امریکی ریاست ٹیکساس میں ایسکوباریس نامی شہر دنیا کے سب
سے امیر ملک کا غریب ترین شہر ہے۔
|
|
تاہم درجہ بندی کے لحاظ سے اس شہر کا شمار امریکہ کے غریب ترین شہروں میں
اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ اس شہر کی کُل آبادی 2512 ہے، جسے بہت کم ہونے کے
باعث اعداد و شمار میں گِنا ہی نہیں جاتا۔
مردم شماری کے ادارے کے مطابق اگر ہم کم از کم 1000 باشندوں پر مشتمل
امریکی شہروں پر غور کریں تو فہرست میں ایسکوباریس کا نمبر 62 ہے اور اس
شہر کی چار فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
ایسکوباریس ریو گرانڈے دریا کے کنارے واقع ہے اور یہ دریا امریکہ اور
میکسیکو کے درمیان ایک قدرتی بارڈر کی حیثیت رکھتا ہے۔
ڈیبرا ہرنینڈیز بھی یہیں پیدا ہوئیں اور پرورش پائی۔ وہ کہتی ہیں ’اکثر
اوقات کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، خدا کا شکر ہے کہ میرے رشتہ دار مجھے
کھانے کے لیے بلا لیتے ہیں، لیکن میں شرمندگی محسوس کرتی ہوں۔‘
وہ انگریزی نہیں بول سکتیں اور بمشکل پڑھ پاتی ہیں۔
’میرے سات بچے تھے جن میں سے چھ مر گئے۔ شکر ہے برنیس اب بھی میرے ساتھ ہے،
خوش قسمتی سے ایک ڈاکٹر نے مجھے بچا لیا۔‘
|
|
بچوں کی اموات کیسے واقع ہوئیں؟
وہ پرسکون آواز میں الزام لگاتی ہیں: ’مجھے معلوم نہیں، انھوں نے مجھے کبھی
نہیں بتایا کہ ان (بچوں) کی موت کیسے واقع ہوئی، انھوں نے مجھے کوئی
دستاویزات نہیں دیے، مجھے لگتا ہے ڈاکٹرز نے انھیں مار دیا۔‘
وہ لا علم ہیں۔ انھیں نہیں علم کہ ان کے بچوں کی موت کی اصل وجہ کیا بنی،
کوئی جینیاتی بیماری یا شاید غفلت۔ انھیں نہیں پتا اور شاید انھیں کبھی پتا
چل بھی نہ پائے کیونکہ انھیں طبی امراض جیسی چیزوں کی زیادہ سمجھ بوجھ نہیں
ہے۔
جب وہ چھوٹی تھیں تو انھیں خصوصی بچوں کے سکول بھیج دیا گیا اور پرائمری کی
تعلیم مکمل کرنے کے باوجود بھی انھوں نے کچھ نہیں سیکھا۔
|
|
گویا ڈیبرا کو زیادہ سمجھ نہیں ہے کہ دنیا کیسے چلتی ہے۔
اکتوبر سے ڈیبرا بے روزگار ہیں اور اپنے شوہر اور تین سالہ بیٹی برنیس کے
ہمراہ رہ رہی ہیں۔ ان کے باورچی خانے کی چھت سے پانی ٹپک رہا ہے، ان کا گھر
ایک کباڑ خانے کا منظر پیش کررہا ہے اور وہ سوچتی ہیں کہ حالات کب سازگار
ہوں گے۔
’ہمیں یہاں سے باہر جانا پڑتا ہے، ورنہ کھانے کو کچھ نہیں ملتا‘
ہائی وے 83 کے اطراف چھوٹی سطح کے کاروبار کے علاوہ ایسکوباریس کے باسیوں
کے پاس آمدن کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔
نوکری کی تلاش میں لوگ شہر سے باہر جاتے ہیں۔
ہومیرو روزیلیز کہتے ہیں ’ہم میں سے جن لوگوں کے پاس کاغدات ہیں، انھیں
