اپنا پیسہ کہاں خرچ کریں ؟

تحصیل کمپلیکس سمبڑیال کے لان میں گھاس پہ بیٹھے انہوں نے ایک تنکا توڑ کے پھینکا ہاتھ جھاڑے اور مجھ سے پوچھا "بیٹا بتاو ! اربوں انسانوں کی اس دنیا میں کتنےعام لوگ عبدالستارایدھی بنے؟ کتنے تاجر ہیں جنہوں نے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی راہ پہ چل کر اپنی دولت کو ہمیشہ کے لئے امر کیاہے"؟ ۔ مجھے شش و پنج میں مبتلاء دیکھ کر وہ بولے " اچھا یہ بتاو تمہارے گاوں میں کتنی بیوہ عورتیں ہیں کتنے یتیم بچے ہیں، کتنے غریب بیمار ہیں جنہیں زندگی کے ان گنت مسائل کا سامنا ہے؟"۔

میرے پاس ان کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا ۔ اپنی خوبصورت داڑھی کھجاتے ہوئے وہ ایک بار پھر بولے" ایسا نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے میں اچھے لوگ کم ہیں ، ہم تو دنیا کی سب سےذیادہ فلاحی قوم ہیں ہمیں ہمارا مذہب انسانیت سے محبت اور خدمت ہی تو سکھاتا ہے ۔ہم انفرادی طور پہ بہت خرچ کرنے والے لوگ ہیں ، نیکی کے کاموں میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں لیکن ہمارا کام غیر منظم ہوتا ہے ہم اپنے دروازے پہ آئے یا راہ میں کھڑے غیر مستحق افراد کو بھی خالی نہیں جانے دیتے، اور کچھ نہ ہو تو جمعرات،جمعہ کو مولوی صاحب مسلسل تیس تیس سال سے تعمیر ہوتی مساجد کے لئے ہماری جیبیں ہلکی کرادیتےہیں۔ یوں ہم بہت سارا ایسا پیسہ اور انرجی جو فلاح انسانیت اور ایدھی جیسے ادارے کھڑے کرسکتی تھی برباد کر بیٹھتے ہیں "۔سر حبیب اللہ میٹرک میں ہمارے استاد رہے تھے ۔ آج قریب ڈیڑھ عشرے بعد ان سے ملاقات ہوئی تھی ۔ اپنا تعارف کرایا تو بڑے تپاک سے ملے ، اور ہاتھ پکڑ کر دھوپ میں لے آئے ، اور اب ان کے روشن افکار سے مستفید ہونےکا موقع مل رہاتھا ۔ وہ تھوڑی دیر بیٹھ کر کسی روز گھر پہ آنے کا وعدہ لے کر رخصت ہوگئے ، اور میں بڑی دیر تک بیٹھا سوچتا رہا کہ ہم اپنے گھر اور بچوں کے لئے تو سب کچھ کر گزرتے ہیں ، لیکن معاشرے اور انسانیت کو ہم سے کیا فائدہ پہنچ رہا ہے ؟ ۔ ہم میں سے ہر کوئی دامےدرمےسخنےفلاحی کاموں میں اپنا حصہ ڈالتا ہے ، لیکن اس سے کسی ایک کا بھی مکمل فائدہ نہیں ہو پاتا ، اگر ہر گاوں یا محلے سے صرف ایک فرد بھی یہ روز ضائع ہونے والا سرمایہ اکٹھا کرے اور اسے کسی یتیم بیوہ یا غریب پہ خرچ کرے تو سوچئے! کم از کم کسی ایک خاندان کی پریشانیاں تو کم ہونگی ، اور اگر یہی کام کچھ مزید منظم طریقے سے کیا جائے تو کیا پتہ آپ آج کل کے ایک اور ایدھی جیسےعظیم ادارے کی بنیاد رکھ رہے ہوں ۔میں ایسے کئی لوگوں کو ذاتی طور پہ جانتا ہوں جو لوگوں کے کام آکر بڑی خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ میں ایسے کئی گاوں جانتا ہوں جہاں چار چار پانچ پانچ مساجد ہیں حالانکہ پورے گاوں کے لئے ایک مسجد بھی کافی تھی۔ ایسے کئی افراد ہیں جو مانگنے والے کو خالی ہاتھ لوٹاناپسند نہیں کرتے،ایسے کئی زمیندار ہیں جو باقاعدہ عشرنکالتے ہیں ، ایسے کئی بزنس مین میرے علم میں ہیں جو ہرسال زکوات ادا کرتے ہیں ۔ کاش یہ سب لوگ اپنا پیسہ برباد ہونے سے بچانے کا فیصلہ کریں اور اسے حقیقتا" فلاح کے کاموں میں خرچ کریں ۔ ہمارے ملک میں لاکھوں بچے تعلیمی اخراجات نہ ہونے کے باعث تعلیم سے محروم ہیں ، ہزاروں بیوہ عورتیں ضروریات زندگی پورا کرنے کے لئے چادر اور چہاردیواری سے باہر جانے پہ مجبور ہیں ، ہزاروں یتیم بچے سہارا نہ ہونے کے باعث چھوٹی سی عمر میں مشقت کررہے ہیں ، ہسپتال معذوروں اور مستحق بیماروں سے بھرے پڑے ہیں ، اور ہم صرف گھر کے دروازے پہ آئے عادی گداگروں کے تھیلے بھرنے اور تیس تیس سال سے بن رہی مسجدوں کو چندہ دینے کو ہی صرف نیکی سمجھ بیٹھے ہیں ۔ ہمیں اپنی سوچ اور عمل کو اب بدلنا ہوگا ، معاشرہ تعمیری اور فلاحی بناناہےتو اپنی صلاحیتیں اور پیسہ درست جگہ پہ لگانا ہوگا ۔ایسے درد مند اور اہل خیر جو نیکی اور انسانیت کی خدمت میں کسی بھی طرح کا حصہ ڈالنا چاہیں وہ مجھ سے اس نمبریا میرے ای میل03338813856
[email protected]
پہ رابطہ کرسکتے ہیں ۔ طاہر ویلفئیر فاونڈیشن کا قیام ان شاءاللہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے کیا جارہا ہے ۔

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 77523 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.