تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
تاریخ گواہ ہے کہ آج سے کئی سو سال قبل خداوند کریم کے پیارے محبوب حضور
پاک جس کے بارے میں خداوندکریم نے قرآ ن پاک میں واضح ارشاد فرمایا تھا کہ
اے نبی اگر تمھیں پیدا نہ کرتا تو کائنات میں کوئی چیز بھی پیدا نہ ہوتی آپ
یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ ایک وہ پاک ہستی ہے
کہ جن کا نام کلمہ پاک میں نہ لیا جائے کلمہ مکمل نہیں ہوتا اور جب تک
مسلمان اس مکمل کلمہ کو نہ پڑھ لیں اُس وقت تک وہ مسلمان نہیں بن سکتے اس
پاک عظیم سے عظیم تر ہستی کے نبوت کے دعوے سے قبل عرب کے سردار اپنے آپ کو
مسلمان تو کہلواتے تھے لیکن پوجا بتوں کی کرتے تھے قافلوں کے لوٹ مار کے
دوران مردوں اور معصوم بچوں کو قتل عام کر کے اُن کی بہو بیٹیوں کی عزتیں
لوٹنے کے ساتھ ساتھ انھیں فروخت کر کے دولت کماتے تھے یہی کافی نہیں شراب
نوشی چوری ڈکیتی اور عیاشی اُن کا محبوب مشغلہ تھا قصہ مختصر کہ انھیں بہو
بیٹی کی کوئی تمیز نہ تھی دوسروں کے حقوق کو غضب کر نا وہ اپنا فرض عین
سمجھتے تھے کہ اسی دوران جب خداوند کریم کے پیارے محبوب حضور پاک نے اپنی
نبوت کا دعوی کیا تو چند ایک کے باقی ماندہ سردار آپ کی جان کے دشمن بن کر
آپ کو طرح طرح کی اذیت سے دوچار کرنے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے بالآ خر
ان ناسوروں نے میدان کر بلا میں آپ کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کو
نہ صرف بلکہ آپ کے عزیز و اقارب کو بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا خیموں
کو آگ لگا کر پاک ہستیوں کو قیدی بنا کر شام کے بازاروں میں گھمایا گیا
یہاں تک کہ بعض ناسوروں نے انعام کے لالچ میں آ کر حضرت امام حسین علیہ
السلام کا سر تن سے جدا کر دیا اور بعض نے پاک ہستیوں کی نعشوں پر گھوڑے
دوڑا دیئے بعد ازاں امیر مختار نے ان ناسوروں کو اذیت ناک موت سے ہمکنار
کیا یہاں افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ آج یہی کیفیت ہمارے ملک کے مسلمانوں
کی ہے جو روزہ نماز اور حج وغیرہ تو ادا کرتے ہیں لیکن پو جا نوٹوں کی کرتے
ہیں ان کے سامنے عدل و انصاف اور انسانیت کوئی حیثیت نہیں رکھتی یہ تو بس
اپنے آ قاؤں کی خوشنودگی حاصل کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں نہ کہ
خداوندکریم اور آپ کے پیارے محبوب کی جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آج ملک کے
لا تعداد ڈی پی او صاحبان ایسے ہیں جو اپنی تعنیاتی کی پہلی میٹنگ میں اپنے
ماتحت عملہ کو یہ ہدایات جاری کرتے ہیں کہ تم نے میری تعنیاتی کے دوران
اپنے سابقہ ریکارڈ کو ختم کر کے ایک ایسا ریکارڈ قائم کرنا ہے جو سابقہ ڈی
پی او صاحبان سے بہتر ہو جس کے نتیجہ میں ماتحت عملہ اپنی اعلی کارکردگی
دکھانے کی خا طر جا ئز ناجائز نائن سی اور ناجائز اسحلہ کے مقدمات درج کرنا
شروع کر دیتا ہے خواہ وہ منشیات اور اسحلہ مال خانے سے ہی حاصل کیوں نہ
کرنا پڑے جو کہ یہ ایک افسوس ناک پہلو ہے چاہیے تو یہ تھا کہ ڈی پی او
صاحبان اپنے ماتحت عملہ کو یہ ہدایات جاری کرتے کہ جس تھانے کے انچارج نے
جرائم کا خاتمہ کیا اسے انعام سے نوازا جائے گا اور جس کے تھانے کے علاقہ
میں جرائم میں اضافہ ہوا اُس کی وردی اتار لی جائے گی افسوس کہ نجانے کس
مصلحت کے تحت ڈی پی او صاحبان ایسی ہدایات جاری کر نے سے قاصر ہیں تو یہاں
مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ایک شخص نے اپنا پالتو طو طا دوکان پر رکھا
ہوا تھا جو وہاں سے گزرنے والے ایک اہلکار کو دیکھ کر راشی راشی کہہ کر
پکارنا شروع کر دیتا جس کی شکایت اُس اہلکار نے طوطے کے مالک کو کی جس نے
طوطے کو ایسی بات کہنے سے روک دیا دوسرے دن جب وہ اہلکار وہاں سے گزرا تو
طوطے نے اُس اہلکار کو دیکھ کر یونہی شور مچانا شروع کر دیا جس پر اُس
اہلکار نے طوطے کی طرف دیکھا تو طوطے نے اُس اہلکار سے کہا کہ سمجھ گیا ہے
ناں بالکل اسی طرح میری اس مختصر تحریر کو پڑھ کر وزیر اعلی پنجاب عثمان