شمال میں نوکری مل جاتی ہے۔‘
|
|
’افسوس ناک بات یہ ہے کہ آپ کو ایک، دو یا تین ماہ کے لیے اپنے خاندان کو
چھوڑ کر جانا پڑتا ہے۔ لیکن یہ تو کرنا ہی پڑتا ہے، آپ کو یہاں سے نکلنا
پڑتا ہے، ورنہ آپ کھا نہیں سکتے۔‘
چار بچوں کے باپ ہومیرو ایسکوباریس سے نو گھنٹے دور ویسٹ ٹیکساس کے شہر
پیکاس میں تیل کی پائپ لائن کی تعمیر کا کام کرتے ہیں۔
’میرا بڑا بیٹا بھی میرے ساتھ کام پر لگ گیا ہے کیونکہ یہاں پر کرنے کے لیے
کچھ نہیں ہے۔‘
جو لوگ پائپ لائنز پر یا ساتھ والے شہروں میں کام نہیں کرتے وہ فوڈ سٹیمپ
یعنی خوراک خریدنے کی سماجی امداد پر گزارا کرتے ہیں۔
کچھ لوگ چند ماہ کام کر کے بے روزگار ہونے پر ملنے والے بیمے پر گزارا کرتے
ہیں۔
بہرحال یہ سب لوگ ایسی جگہ میں گزارا کر رہے ہیں جہاں کوئی پبلک ٹرانسپورٹ،
ہسپتال یا ایمرجنسی سروس موجود نہیں ہے۔ نیویارک کی وال سٹریٹ سے ہزاروں
کلومیٹر دور یہ سب لوگ بھی اسی پرچم کے سائے تلے رہ رہے ہیں۔
امریکہ میں غربت کی شرح 12.3 فیصد ہے، جو تقریباً 4 کروڑ لوگوں کو متاثر
کرتی ہے۔
|
|
واشنگٹن کے پیو ریسرچ سینٹر کے محقق راکیش کوچھار نے بی بی سی ورلڈ کو
بتایا ’سب سے زیادہ غربت ملک کے جنوب میں ہے۔‘
کوچھار کہتے ہیں کہ سب سے غریب ریاستیں مسیسیپی، لویزیانا اور نیو میکسیکو
ہیں جبکہ نسلی طور پر ’ہسپانوی اور سیاہ فام آبادیوں میں تاریخی طور پر
غربت کی شرح زیادہ رہی ہے۔‘
’علاقہ غیر‘
13 سال پہلے ایسکوباریس کا کوئی وجود نہیں تھا اور 2005 میں پہلی بار اسے
شہر کا درجہ دیا گیا۔ اس سے پہلے ایسکوباریس کا شمار کسی انتظامی دائرہ کار
میں بھی نہیں ہوتا تھا۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ شہر ’نو مینز لینڈ‘ یعنی ’علاقہ غیر‘ تصور کیا جاتا
تھا۔
لیکن جب یہاں کے لوگوں نے سنا کہ برابر والا شہر روم، ایسکوباریس کا ایک
حصہ اپنے ساتھ ضم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو حالات اچانک بدل گئے اور
ایسکوباریس کے باشندوں کو اپنے پڑوسیوں کے اس منصوبے میں کوئی فائدہ نظر
نہیں آیا۔ تب انھوں نے معاملہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
|
|
انھوں نے سوال کیا ’ہم اپنا شہر کیوں نہیں بسا سکتے؟‘
اور پھر انھوں نے ایسا ہی کیا۔ انھوں نے کاغذ پر مستقبل کے شہر کی حدود کا
نقشہ کھینچا اور پتا چلایا کہ ایک شہر سرے سے کیسے بنایا جاتا ہے۔
انھوں نے پڑوسی شہر کے باشندوں کو بلایا اور انتخابات کروائے۔ نتیجتاً
ایسکوباریس کے پہلے اور واحد میئر نوایل ایسکوبار کا چناؤ کیا گیا۔
انھوں نے پُرجوش انداز میں کہا ’شکر ہے کہ ہمیں شہر کا درجہ مل گیا، اب
