملنے کا اتفاق
ہوا۔نانبائی صبح چھ بجے کام پر چلا جاتا ہے اور رات کو بارہ بجے گھر واپس
آتا ہے۔ اکثر اس کے بچے سوئے ہوتے ہیں جب وہ گھر سے باہر آتا ہے اور اس وقت
بھی سوئے ہوتے ہیں جب وہ گھر واپس آتا ہے۔ اس کی تنیوں بچیاں مختلف شعبوں
میں ماسٹرز کر چکی ہیں اور ان کے بول چال سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ ان کی
تربیت بہت ہی بہترین انداز میں ہوئی ہے۔ ان میں قابلیت بھی کوٹ کوٹ کر بھر
ی ہوئی تھی۔ان کے والد نے بتا یا کہ میر افرض تھا کہ میں اپنے بچوں کو حلال
رزق کھلاؤں اور باقی تما م فرائض ان کی ماں نے پورے کئے ہیں۔ہمیں کبھی یہ
محسوس ہی نہیں ہوا کہ گھرمیں کسی چیز کی کمی ہے۔ ٹی وی کبھی گھر میں نہیں
رکھا اور نہ ہی موبائل ہے۔ سوشل میڈیا تو دور کی بات ہے۔ان بچیوں کی ماں کی
مناسب تعلیم تھی اور اگر وہ چاہتی تو ملازمت کر سکتی تھی ۔ لیکن اس نے اپنے
شوہر کے رزق پر ہی بھروسہ کیا اور اپنی تمام تر توجہ بچیوں کی تعلیم وتربیت
پر دی۔
اسی ضمن میں ایک اور بات آپ کو بتا تا جاؤں کہ جب میر ا سب سے بڑا بیٹا دو
ماہ کا تھا تو اس کا چیک اپ کروانے کے لئے میں لاہور کے ایک مشہور چائلڈ
سپیشلسٹ ڈاکٹر کے پاس گیا۔باتوں باتوں میں اس نے بتا یا کہ اس کی بیگم بھی
ڈاکٹر ہے اور وہ بھی پہلے ملازمت کرتی تھی لیکن جب ہمارا پہلا بچہ پیدا ہوا
تو میری بیگم نے ملازمت اور پریکٹس چھوڑ دی اور اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ
اپنی تما م تر توجہ اپنی اولاد پر دے گی اور ان کی عمدہ طریقے سے پرورش کرے
گی۔
ایک استا د کے طور پر مجھے بہت سے طلباء سے واسط پڑتا ہے۔ ان میں سے میں
دیکھتا ہوں کہ اکثر ایسے بچے جن کی والدہ ہاؤس وائف ہے ان کی شخصیت میں ایک
واضح فرق نظر آتاہے۔ ماں کی بھرپور توجہ بچوں کے لیے بہت ضروری ہے اور اگر
بچوں کو یہ توجہ نہ ملے تو ان میں بہت سی ایسی کمزوریا ں رہ جاتی ہیں جو ان
کو مکمل انسان نہیں بننے دیتیں۔تربیت کا تعلق دولت سے نہیں ہے بلکہ انسانی
توجہ سے ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اپنے ماں باپ کی بہت سے ایسی خصوصیات
لے کر پیدا ہوتا ہے جو اس کے والدین کی زندگی کا خاصہ ہوتی ہیں۔جب انسان
اپنے والدین کے درمیان رہتاہے تو ان کی بہت سی عادات اور اطوار صرف دیکھنے
سے سیکھتا ہے۔ تربیت کرنے سے ذیادہ دیکھنے سے ہوتی ہے۔ آپ کا بچہ آپ کی ہر
بات کو شعوری یا لاشعوری طور پر نوٹ کر رہا ہوتا ہے اور جلد یا بدیر آپ کو
ان کا عکس اپنی اولاد میں نظر آتا ہے۔ لیکن آپ یا تو اس چیز کو تسلیم نہیں
کرتے یا پھر اس کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بالکل وہی عادات
ہوتی ہیں جو کسی دور میں آپ کی بھی رہی ہوتی ہیں۔کچھ بچے بہت ذیادہ حساس
ہوتے ہیں ان کو ہر وہ واقعہ یاد ہوتا ہے جس میں ان کو مار پڑی ہویا ان کی
عزت نفس مجروع ہو ئی ہو۔ اس کی طرح کی تما م محرومیاں یا ذیادتیاں ان کو
سدا یاد رہتی ہیں اور ان کی شخصیت پر منفی اثرات ڈالتی ہیں۔
موجودہ معاشرے میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کرتے نظر آتے
ہیں۔ کام کرنے والی خواتین کے نظریہ کے مطابق چونکہ وہ برابر آمدنی کما رہی
ہیں اس لیئے بچوں کی تربیت نہ صر ف ماں بلکہ باپ کی بھی برابر ذمہ داری ہے۔
اگر دیکھا جائے تو اسلام میں عورت کو چاردیواری کے اندر رہ کر اپنے شوہر
اور بچوں کی خدمت کرنے کا حکم ہے۔ آج کی عورت مہنگائی کا مضبوط بہانہ لے کر
اور معاشی برابری حاصل کرنے کی خاطر ملازمت کر رہی ہے۔لیکن عورت اس چکرمیں
جو کچھ کھو رہی ہے اس بات کا اس کو احساس ہی نہیں ہے۔ اس کی زندگی کا کل
حاصل اس کی اولاد ہے جس کو اس کے وقت کی سب سے ذیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ مرد کا
بھی اپنے بچوں کی تربیت میں اہم کردار ہے۔ لیکن اس کے بنیادی فرائض میں
دولت کمانا اور بچوں کی معاشرے میں زندگی گزارنے کی تربیت کرنا ہے۔
بچے سب سے ذیادہ متا ثر اپنی والدہ کی شخصیت سے ہو تے ہیں۔ اکثر خواتین
اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرکے اپنے شوہر اور میکے سے ہمدردیاں سمیٹتی نظر آتی
ہیں۔لیکن بچوں کی شخصیت پر یہ ہمدردیاں بہت منفی اثرات ڈالتی ہیں۔ بچے بھی
ہر وقت اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرتے رہتے ہیں۔اپنی ناکامیوں کا سہرا دوسروں
کے سر پر سجا تے نظر آتے ہیں۔ اپنے اصل کام اور مقصد کا تعین نہیں کر پاتے
اور اس کے نتیجے میں زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔جو مائیں خود
اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتیں ۔ دوسروں پر ذیادتی کرتی ہیں۔ خو د کسی بھی کام
کی ذمہ داری نہیں اٹھاتیں۔بچوں کو منا سب وقت نہیں دیتیں۔بچوں کی حرکات پر
نظر نہیں رکھتیں۔اپنی ذاتی قابلیت پر بھروسہ نہیں رکھتیں۔وہ نہ تو خود
پرفیکٹ بن پاتی ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں میں یہ خصوصیات پیدا کر پاتیں ہیں
اور اس کی تما م تر ذمہ داری اپنے شوہر پر ڈال کر بری الزمہ ہو جاتی ہیں۔
|