کھٹا میٹھا ورلڈ کپ

بہت سی کھٹّی اور چند ایک میٹھی یادیں اپنے دامن میں سموئے کرکٹ ورلڈ کپ پھر آگیا ہے۔ اِس بار ورلڈ کپ ایسے مرحلے پر آیا ہے جب حکومت کو عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے بہت کچھ درکار ہے۔ گویا کھیلوں کی دنیا نے سیاسی کھلاڑیوں کے من کی مراد پوری کردی ہے! ایک طرف مسلم لیگ (ن) کی ناراضی اور کابینہ کی ترتیب نو ہے اور دوسری طرف ناموس رسالت قانون میں ترمیم روکنے کے لئے بھرپور عوامی ردعمل کے بعد اب ریمنڈ ڈیوس کیس ہے جو وفاق اور پنجاب اور دونوں کے گلے میں ہڈی بن کر پھنس گیا ہے۔ ایسے میں حکومت ہر اس ایونٹ کو گلے لگانے کے لئے تیار ہوگی جس کی مدد سے عوام کو ایک ڈیڑھ ماہ کے لئے بہلانا ممکن ہو۔

کرکٹ نے ہمیں بہت کچھ دیا اور بہت کچھ سکھایا ہے۔ جس کرکٹ نے ہمیں آپس میں لڑایا اُسی نے متحد ہوکر لڑنا بھی سکھایا۔ 1992 کا ورلڈ کپ کوئی کیسے بھول سکتا ہے؟ وہ بھی عجیب کہانی تھی۔ پہلا میچ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہوا۔ نیوزی لینڈ کے آف اسپنر دیپک پٹیل نے فاسٹ بولر کے ساتھ اٹیک کیا اور آسٹریلیا کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ پاکستان کا پہلا میچ ویسٹ انڈیز سے تھا جو اگرچہ بہت اہم اور نازک تھا مگر کپتان یعنی عمران خان نہ کھیلے۔ پاکستان یہ میچ دس وکٹوں سے ہارا۔ دوسرا میچ زمبابوے سے تھا۔ عمران خان طبیعت ناساز ہونے کے باوجود کھیلے۔ ان کی طبیعت کی ناسازی کا اعتراف ٹیم مینیجر انتخاب عالم نے ریڈیو انٹرویو میں کیا۔ تیسرا میچ انگلینڈ سے تھا جس میں عمران پھر بہ وجوہ نہ کھیلے۔ اس میچ میں پاکستان کی ٹیم 74 رنز اسکور کر پائی۔ بارش نے وکٹ کو خستہ کردیا تھا۔ بارش کے باعث انگلینڈ کی اننگز شروع ہی نہ ہوسکی اور پاکستان کو ایک ایک پوائنٹ مل گیا۔ اس میچ تک ٹیم کے اندرونی اختلافات غیر معمولی نوعیت اختیار کرچکے تھے۔ چوتھا میچ بھارت سے تھا۔ بھارت نے 216 رنز اسکور کئے۔ پاکستان یہ میچ آسانی سے جیت سکتا تھا۔ جاوید میانداد نے 110 گیندوں پر صرف 40 رنز اسکور کئے۔ کرکٹ سے ذرا سے شغف رکھنے والوں کی سمجھ میں سب کچھ آسکتا تھا۔ پانچواں میچ جنوبی افریقہ سے تھا۔ اس میچ میں جاوید میانداد شریک نہیں ہوئے! عمران خان نے ٹیم کو دوبارہ ورلڈ کپ کی دوڑ میں شامل کرنے کے لئے جی جان سے بولنگ کی اور جنوبی افریقہ کو شکست سے دوچار کیا۔ اس میچ کے بعد پاکستان سے ایک مذاکراتی ٹیم آسٹریلیا روانہ کی گئی جس نے تمام کھلاڑیوں کو ساتھ بٹھایا اور قوم کا واسطہ دیکر متحد ہونے اور باقی مقابلوں میں ڈٹ کر شریک ہونے کی گزارش کی۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ بکھری ہوئی ٹیم متحد ہوکر کھیلی تو ورلڈ کپ لیکر وطن لوٹی۔ اس فتح نے پوری قوم کو بھرپور شادمانی سے ہمکنار کیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اب پاکستان میں کرکٹ پر کبھی زوال نہیں آئے گا۔