ہمارے پاس آگ بجھانے والا ٹرک، پانچ پولیس والے اور ایک کچرا اکٹھا کرنے
والا ٹرک ہے۔‘
|
|
’مرکزی حکومت نے ہمیں سبسڈی اور قرضے دیے ہیں تاکہ ہم سڑکیں پختہ کر سکیں
اور نکاسی کا نظام بہتر بنا سکیں۔‘
’ایل میور‘ کے لقب سے مشہور 83 سالہ نوایل نے وضاحت کی ’یہ سب ہم نے اپنے
بل بوتے پر کیا ہے۔‘
ایسکوباریس میں ہسپانوی بولی جاتی ہے، ٹاکو کھائے جاتے ہیں اور رنچیرا
موسیقی سنی جاتی ہے۔ یہ امریکہ میں ایک ’منی میکسیکو‘ کی طرح ہے جہاں پر
ریو گرانڈے دریا ایک سرحد کا کردار ادا کرتا ہے اور رات کو اس کے بہتے پانی
میں کئی سائے گزرتے ہیں۔
دریا کے کنارے
ایسکوباریس ایک چھوٹا سا شہر ہے جو ہائی وے 83 کی وجہ سے دو حصوں میں بٹا
ہوا ہے اور اس میں مرکزی چوک یا اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔
سڑک کی مشرقی جانب دھویں سے اٹی سڑکوں کے درمیان اور قبرستان کے پیچھے ایک
چھوٹا سا گاؤں ہے۔ وہاں فصلیں ہیں نہ مویشی اور زیادہ لوگ بھی نہیں ہیں۔
اکثراوقات صرف سرسراتی ہوئی ہوا یا فاصلے پر کتے کے بھونکنے کی آواز آتی ہے
جیسے کوئی گھڑی ٹوٹ گئی ہو۔
|
|
ہائی وے کی دوسری جانب چند منٹ کی مسافت پر ایک دریا نمودار ہوتا ہے۔ یہاں
پر ہوا اور کتوں کی آواز کی بجائے بارڈر پیٹرول کے ہیلی کاپٹر کی آواز
سنائی دیتی ہے جس کے بعد ایک ویگن اجنبی لوگوں سے تفتیش کرنے آتی ہے ۔
آسمان میں ایک ایروسولائیزڈ نگرانی کرنے والا ریڈار ہر حرکت پر نظر رکھتا
ہے۔
دریا کے کنارے پر ختم ہونے والے مویشی خانے کے مالک اور شہر کے عبوری میئر
روپرٹو ایسکوبار کا کہنا ہے ’عین یہاں پر، جہاں پر میں کھڑا ہوں، یہاں سے
ڈرگز اور تارکینِ وطن گزرتے ہیں۔‘
سفید ٹیکسن ہیٹ پہنے روپرٹو کہتے ہیں ’بعض اوقات رات کو گولیاں چلنے کی
آواز آتی ہے۔‘
’اور جب پانی کی سطح کم ہو جاتی ہے تو کچھ لوگ (دریا) پار کرتے ہیں۔‘
|
|
جو لوگ کبھی اس علاقے میں نہیں آئے وہ صرف 20 میٹر چوڑا دریا دیکھ کے حیران
رہ جاتے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پلان کے حوالے سے روپرٹو کہتے ہیں ’اسی لیے میں دیوار کے
حق میں ہوں حالانکہ یہاں پر رہنے والے زیادہ تر افراد میری بات سے اتفاق
نہیں کرتے۔‘
اگر دیوار بن گئی تو روپرٹو اپنی زمین کا بڑا حصہ کھو دیں گے لیکن انھیں اس
بات کی پرواہ نہیں ہے کیونکہ وہ قائل ہیں کہ دیوار بننے سے انھیں فرق نہیں
پڑے گا۔
’جب وہ یہاں میرے گھر کے ساتھ دیوار بنائیں گے تو میرے لیے ایک ریموٹ
کنٹرول گیٹ چھوڑ جائیں گے تاکہ میں جہاں مرضی جا سکوں۔‘
تاہم ان کے پڑوسی ایسا نہیں سوچتے۔
ڈرگ سمگلنگ سے فرار
ایسکوباریس کی 98 فیصد آبادی میکسیکو سے تعلق رکھنے والے ہسپانوی لوگوں پر
مشتمل ہے۔
