اگر آپ صبح سویرے گھر سے نکلتے ہیں خواہ آپ کہیں بھی جا
رہے ہوں تو یقینا آپ کا واسطہ ایسے پیشہ ور بھکاریوں سے ضرور پڑا ہوگا جو
ہر سڑک،ہرگلی،ہر سگنل، ہر چوراہے اور ہر چورنگی پر باقاعدگی سے اپنی ڈیوٹی
سر انجام دیتے نظر آتے ہیں ۔چاہے آپ کو آفس پہنچنے میں دیر ہو یا آپکی کلاس
مس ہونے کا ڈر یہ آپ سے پیسے لئے بغیر نہیں ٹلتے۔اب یہ انکی مجبوری ہے یا
پیشہ اس بات کا فیصلہ ہمارے لئے کرنا مناسب نہیں البتہ یہ طے ہے کہ انکا
طریقہ کار غلط ہے۔ ہم آئے دن چائلڈ لیبر کے شکار کسی نہ کسی بچے پر ظلم
وستم کی داستان سنتے ہیں مگر ان بچوں کا کیا جو روز ٹولیوں کی شکل میں کسی
نہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں یہی انکا حال ہے اور یہی انکا مستقبل۔ اگر
بھیک مانگنے کیعادت پڑ جائے تو یہ محنت مزدوری کرکے کمانا ناممکن بنا دیتی
ہے۔ ان بچوں کی مائیں اپنے نومولود کو گود میں لیکر بھیک مانگنا شروع
کردیتی ہیں اور پیروں پر چلنے تک بچہ خود اس قابل ہوجاتا ہے کہ ہر کسی کے
آگے ہاتھ پھیلائے ۔ یہ وہ ظلم ہے جو کوئی غیر انکی اولاد پر نہیں کرتا بلکہ
یہ خود کرتے ہیں ہم نے خود ایک مرتبہ دن بھر بھیک مانگنے والے ایک بچے کو
دیکھا بمشکل 4 سے 5سالہ بچہ دن بھر کی مشقت سے تھک کر فٹ ہاتھ پر ہی سو گیا
تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں اسکی ماں آئ اور اسے بےرحمی سے اٹھاکر لے گئ بچہ
نیند کی شدت سے رو بھی نہ سکا۔ یہی نہیں اگر آپ انکے ننگے پیر پھرنے والے
بچوں کو چپل دلا بھی دینگے تو بھی کچھ عرصے بعد وہ آپکو بغیر چپل کے ہی نظر
آئیں گے شاید انہیں عادت ہی نہیں ہوتی۔ یہ بچے تھوڑے بڑے ہوتے ہی اپنے فن
میں اتنے ماہر ہوجاتے ہیں کہ آپ جتنی دفعہ بھی" معاف کرو " کہہ لیں یہ اپنی
جگہ سے نہیں ہلتے پھر یا تو آپ انہیں بھیک دیں یا خود اس جگہ سے چلے جائیں
۔
رمضان اور عید انکے خصوصی سیزن ہوتے ہیں ہر سال بڑی تعداد میں یہ موسمی
فقیر مختلف شہروں کا رخ کرتے ہیں اور گھر سے نکلنے والے ہر شہری کے لئے
مشکلات کا باعث بنتے ہیں ۔ گرمی میں روزہ رکھ کر گھر سے نکلنے والے سبھی
لوگ انکی بددعائوں سے ڈرتے ہیں ۔ مگر انکے سدباب کے لئے کوئی اقدام نہیں
کیا جاتا۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے انکے طریقہ کار میں بھی تبدیلی آتی جا رہی ہے۔
پہلے یہ لوگ صدا لگاتے تھے اب باقاعدہ دروازوں پر دستک دیتے ہیں۔اسی طرح
عیدالضحی کے موقع پر گوشت کا مطالبہ کرنے کے ساتھ یہ لوگ اس بات کے متقاضی
بھی ہوتے ہیں کہ جو کھانا آپ نے بنایا ہے وہ بھی دے دیں۔اور تو اور کبھی
کسی برگر کے ٹھیلےکے آگے کھڑے ہوکر وہاں سےبرگر کھانے کی ڈیمانڈ کرتے ہیں
کبھی بریانی کی۔
اگر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اسلام نے سائل کو جھڑکنےکی ممانعت کی
ہے لیکن اس کے ساتھ ہی بلاوجہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا یا اسے عادت بنا
لینے کی بھی مذمت کی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو واقعی ہم لوگ بغیر سوچے سمجھے
گلی سے گزرنے والے یا راستے میں ملنے والے ان عادی فقیروں کی تو مدد کردیتے
ہیں مگر اپنے آس پاس رہنے والے ان ضرورتمندوں سے بے خبر رہتے ہیں جو اپنی
عزت نفس کی وجہ سے لوگوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ حقیقتا وہ لوگ ذیادہ
حقدار ہوتے ہیں۔ہمیں اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ ہمارے اردگرد موجود
لوگوں میں کوئ ایسا مستحق تو نہیں جس کی مدد نہ کرکے ہم گناہ کے مرتکب ہو
رہے ہوں خیال رہے کہ ایسے لوگوں کی مدد اسطرح کی جانی چاہیے کہ انکا وقار
مجروح نہ ہو۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ پیشہ ور بھکاریوں کی مدد کرکے ہم
درحقیقت گداگری کو فروغ دے رہے ہیں اس کے بجائے ہمیں انہیں کام کرنے کی
ترغیب دینی چاہئےمگر ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ ایسا کہنے پر یہ گداگر باقاعدہ
برابھی مان جاتے ہیں اور یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ پیسے دینے ہیں تو دو
لیکچر نہ دو۔ عجییب ہٹ دھرمی ہے۔ لیکن بعض اوقات واقعی ایسے گداگروں سے
واسطہ پڑتا ہے کہ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی انکی مدد کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں
بلخصوص اگر کوئ بزرگ آپکے سامنے آجائے ۔ یہ بھی اس دور کا ایک بڑا المیہ ہے
کہ ہم صحیح اور غلط میں فرق نہیں کر پاتے حالانکہ سگنل پر ہی چند پیسوں کے
لئے گاڑی صاف کرنے والے بچے بھی موجود ہوتے ہیں اور گجرے بیچنے والے بھی
اکثر جب ہمیں سامان نہیں لینا ہوتا یا گاڑی نہیں صاف کرانی ہوتی ہم انہیں
منع کردیتے ہیں اوربھیک مانگنے والوں کی مدد کردیتے ہیں حالانکہ ہمیں رزق
حلال کمانے والوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے ۔ ان میں بھی اکثر بچے ان
بھکاریوں کے ہی گروہ سے ہوتے ہیں مگر بار بار دھتکارے جانے کی بےعزتی کے ڈر
سے سامان بیچتے ہیں اگر یہ لوگ محنت مزدوری سے ذیادہ آمدنی حاصل نہیں کر
پاتے تو دوبارہ انہیں ذلت کی دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ تو فیصلہ ہمیں
خود کرنا ہے کہ کون ضرورتمند ہے اور کون نہیں۔جو پیسہ ہم یہ سوچ کر اللہ کی
راہ میں نکال رہے ہیںکہ آخرت میں ہماری نجات اور بخشش کا باعث بنے گا پھر
چاہے وہ ایک دس کا نوٹ ہی کیوں نہ ہو اسے مستحق تک ہی پہنچنا چاہئے ۔ |