تحریر :شعبان جھلن شعبانؔ
21 فروری کو دنیا بھر میں ماں بولی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ غالباََ
ساٹھ سال قبل بنگال میں عوام اپنی ماں بولی میں لکھنے پڑھنے کا حق نہ ملنے
پر سڑکوں پر آئے یہ دن کتنا خطر نا ک تھا اس بارے میں تاریخ چیخ چیخ کر بتا
رہی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو یا ساہیوال کوئی نئی بات نہیں اس دن بھی
گولیاں چلیں جس کے نتیجے میں رفیق، برکت، جبار اور سالم کی موت ہو گئی جن
کو زمانے نے شہیدِ ماں بولی کہا۔21 فروری کو لاکھوں بنگالی ہاتھوں میں پھول
لیکر ننگے پاؤں شہید منار تک گئے اور ان شہیدوں کوں بڑے مان سے خراجِ عقیدت
پیش کیا۔قائداعظم کی حیات میں ہی بنگالی تناظہ شروع ہو چکا تھا۔اردو کو
زبردستی قومی زبان بنایا گیا جس کا مشرقی پاکستان نے شدید رد عمل دیا۔ان کا
مطالبہ تھا کہ جب ان کے پاس اپنی زبان موجود ہے تو انہیں غیر زبان پڑھنے پر
کیوں مجبور کیا جا رہا ہے۔اس سوچ اور ویثرن کے پیچھے بنگالی دانشور، شاعر،
ادیب، قوم پرست اور سیاسی کارکن موجودتھے۔بنگالیوں کی مادری زبان کے خلاف
امتیازی سلوک نے ہی آگے چل کر سقوطِ ڈھاکہ جیسا دن تاریخ کو دیا۔ہم نے اس
سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ اپنے کانوں میں تیل ڈال کر آنکھوں پر کھیرے کے
گول ٹکڑے رکھ کر آرام میں گم ہیں۔دنیا کی امیر ترین ریاستوں میں ریاست
بہاولپور کا نام بھی آتا ہے جو ازل سے خود مختار اور امیر ترین ریاست تھی ۔
جس کی زبان ریاستی تھی جو کہ اب سرائیکی کے نام سے جانی جاتی ہے۔نواب آف
بہاولپور سر صادق خان عباسی نے بابائے قوم محمد علی جناح کے جذبات ، نیک
دلی اور لگن کو دیکھ کر ان سے الحاق کیا ۔قائداعظم کی تقریب حلف برداری سے
لیکر دو سال تک تمام اداروں کی تنخواہ ، پاکستان کو لاکھوں فوجی دینا اور
پاکستان کے خزانے میں بارہ من سونا جمع کروانے والے لوگوں کی زبان سرائیکی
تھی۔ ان کے تمام محلات پر فوج قابض ہے تمام جائیداد حکومت نے ضبط کر لی
نواب کے ساتھ جو ہوا سو ہوا آج تک انکی نسل کو ان کی زبان کو انکے عوام
کومحروم تر رکھا گیا ہے۔سات ساڑھے سات کروڑ لوگوں کی زبان اب بھی سرائیکی
ہی ہے جس کا آئین اور قانون میں کوئی حق نہیں۔اٹھارویں صدی کی دوسری دہائی
کے آخر میں یہاں آنے والی زبان آج صدیوں پرانی زبان کا حق چھین کر اس کو
زبردستی اپنا لہجہ بنا رہی ہے جب کہ حقائق کچھ اور ہیں۔اس زبردستی میں
پنجاب کی سیاسی جماعتیں،مذہبی جماعتیں،اسٹیبلشمنٹ اور تعصب پسند لابی
ہے۔سرائیکی لیڈرز کو زبان پر غلط چھاپ یا ظلم کے بھیانک خطرے کی کوئی فکر
نہیں کیوں کہ ان کی صرف ووٹوں میں دلچسپی ہے بس۔تمام سیاسی جماعتوں کی
سرائیکی لیڈرشب، شاعر ، ادیب، دانشور،جاگیر دار اور ملا اگر آٹھ دن سرائیکی
سرائیکی کریں تو بات بن سکتی۔ سکول سطح تک لازمی تعلیم میں بھی شامل ہو
سکتی ہے مگر یہ کبھی نہیں کرینگے یہ سب زبان کے مجرم ہیں۔سرائیکیوں کو
شناخت کا شعور دینے والے صوفی بزرگ باباراز تاجدارجتوئی کی حیاتی اسی مقصد