1996 کے ورلڈ کپ میں پاکستان بھی میزبان تھا۔ ٹیم میں اختلافات پھر ابھر آئے تھے۔ کوارٹر فائنل بھارت سے بنگلور میں تھا۔ پاکستان کے لئے یہ ”کرو یا مرو“ والا معاملہ تھا مگر وسیم اکرم میچ نہ کھیل پائے! نتیجہ؟ پاکستان ہار گیا۔

1999 کے ورلڈ کپ میں پاکستان کی ٹیم نے بیشتر مقابلے اِس طرح جیتے جیسے سامنے کوئی ٹیم نہ ہو بلکہ گلی کے بچے ہوں! مگر فائنل میں قومی ٹیم جس بُری طرح ہاری اُس نے لوگوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ ورلڈ کپ کے دنوں میں کارگل کا مسئلہ بھی چل رہا تھا اور ایک خیال یہ بھی تھا کہ ممکنہ طور پر قومی قیادت نہیں چاہتی تھی کہ اِس سنگین مرحلے پر کسی فتح کا جشن منایا جائے! فائنل میں بے ڈھنگے انداز سے ہارنے پر کہیں سے بھی سٹّے کا الزام عائد نہیں کیا گیا کیونکہ لوگ بین السطور کو سمجھتے
تھے!

2003 کے ورلڈ کپ میں بھارت اور کرکٹ سیزن ایک بڑی کاروباری حقیقت بن کر سامنے آئے۔ بھارت میں کرکٹ کے نام پر اربوں روپے کا بزنس داؤ پر لگا ہوا تھا۔ سوال یہ تھا کہ بھارت کو کسی نہ کسی طرح سیمی فائنل یا فائنل تک پہنچایا جائے۔ بھارتی ٹیم نے ”شاندار“ کارکردگی کے ذریعے فائنل تک رسائی پائی۔ مگر فائنل میں آسٹریلیا نے ”ٹیم انڈیا“ کو عبرت ناک شکست سے دوچار کر کے اِس ٹیم کی فائنل تک رسائی کا راز فاش کردیا!

2007 کا ورلڈ کپ پاکستان میں کرکٹ کے زوال کی ابتداء ثابت ہوا۔ ابھی میگا ایونٹ شروع ہی ہوا تھا اور تیسرا ہی دن تھا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم آئر لینڈ سے شکست کھا کر ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی! یہ کرکٹ کی دنیا میں اتنا بڑا سانحہ تھا کہ بہتوں کو اپنے کانوں اور آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ اہل وطن قومی ٹیم کے لئے پتہ نہیں کیا کیا سوچ کر خوش ہو رہے تھے۔ تین ہی دن میں ٹورنامنٹ سے باہر ہوجانے کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ ابھی اِس صدمے سے لوگ نپٹ ہی رہے تھے کہ باب وولمر کی پراسرار موت نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ پوری کرکٹ ہی داؤ پر لگ گئی۔

اب کے ورلڈ کپ ایسے وقت آیا ہے جب وفاقی اور پنجاب حکومت مشکل میں ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کیس نے سب کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ حالات نے یارکر مارا ہے اور ہماری حکومت کو بولڈ ہونے سے بچنا ہے! ناموس رسالت قانون میں ترمیم کا عندیہ دیکر حکومت نے عوام میں جو اشتعال پیدا کیا تھا وہ اب قدرے تھم چکا ہے۔ مگر خیر، ریمنڈ ڈیوس کا کیس تو ابھی تازہ ہے۔ یہ تو ایسے کیسوں میں سے ہے جو باسی ہوکر بھی تازگی کی قسم کھائے ہیں!

کرکٹ کا میلہ سجا ہے اور عوام کو ایک بار پھر میڈیا کے ذریعے بہلایا جارہا ہے، لارے لپّے دیئے جارہے ہیں کہ ورلڈ کپ ہمارا ہے۔ یہ سب کچھ ایسی حالت میں ہو رہا ہے کہ ملک کے تین اہم کرکٹرز کو حال ہی میں آئی سی سی نے اسپاٹ فکسنگ کے جرم میں پانچ تاک دس سال پابندی کی سزا سنائی ہے۔ اتنے سارے ہنگاموں میں بھی اگر ہماری کرکٹ سلامت رہ جائے تو بڑی بات ہے!

