منی لانڈرنگ کو روکنا پاکستان کے لیے بڑا چیلنج بن گیا
ہے۔پاکستان کے بڑے بڑے کاروباری افراد سالانہ اربوں روپے کی ٹیکس چوری کرتے
ہیں اور فارن کرنسی اکاونٹس کے ذریعے پیسہ بیرون ملک بھیجتے ہیں۔فنانشل
ایکشن ٹاسک فورس کے مطابق پاکستان کے قوانین منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے
موثر نہیں ہیں جس کی وجہ سے بڑے ٹیکس چوراورطاقت ورسرمایہ کارقانون کی گرفت
میں آنے سے بچ جاتے ہیں۔امریکی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 10 سال
میں ڈھائی ارب ڈالر غیرقانونی طور پر بیرون ملک منتقل کیے گئے۔ پاکستان
ایسے ترقی پذیر ملک کو بدعنوانی اور ٹیکس چوری کے باعث چھ کھرب ڈالر کا
نقصان ہوا ہے۔ ہر سال 25 کروڑ ڈالر پاکستان سے بیرون ملک سمگل ہو جاتے
ہیں۔سابق چیئرمین نیب 12 ارب روپے روزانہ کی کرپشن کا انکشاف کر چکے ہیں
اسی طرح ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 5
ہزار ارب روپے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں جبکہ پاکستان کا مجموعی قرضہ 28
ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔مگر افسوس سابقہ حکومتوں نے اس مسئلے پر خاطر
خواہ توجہ نہیں دی اور ملک کی معیشت کو ایسا دھندہ کرنے والے عناصر کے رحم
وکرم پر چھوڑے رکھا،جس کے ناقابل تلافی نقصان سے آج ملک کی معیشت دوچار ہے
،لیکن وزیراعظم عمران خان کا بارہا لوٹی دولت لانے کے عزم کا اظہار لائق
تحسین ہے ، گزشتہ روز بھی وزیر اعظم عمران خان نے ایف ایم یونٹ کو مزید
فعال اور مستحکم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ منی لانڈرنگ میں ملوث
عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں ایسے عناصر کو بے نقاب کرکے انکی اصلیت عوام
کے سامنے لائی جائے۔ پیر کو وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرِ صدارت منی
لانڈرنگ کی موثر روک تھام کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات اوران کے
نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں پر اعلی سطحی اجلاس ہوا جس میں وزیرِ
خزانہ اسد عمر، معاون خصوصی شہزاد اکبر، معاون خصوصی افتخار درانی، گورنر
سٹیٹ بنک طارق باجوہ، سیکرٹری داخلہ ، چئیرمین ایف بی آر، چئیرمین ایس ای
سی پی، ڈی جی ایف آئی اے و دیگر اعلی حکام شریک تھے ۔گورنر سٹیٹ بنک کی
جانب سے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے حوالے سے ملک بھر کے کمرشل بنکوں اور
سٹیٹ بنک کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔ جس میں
بتایا گیا کہ اکا ؤ نٹس کے ضمن میں اب تک چھ مختلف بنکوں کو 247ملین روپے
جرمانہ جبکہ 109افسران کے خلاف تحقیقات جاری ہیں، پاکستان میں موجود افغان
مہاجرین کے بنک اکا ؤ نٹس کھلوانے میں حائل دشواریوں کو بھی دور کیا جا رہا
ہے۔نادرا کی جانب سے جاری کردہ پروف آف ریجسٹریشن( پی او آر) کارڈ کی بنیاد
پر بنک اکا ؤ نٹ کھلوانے کی سہولت فراہم کرنے کے سلسلے میں کام جاری ہے۔
کمرشل بنکوں کی جانب سے مشکوک ٹرانزیکشنز رپورٹس کے اجرا اور فنانشل
مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے ان رپورٹس کے جائزے اور ان پرتحقیقات کے حوالے سے
بھی مفصل بریفنگ دی گئی ،مشکوک ٹرانزیکشنز رپورٹس کے جائزے کے حوالے سے ایف
ایم یو کی صلاحیتیوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے تاکہ مشکوک ٹرانزیکشنز
کے بارے میں متعلقہ اداروں کو بروقت آگاہ کیا جا سکے۔ بریفنگ میں بتایا گیا
کہ 2018میں 8707مشکوک ٹرانزیکشنز رپورٹس کا اجرا کیا گیا ۔وزیرِ اعظم کو
بتایا کہ جولائی2018سے جنوری 2019 میں کل ضبط شدہ اشیا بشمول کرنسی کی
مالیت 20.376 ارب روپے ہے جبکہ گذشتہ سال اسی عرصے میں ضبط شدہ اشیا کی
مالیت 12.304ارب روپے تھی ۔ اس مد میں66%اضافہ ہوا ہے۔ ایف بی آر حکام کی
جانب سے وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ اینٹی منی لانڈرنگ کے قانون کے نفاذ کے
بعدمئی2016سے جنوری2019تک کل 335مشکوک ٹرانزیکشنزکا اجرا کیا گیا جس کے
نتیجے میں پانچ سو سے زائد کیسز کی تحقیقات کی گئیں اور 6.6ارب روپے کی
ریکوری ہوئی۔ نومبر 2018 سے جنوری2019تک 305.06ملین روپے مالیت کی کرنسی
ضبط کیے جانے کے 11 کیسز میں ایف آئی آر کا اندراج کیا گیا اور 13افراد کو
گرفتار کیا گیا ، وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ ترسیلات کے فروغ کے سلسلے میں
حکومتی مراعات کے نتیجے میں اب تک ترسیلات کے ضمن میں 12.5فیصد اضافہ
دیکھنے میں آیا ہے۔ سیکرٹری داخلہ کی جانب سے سرحدوں اور مختلف ائیرپورٹس
پر منی لانڈرنگ کی روک تھام کے سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات پر تفصیلی
بریفنگ دی گئی ۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے ایف ایم یونٹ کو مزید فعال اور
مستحکم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ منی لانڈرنگ ملکی معیشت کے لیے
ناسور ہے جس سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جاتا ہے،منی
لانڈرنگ میں ملوث عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں ایسے عناصر کو بے نقاب
کرکے انکی اصلیت عوام کے سامنے لائی جائے۔یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان میں
منی لانڈرنگ روکنے کی اس وقت اشد ضرورت ہے اوراس کے بغیر ملک ترقی نہیں کر
سکتا۔ لیکن محتاط ڈرائیونگ سفر بخیر ،حکومت کو بڑی غوروفکر کے بات کوئی
مضبوط قدم اُٹھانا ہوگا کیونکہ منی لانڈرنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی سے
ممکن ہے کہ ایسا دھندہ کرنے والے کچھ اداروں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کریں،
جیسا کہ سٹاک مارکیٹ، اور ہم دیکھ بھی چکے ہیں چند ماہ میں سٹاک مارکیٹ کس
حد تک بحران کا شکار رہی ہے ۔ بہر صورت اس معاملے کو آہنی ہاتھوں سے نمٹنا
ہوگا تاکہ ملکی معیشت کو ریلیف مل سکے ۔ پہلے ہی بہت تاخیر ہوچکی اگر اب
بھی پاکستان نے ہنگامی بنیادوں پر منی لانڈرنگ سے نمٹنے کے لیے موثر اور
عملی اقدامات نہ کیے تو اس کی بین الاقوامی مالیاتی ساکھ کے علاوہ ملکی
معیشت بھی سنگین خطرات کی زد میں آ سکتی ہے۔
|