میں گزر گئی اتفاق سے ان کا وصال بھی اکیس فروری کو ہی ہوا یہ عطا ہے ۔ ہم
آج ان کو مس کر رہے ہیں۔انہوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ ووٹ سرائیکیوں کا لے کر
ان کو صرف زبان کا حق تک نہ دینے والے ہمارے اصل مجرم ہیں۔ پنجاب اور
پاکستان کی سالمیت کی خاطر سرائیکی کو لینگوئیج اور کلچر سوسائٹی میں الگ
پہچان دی جائے وگرنہ ہمیں بنگالیوں کا دیا سبق پھر پڑھایا جا سکتا ہے۔اس کی
بقا کو نقصان پہنچانا ملکی سطح تک بڑے نقصان کی وجہ بن سکتا ہے۔تختِ اسلام
آباد ہو یا تختِ لاہور لیڈرشب اور حکومتی و ملکی مہاریں سرائیکیوں کے پاس
ہیں۔اگر آج یہ کچھ نہیں کرتے تو کان کھول کر سن لیں کالی قیامت تک کچھ نہیں
ہوگا۔ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانا سو روزہ پلان میں شامل تھا مگر کوئی
پیش رفت نہ ہو سکی۔جو آنکھ کھلی ہوئی ہے دیکھ سکتی ہے کہ عمران خان نے وفاق
اور پنجاب میں سرائیکیوں کے ہی ووٹ بینک سے اقتدار حاصل کیا اب کرسی مل
جانے کے بعد ان کو بھول جانا ایسا ہی ہے جیسے چڑیا کا بچہ اڑان بھرنا شروع
کرتا ہے تو گھونسلہ ہی بھول جاتا ہے۔ایک لکھنے والے نے تو یہاں تک لکھا ہے
کہ " سندھ میں رہنے والے سرائیکی اور مہاجر سندھی ہیں،پنجاب میں رہنے والے
بلوچ پٹھان اورسرائیکی پنجابی ہیں۔ خیبر بختون خواں میں رہنے والے ہندکو
اور سرائیکی پشتون ہیں اور بلوچستان میں رہنے والے پشتواور براہوی بلوچ ہیں"
یعنی قدیم تہذیب رکھنے والی زبان نہ تو زبان ہے اور نہ ہی اس کی کوئی پہچان
ہے۔ بھلا یہ پاکستان ہے یا کوئی اور جہان ہے؟ اس وقت سرائیکی پاکستان کے
چاروں صوبوں میں آباد ہیں اور قریباََ بیس اضلاع میں ان کی اکثریت
ہے۔اکثریتی علاقوں پر مشتمل ان کو انکی الگ پہچان دینا حکومت اور تمام
سیاسی جماعتوں کا فرض ہے ۔ آج ماں بولی کے موقع پر میرا تمام سیاسی جماعتوں
کو مشورہ ہے کہ وہ سرائیکیوں کو الگ پہچان دیں ، سرائیکی ریجن میں سرائیکی
میں ہی بات کریں تاکہ سرائیکی قوم کو اعتماد میں لیکر سات ساڑھے سات کروڑ
لوگوں سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔اگر ان کو کسی دوسری زبان یا قوم میں ضم
کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ فعل خانہ جنگی اور ملکی تقسیم کا سبب بن سکتا ہے
کیونکہ ان کے بچے جوان ہو گئے ہیں ان کے شاعر ادیب جاگ چکے ہیں ان میں شعور
جوبن پہ آچکا ہے ۔ میں خاص طور پرپنجاب کی بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور
پاکستان تحریک انصاف سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ سرائیکیوں کے قیامِ پاکستان کے
وقت کے احسانات ہی یاد کر لیں اور ان کو ان کی الگ پہچان اور الگ صوبہ دیں
اور ہمیشہ کے لئے وطنِ عزیز کی بڑی زبان اور قوم سے اپنے تعلقات مضبوط کر
لیں۔
ساڈی سرائیکی مٹھڑی بولی اے
جیڑھی سکھڑی ما ء دی جھولی اے
اینکوں بولنڑ توں او رہ نئیں سگدا
جیندے کنیں ایں رس گھولی اے
گیت شعبانؔ ایندے گاندا ہے
اینکوں سُنڑ تے اکھ جو کھولی اے |