عمرانیات کی تعلیم کے مطابق گداگری کو ایک ایسا سماجی
رویہ قرار دیتے ہیں جس کے تحت محروم طبقہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے
کے لئے دوسروں کی امداد کا محتاج ہوتے ہیں۔ یہ طبقہ امیر افراد سے براہ
راست ضروریات زندگی کی اشیاء یا رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ گداگری غربت کی
وجہ سے جنم لینے والی سرگرمی کا نام ہے۔ لیکن حال ہی میں ایسے لگتا ہے کہ
جیسے ہر شخص کو مانگنے کی لت لگ گئی ہے۔ شاید ہی پاکستان میں کوئی ایسا
شعبہ ہو جو اتنی تیزی سے ترقی کر رہا ہو جتنی تیزی سے سے گداگری کے شعبے
میں ترقی ہو رہی ہے۔
ہر شہر کی ہر سڑک، گلی ،محلے یاں بازار اور سگنلز میں گداگروں کی بیشمار
تعداد دیکھنے میں آتی ہے۔ہر سٹاپ پر گداگروں کی کثیر تعداد موجود ہے۔غربت
کے باعث گداگروں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں زیادہ تعداد
عورتوں اور کم عمر بچوں کی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر خواتین کا تعلق خانہ
بدوشوں سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں گداگری کا پیشہ ایک مافیا کی شکل اختیار
کرچکا ہے۔ ایک پورا نیٹ ورک ان گداگروں کے پیچھے ان کی نگرانی کر رہا ہوتا
ہے۔ پوری پلاننگ کے ساتھ گداگروں کو ٹرین کر کے انہیں بھیک مانگنے پر مجبور
کیا جاتا ہے۔ انہیں مختلف جگہ پر کھڑا کرکے دور کھڑے ہو کر ہو کر انہیں
مانیٹر کیا جاتا ہے۔
ہر بھکاری کی جگہ مخصوص ہوتی ہے اور وہ اس جگہ کسی دوسرے بھکاری کو بھیک
مانگنے کی اجازت نہیں دیتے۔ بھکاریوں کی بہت ذیادہ تعداد ہسپتالوں اور
ریسٹورنٹس کے باہر نظر آتی ہے۔ہسپتالوں کے باہر مریض کے ساتھ آنے والے
لواحقین سے مریض کے صحت یاب ہونے کے صدقیمیں پیسوں کے بدلے دوا لانے کا
مطالبہ کرتے تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ پیسے مل سکیں۔
بھیگ مانگنا ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ جس میں سب سے
زیادہ تعداد چھوٹے بچوں کی بھی شامل ہے۔چھوٹے بچوں کو اغوا کرکے انہیں نشہ
آور ادویات کا عادی بنا کر ان کے دماغ پر کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اور ان کو
ٹریننگ دے کر مختلف جگہوں پر بھیک مانگنے کے لیے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ بچوں
کے معصوم چہروں کو دیکھ کر اور ان کی صدائیں سن کر لوگ انہیں کچھ نہ کچھ
پیسے دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
آج کل بہت سے لوگوں نے گداگری کو پیشے کے طور پر اپنایا ہوا ہے۔پیشہ ور
بھیکاری میدان میں آگئے جو کہ اکثر مختلف جگہ پر نظر آتے ہی۔ں اور بیگ
مانگنے کے لئے ڈھیلے بہانے کرتے ہیں۔ کبھی اﷲ کے واسطے ، کبھی گھر میں فاقے
چل رہے ہیں ، کھانے کو کچھ نہیں ہے وغیرہ۔ اس طرح کے جھوٹے بہانے بناکر
سارا دن شام کے وقت ہزاروں روپے کما لیتے ہیں۔
دور حاضر میں میں گداگری بہت عروج پر جا رہی ہے۔ لوگ اسے ایک آسان طریقہ
سمجھتے ہیں جس میں کہیں جاکر کام یا مزدوری کرنے کی بجائے اور سارا سارا دن
محنت کرنے کی بجائے لوگوں کے سامنے بھیگ مانگتے ہیں اور اسے اپنے لئے آسان
