قوتو ں، صلاحیتوں، حوصلوں، اُمنگوں، جفا کشی،بلند پروازی
اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے۔مگر آج اکثر و بیشتر نوجوانوں کا
فضولیات میں وقت ضائع کرنا شیوہ بن چکا ہے۔آج ہماری قوم کے نوجوانوں کے
قلوب و اذہان کو اﷲ و رسول ﷺ کے ذکر سے نہیں باطل خرافات اور شیطانوں کی
محافل سے سکون ملتا ہے۔ دین کے اُصولوں سے بے پرواہ نوجوانوں سے ترقی کی
منزلیں طے کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔راتوں کا جاگنا اور دن میں دیر تک
سونا یہ ایسی بیماریاں ہیں جو ہمارے شہرکے نوجوانوں کو برسوں سے لپٹے ہوئے
ہیں۔ رات دیر گئے تک چوک چوراہوں اور چبوتروں پر بیٹھنا ، ہوٹلوں میں وقت
ضائع کرنا، ماں باپ کی جانب سے قیمتی موبائیل اور گاڑیوں کے تحفوں کا غلط
استعمال کرتے ہوئے مختلف مقامات کے سیر سپاٹے، یہ آج کے نوجوانوں کا ’لائف
اسٹائیل‘ بن چکا ہے ۔اﷲ و رسول ﷺ کو بھول کر ، ڈرامہ و فلم سازی،تھیٹر،
موسیقی کی دھنوں پر مست ہونا، ناچ راگ، فضول اور بیہودہ گفتار قوم مسلم کے
نوجوانوں میں سراعت کر چکی ہے۔بے حیائی اخلاق باختگی ایک ایسی وبا ہے جو
بڑی تیزی کے سا تھ اپنے اثرات دکھا رہی ہے جس کی بدولت آج نوجوانوں میں خوف
تناؤ، ذہنی اور نفسیاتی پریشانیاں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں۔ برائیوں،
پریشانیوں بے حیائی اور فحاشی اور رذائل اخلاق دیمک کی طرح نوجوانوں کو کھا
ئے جارہے ہیں۔قوم کا نوجوان جب بھی دین سے دور اور آخرت کے محاسبہ سے بے
نیاز ہوتا ہے یا نوجوانوں کا یہ تصور ناقص ہوتا ہے اور ان میں اخلاقی ناسور
سرایت کر گئے ہیں تو اگر ان میں اصلاح احوال کا جذبہ پیدا نہیں ہوا تو ان
کا مستقبل ہمیشہ کے لئے تاریک ہوجاتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں
میں شعور اجاگر کرتے ہوئے انہیں دینی معلومات بہم پہنچائی جائیں اور انہیں
اس بات سے واقف کروایا جائے کہ مغربی طرزمعاشرت اور رات کو جاگنے کا ان کا
یہ عمل ان کی صحت کیلئے کس حد تک نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے کیا
منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔اطمینانِ قلب، تطہیر ذہن،حیا پسندی، پاک دامنی
اور حُسن اخلاق سے نوجوانوں کو متصف کرنا وقت کا ایک تجدید ی کام ہوگا۔اور
نوجوانوں کوبھی چاہیے کہ اپنے نفس کو قابو کرکے اپنی جوانی کی قدر پہچانیں
اور اس کی ناقدری و غلط استعمال سے بچیں کیونکہ ضائع ہونے کے بعد دولت واپس
نہیں ملتی۔ |