بزدار اور انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس چوہدری امجد جاوید سلیمی جو فرض شناسی
اور ایمانداری کی منہ بولتی تصویر ہیں سمجھ جائے گئے ہاں بالکل اسی طرح
ہمارے ملک کے لا تعداد ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز سرکاری ہسپتالوں میں غریب
مریضوں کے ساتھ ایسا رویہ اپناتے ہیں کہ جس کو دیکھ کر انسانیت کا سر بھی
شرم سے جھک جاتا ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہی ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز
دولت کی ہوس کے حصول کی خا طر اپنے پرائیویٹ ہسپتالوں میں امیر ترین مریضوں
کے ساتھ ایسا رویہ اپناتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر کوئی اور مسیحا ہے ہی
نہیں درحقیقت تو یہ ہے کہ یہ مسیحا کے روپ میں ڈریکولا ہیں جو زندگی اور
موت کی کشمکش میں مبتلا سرکاری ہسپتالوں میں غریب مریضوں کا خون چوس کر
انسانیت کی تذلیل کرنے میں مصروف عمل ہیں کہ جہنیں مسیحا کہنا بھی مسیحا
لفظ کی توہین ہے کیونکہ یہ وہ ناسور ہیں جو حرام کی کمائی کے حصول کی خا طر
نارمل ڈلیوری کو آ پریشن کا روپ دے دیتے ہیں یہی کافی نہیں یہ وہ ناسور ہیں
جو ادویات سے لیکر لیبارٹری ٹیسٹوں تک اپنی کمیشن وصول کر لیتے ہیں اور تو
اور یہ وہ ناسور ہیں جو میڈیکل سر ٹیفکیٹ دینے کے عوض بھاری نذرانہ وصول کر
کے غریب افراد کو نا کردہ جرائم میں ملوث کر کے بند سلاسل کروا دیتے ہیں
اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو یہ وہ ناسور ہیں کہ جو سرکاری
ہسپتالوں میں ادویات خرد برد کرنے کے ساتھ ساتھ فر نیچر جنرل سٹور اور
پٹرول وغیرہ کی مد میں ملنے والی رقوم بھی از خود ہڑپ کر جاتے ہیں جس کے
نتیجہ میں آج متعدد سرکاری ہسپتالوں میں بیڈوں کی کمی کے باعث ایک ایک بیڈ
پر مختلف موذی امراض میں مبتلا تین تین چار چار غریب مریض پڑے ہوئے نظر آتے
ہیں جس کا واضح ثبوت ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال جھنگ کا چلڈرن وارڈ اور ایمر
جنسی وارڈ ہے بالکل یہی کیفیت ہمارے ملک کے علمائے دین کی بھی ہے جو نوٹوں
کے غلام بن کر مذہب اسلام کو کئی حصوں میں تقسیم کرنے میں مصروف عمل ہیں
حالانکہ خداوندکریم نے مذہب اسلام میں مذہبی منافقت پھیلانے کو سخت ممنوع
قرار دیا ہے لیکن اس حکم خداوندی کے باوجود لاتعداد علمائے دین مذہبی
منافقت پھیلا کر بھائی کو بھائی سے لڑا کر بھائی چارے کی فضا کو تباہ و بر
باد کرنے میں مصروف عمل ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ملک بھر کے محلوں اور گلیوں
میں مختلف مذہبی جماعتوں نے اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی خا طر مساجدیں قائم
کر لی ہیں کوئی مسجد دیو بندی کوئی مسجد بریلوی کوئی مسجد اہلحدیث اور کوئی
مسجد اہل تشیع کے نام پر منسوب ہو چکی ہیں لیکن افسوس کہ خداوندکریم کی
کوئی مسجد تاحال قائم نہیں ہوئی جہاں پر مذہب اسلام سے تعلق رکھنے والے
افراد یکجا ہو کر خداوندکریم کے حضور سجدہ زن ہو سکے یہاں پر افسوس ناک
پہلو تو یہ بھی ہے کہ اب چھوٹے مولوی بھی حضور پاک کے قصیدے پڑھنے کے بھاری
نذرانے وصول کر نے میں مصروف عمل ہیں ملک بھر میں کہیں بھی خوشی ہو یا غمی
یا پھر کوئی اور تقریب یہ چھوٹے مولوی آپ کو ہر جگہ نظر آئے گئے اور وہ بھی
صرف اور صرف نوٹوں کے حصول کی خا طر یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ چھوٹے
مولوی نکاح بھی بھاری نذرانہ وصول کر کے پڑھتے ہیں اور اگر ان کی مرضی کے
مطا بق ان کو نذرانہ نہ ملے تو اکثر یہ اسلام کے ٹھیکیدار نکاح پڑھے بغیر
ہی چلے جاتے ہیں بالکل یہی کیفیت ملک کے محکمہ مال کے نیچے سے لیکر اوپر تک
کے عملہ جو لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی ٍتاریخ رقم کرنے میں مصروف
عمل ہیں جس کا واضح ثبوت محکمہ مال جھنگ کا عملہ ہے جن کی لوٹ مار ظلم وستم
اور ناانصافیوں کی مفصل تفصیل آئندہ شمارے میں پڑھیے گا جن کے کالے کرتوتوں
کو دیکھ کر نہ صرف انسانیت بلکہ قانون کا سر بھی شرم سے جھک جائے گا
جاری ہے
|