کچھ لوگ وہاں پیدا ہوئے اور کچھ لوگوں نے وہاں کی شہریت حاصل کی، کچھ لوگوں
کے پاس رہائش کے پرمٹ ہیں اور کاغدات کے بغیر ہی کچھ لوگ میکسیکو کی ریاست
ٹمولیپاس میں اغوا یا قتل ہونے کے ڈر سے فرار ہو کر یہاں آ جاتے ہیں۔
غیر قانونی طور پر امریکہ آنے والی ایک خاتون جن کی بیٹی میکسیکو جانے کے
بعد کبھی لوٹ کر نہیں آئی، کہتی ہیں ’میری 15 سالہ (بیٹی) لوسیریتو کبھی
واپس نہیں آئی۔‘
|
|
’اس نے مجھ سے کہا کہ امی میں آ جاؤں گی لیکن وہ کبھی واپس نہیں آئی۔ لوگ
کہتے ہیں کہ اسے مار دیا گیا۔ مجھے نہیں پتا کس نے (اس کا قتل کیا)۔‘
’کیا آپ اسے ڈھونڈنے میں میری مدد کریں گے؟‘
’مجھے اپنے کام پر فخر ہے‘
پہلی نظر دوڑانے پر ایسکوباریس امریکہ کا غریب ترین شہر نہیں لگتا۔
ایسکوباریس میں بے گھر افراد نہیں ہیں جیسے کہ لاس انجیلیس کی سڑکوں پر
پائے جاتے ہیں نا ہی ڈٹروئیٹ یا بالٹی مور جیسے بڑے شہروں میں نسلی بنیاد
پر الگ آبادی میں پائی جانے والی غربت۔
لیکن جیسے ہی آپ اندرون کی گلیوں میں داخل ہوتے ہیں آہستہ آہستہ آپ کو
ٹریلر میں بنے گھر نظر آنے لگ جاتے ہیں۔ ان گھروں کو ہلکے مواد سے بنایا
جاتا ہے تاکہ باآسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکے۔
|
|
31سالہ رائول رینوواتو چھ سال کی عمر میں میکسیکو سے ایسکوباریس آئے تھے
جہاں وہ اپنی بیوی اور چار بچوں کے ہمراہ ایک ٹریلر میں بنے ہوئے گھر میں
رہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے ’یہ امیریکن ڈریم نہیں ہے۔ لیکن جو ترقی کرنا چاہتا ہے، ترقی
کرتا ہے۔‘
پڑوسی شہر روم میں کوڑا اکٹھا کرنے والی کمپنی میں کام کرنے والے رائول
اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے جلد ہی ’ہوٹ ڈاگ` بیچنے کا کاروبار شروع
کرنے والے ہیں۔
’مجھے اپنے کام پر فخر ہے کیونکہ یہ ایک باعزت نوکری ہے۔‘ یہ وہی نوکری ہے
جس کی بدولت انھوں نے گھر خریدا اور اس میں ایئر کنڈیشنر لگوایا۔
میونسپل کمیٹی اور ایسکوباریس پولیس سٹیشن سرکاری کاموں کے لیے ایک ہی
ٹریلر کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ باقی تعمیراتی میٹیرئیل سے سستا ہے۔
|
|
اسی جگہ پر آگ بجھانے والی گاڑی، کوڑا اکٹھا کرنے والا ٹرک، ایک چھوٹا
اکنامک ڈیلپمنٹ آفس اور کمیونٹی مرکز بھی موجود ہیں۔
ایک دن شہر میں بہتر حالات کے بارے میں پُر جوش میئر کہتے ہیں ’یہاں ہم یہ
چاہتے ہیں کہ ایک بڑی کمپنی آئے تاکہ ہم لوگوں کو نوکری مل سکے۔‘
’میں ایک ایسا ایسکوباریس دیکھنا چاہتا ہوں جس میں کاروبار ہوں، نوکریاں
ہوں، پارک ہوں، ایک بڑی شہراہ ہو اور وہ سب سہولیات ہوں جو لوگوں کو چاہیے،
میں مستقبل کچھ یوں دیکھتا ہوں۔‘
|