کام سمجھتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ملک بھر میں تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت
اور بے روزگاری کے باعث بھی گداگروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا
ہے۔بعض بھکاری دن بھر میں ایک مزدور جس کی مزدوری چھ سو روپے ہے‘ اس سے کئی
زیادہ یا ڈبل کمالیتا ہے۔
ایک قانون دان کے مطابق اگر ان بھکاریوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی
کی جائے تو یہ اگلے ہی روز اپنی ضمانت کروا لیتے ہیں۔ اور جج حضرات بھی
سماجی و فلاحی سہولت نہ ہونے کے باعث نرم رویہ اختیار کرتے ہیں۔ جس کے
نتیجے میں میں اگلے ہی روز دوبارہ سے یہ بھکاری اپنے متعلقہ اڈوں پر دوبارہ
سے بھیگ مانگنا شروع کردیتے ہیں۔
لاہور میں میٹرو سٹیشن قینچی کے قریب ایک عورت اپنے تین بچوں کے ساتھ روز
صبح زمین پر بیٹھی آنے جانے والے لوگوں سے دنیا دے کر بچوں کے دودھ اور
کھانے کے لئے لوگوں سے بھیگ مانگتی ہے۔ اس سے پوچھا کہ وہ کوئی اور کام
کیوں نہیں کرتی۔ تو اس نے کہا کہ اس کے پاس کمانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں
ہے۔شوہر نشے کا عادی ہے۔ اور میں بچوں کو اکیلا گھر چھوڑ کر کہیں کام کرنے
نہیں جا سکتی۔ اس لئے وہ بس سٹاپ پر آکر بھیگ مانگتی ہے۔ اور اس کا کہنا
تھا کہ یہ کام اسے آسان لگتا ہے کیونکہ اس میں اسے زیادہ محنت نہیں کرنی
پڑتی۔ اور یہ اس کی مجبوری بھی ہے۔ اور اس نے بتا یا کہ وہ روز تقریبا 700
سے 800 کما لیتی ہے۔
شہر کی ہر ایسی جگہ پر جہاں شہریوں کی تعداد موجود ہو وہاں بھیگ مانگنے
والے بھکاری ضرور نظر آتے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ تو مجبور ہوتے ہیں لیکن بعض
لوگوں نے اسے بطور پیشہ اپنایا ہوا ہے۔ اس باعث ایسے لوگ جو سچ میں مدد کے
حقدار ہوتے ہیں اور ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ایسے لوگ جو اسے بطور پیشہ
سمجھتے ہیں اور حق دار نہیں ہیں تو اس با عث انکی بھی مدد نہیں ہو پاتی۔
ہمارے معاشرے میں بھکاریوں کی تین کی طرح کی تعداد موجود ہے۔ سب سے پہلے جس
میں زیادہ تر پیشہ ور بھکاری ہیں۔ دوسرے نمبر پر منشیات کے عادی لوگ جو گھر
سے پیسے نہ ملنے کے باعث نشے کی لت کو پورا کرنے کے لئے بھیگ مانگتے ہیں۔
اور تیسرے نمبر پر ایسے لوگ جو کہ حقیقت میں مدد کیے جانے کے حقدار ہوتے
ہیں۔ لیکن ان کی تعداد بالکل کم ہے۔
ایک وقت تھا جب مخصوص افراد صرف جمعرات کے دن گھروں کے باہر آکر صدا بلند
کر کے مدد مانگتے تھے۔ ان کے متعلق اس بات کا علم ہوا کرتا تھا کہ یہ لوگ
واقعی میں فقیر ہیں۔ اور مانگ کر گزر بسر کرتے ہیں۔ لیکن اب لوگوں نے اسے
بطور پیشہ اپنایا ہوا ہے۔ شہری پیشہ ورانہ بھکاریوں سے عاجز آ چکے ہیں۔
حکومت کو ان کے خلاف ضرور اقدامات کرنے چاہیے۔ اور پیشہ ورانہ افراد کی
بھیگ کی عادت چھڑوا کر انہیں کام دلوانے چاہیے۔کیونکہ شہری اس بات کا فیصلہ
نہیں کر پاتے کہ وہ اگر ان بھیکاریوں کی مدد کرنا چاہیں تو ان میں سے پیشہ
ور بھکاری کون ہیں؟ اور وہ کون سے انسان ہے جو واقعی میں مدد کے حقدار
ہیں۔؟ |