1992 کے ورلڈ کپ کی یاد اس لئے بھی تازہ ہوگئی ہے کہ اب کے بھی ہر ٹیم کو دوسری ٹیم سے لڑنا پڑے گا۔ گروپ نہ بنانا بھی خوب ہے۔ جب ہر ٹیم کی فتح و شکست کا مدار دوسروں کی فتح و شکست پر ہو تو دعاؤں اور بد دعاؤں کا بازار بھی خوب سجتا ہے! کپ کی دوڑ میں شامل رہنے کے لئے ان فتح کے لئے بھی دعا کرنی پڑتی ہے جن سے شدید نفرت ہو! اور کبھی کبھی اپنے پیاروں کی شکست کے لئے بھی پرامید رہنا پڑتا ہے! 1992 میں یہی ہوا تھا۔ کرکٹ دیکھنے والے مقابلے سے زیادہ اس اُدھیڑ بُن میں رہتے تھے کہ کس کس کے ہارنے سے کون کون جیت سکتا ہے اور کس کس کی جیت سے کون کون مقابلوں سے خارج ہو جائے گا!

ورلڈ کپ کا میلہ سجے گا تو کاروبار کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کے سٹّہ بھی ہوگا۔ سنا ہے بکیز نے ابھی سے کاروباری افراد سے رابطہ شروع کردیا ہے تاکہ اہم مقابلوں پر خوب جی بھر کے رقوم لگائی جائیں! اب ہم کرکٹ کے مقابلوں پر کیا داؤ لگائیں، ہماری تو پوری کرکٹ ہی داؤ پر لگ گئی ہے! جنوبی ایشیا بھی کیا خطہ ہے، کرکٹ کا سیزن شروع ہوتا ہے تو کاروباری اداروں اور سٹّے بازوں کی بھی چاندی ہو جاتی ہے! کرکٹ کم کھیلی جاتی ہے اور کرکٹ سے زیادہ کھیلا جاتا ہے! ایک ایک گیند کو کئی کاروباری زاویوں اور دیکھا اور پرکھا جاتا ہے! کوئی وکٹ گرتی ہے تو کئی کھلاڑیوں اور ٹیموں کی نیت جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے! کوئی مانے یا نہ مانے، دنیا کی سب سے انوکھی کرکٹ ہمارے خطے میں کھیلی جاتی ہے!

سیاست ہم سے آخر کب تک کھیلے؟ وہی حکمرانوں کی بد اعمالی، وہی ہماری بدگمانی۔ ایک طرف حکومت کی جان پر بنی ہوئی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کا کیا کرے۔ اور دوسری طرف عوام ہیں کہ ان کی سمجھ ہی میں نہیں آرہا کہ تیونس اور مصر سے اٹھنے والی احتجاجی لہر میں بہیں یا بہنے سے گریز کریں! ایسے میں کرکٹ کا ورلڈ کپ ایک نعمتِ غیر مترقبہ بن کر نمودار ہوا ہے۔ اچھا ہے کچھ دن ذہنوں پر کرکٹ سوار رہے گی تو لوگ احتجاج، دھرنا، ریلی، مارچ۔۔۔ سب کچھ بھول جائیں گے! قوم جب عافیہ کو بھول گئی تو، کچھ دن ہی کے لئے سہی، ریمنڈ کو بھی بھول ہی جائے گی۔ کرکٹ کی گرما گرمی حکومت کے لئے تھوڑی بہت ٹھنڈک ضرور پیدا کرے گی!

ایک ورلڈ کپ وہ تھا جس نے ہمارے اختلافات ختم کئے تھے اور خوشیوں کا سامان کیا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ ہم دو تین دن ہی میں ورلڈ کپ سے باہر ہوئے اور قتل کے الزام کو بھی سہنا پڑا۔ اب پھر کرکٹ پر عہدِ ستم ہے اور ہم ہیں۔ جس کھیل سے ہمیں عالمگیر شہرت ملی اُس سے ہم نے کھلواڑ کی۔ اس کھلواڑ کے نتیجے میں ہماری عزت داؤ پر لگی اور اب حالت یہ ہے کہ وہ کھیل نزع کے عالم میں ہے اور ہم ہیں۔ ایک کرکٹ نے ہمیں کیسے کیسے اچھے اور بُرے دن دکھائے ہیں! کاش ایک بار پھر ہم کرکٹ ہی کے ذریعے متحد ہو جائیں اور، کچھ دن ہی کے لئے سہی، خوش ہولیں!!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483875 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More