21 فروری پوری دنیا میں مادری زبان کے دن کے طور پر
منایاجاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد مادری زبانوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا
اور مادری زبانوں میں علوم و فنون کو فروغ دینا ہے تاکہ لوگوں کو ان کی
اپنی زبان میں پڑھنے، لکھنے اور کاروبار زندگی چلانے کے مواقع میسر آئیں۔
مادری زبان کا تحفظ بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے اور اقوام متحدہ کے
تمام ممالک مادری زبانوں کو تحفظ دینے اور مادری زبانوں میں ابتدائی تعلیم
دینے کے پابند ہیں۔ یونیسکو سروے کے مطابق دنیا کی 40 فیصد آباد اپنی مادری
زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہے۔ یہ امر بین الاقوامی طور پر تسلیم
شدہ ہے کہ جب تک انسان کو اس کی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع
نہیں ملیں گے وہ ترقی نہیں کرسکتے۔ ہر فرد فطری طور پر اپنی مادری زبان میں
تعلیم حاصل کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ عام طور پر ہجرت، کسی دوسرے طبقے کی
بالادستی اور غربت کی وجہ سے مادری زبان میں پڑھنے لکھنے سے محرومی ہوتی
ہے۔اقوامی متحدہ نے سال 2019 کو مادری زبانوں کے ذریعہ ترقی، قیام امن اور
تعمیر نو کو بنیاد بنانے کا عزم کیا ہے۔اقوام متحدہ نے اپنے ممبر ممالک کو
متوجہ کیا ہے کہ وہ مادری زبانوں کے تحفظ اور مادری زبانوں میں ابتدائی
تعلیم پر توجہ دے کر اپنے معاشروں کو ترقی کی طرف گامزن کریں، اپنے ہاں امن
کے قیام اور سماجی بہتری کے لیے مادری زبانوں کو اہمیت دیں۔ یونیسکو کے
ڈائریکٹر جنرل نے ممبر ممالک کو متوجہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ
کے چارٹر کے مطابق ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دینے کا اہتمام کریں تاکہ
معاشرے کے تمام طبقات برابری کی بنیاد پر ترقی کرسکیں۔ اقوامی متحدہ کے
چارٹر کے مطاق کسی طبقے پر غیر مانوس زبان مسلط کرنا بنیادی انسانی حقوق کی
خلاف ورزی شمار کیا جاتا ہے۔
دنیا میں سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ بمشکل سات سو زبانوں میں
پڑھنے لکھنے اور کاروبار زندگی چلانے کی سہولیات میسر ہیں۔ پاکستان کی قومی
زبان اردو ہے جو یونیسکو سروے کے مطابق چینی اور انگریزی کے بعد دنیا میں
بولی اور سمجھے جانے والی تیسری بڑی زبان ہے۔ ستر کے قریب مقامی زبانیں
پاکستان کے مختلف علاقوں میں بولی جاتی ہیں۔ بچہ جو زبان اپنی ماں کے گود
میں سیکھتا ہے اسی میں درست تفہیم پاتا ہے اور اسی زبان میں اگر تعلیم دی
جائے تو وہ علم کے نور سے منور بھی ہوسکتا ہے۔ دنیا کی چالیس فیصد آبادی کو
مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ ترقی
یافتہ طبقے کے برابر نہ آسکیں۔
پاکستان کی حالت اس اعتبار سے بہت توجہ طلب ہے کہ مادری زبان تو دور کی بات
ہے یہاں قومی زبان کو بھی تعلیمی اداروں سے دیس نکالا دیا جاچکا ہے۔ بانی
پاکستان قائداعظم ؒ نے قیام پاکستان سے پہلے ہی اردو کو پاکستان کی قومی
زبان قرار دیا تھا۔ پھر 25 فروری 1949 کو باقاعدہ قانون ساز اسمبلی نے اس
کی توثیق کردی تھی۔ اس کے بعد بننے والے تمام دساتیر میں بھی اردو کو ہی
قومی زبان تسلیم کیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود ہماری نوکر شاہی نے اردو کو
دفاتر اور تعلیمی اداروں میں داخل نہیں ہونے دیا۔ 8 ستمبر 2015 کو سپریم
کورٹ نے ایک تاریخ ساز فیصلے میں قومی زبان کے نفاذ اور علاقائی زبان کو
فروغ دینے کی ہدایت کی تھی۔ اس کے باوجود طاقتور بیورکریسی کی ہٹ دھرمی اور
حکمرانوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے قومی ، صوبائی اور علاقائی زبانوں کو
مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔
پاکستان کی معاشی پسماندگی، تعلیمی انحطاط اور معاشرتی بگاڑ کی اصل وجہ ایک
غیر ملکی زبان کا غیر قانونی اور غیر اخلاقی تسلط ہے۔ پانچ سو کے قریب
نوکرشاہی (بیوروکریسی) کے کل پرزے پورے نظام کو جکڑے ہوئے ہیں۔ ہماری عدلیہ
میں انگریزی پرور لوگوں کا قبضہ ہے۔ بیوروکریسی اور عدلیہ کے اتحاد نے پورے
ملک کو جہالت اور پسماندگی کے دوچار کررکھا ہے اور وہ اپنی نسلوں کے قبضے
کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستان کی بیوروکریسی، عدلیہ اور مسلح
افواج پر نظر دوڑا کر دیکھیں تو اسی فیصد نسل درنسل ان قومی اداروں پر قابض
ہیں۔ عوام میں سے بمشکل بیس فیصد کو اس حصار میں داخل ہونے کی اجازت ملتی
ہے۔
اگر پاکستان میں قومی ، علاقائی اور مادری زبان کو ابتدائی، ثانوی اور
اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ بنا دیا جائے تو غریب گھرانوں کے بچے بھی قومی دہارے
میں شامل ہوجائیں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انگریزی کا تسلط توہین
عدالت اور قانون کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ جب تک عوام الناس قومی اور
مادری زبان کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہوتے اور اپنے حق کے لیے آواز بلند نہیں
کرتے قومی ترقی کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ چند خاندان اس ملک کے وسائل
پر قابض رہیں گے اور ملک کی دولت کو ماضی کی طرح دیمک کی طرح چاٹتے رہیں
گے۔ |