مفلسی احساس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک ڈھل نہیں سکتی آداب کے ڈھانچوں میں
ہمارے گھر کے باہر مرکزی شاہراہ سے متصل فٹ ہاتھ پر روزانہ دوپہر دو آدمی
رکشہ سے اترتے ہیں انکےساتھ کھانےکی دو دیگیں یوتی ہیں خاموشی سے دستر خوان
بچھاتے ہیں پلیٹیں سجاتے ہیں بے شمار غریب و نا دار افراد انکے پہلے سے
منتظر ہوتے ہیں سیر ہوکر کھانا کھاتے ہیں اور دعائیں دیتے رخصت ہوجائے ہیں
۔برسوں سے یہ سلسلہ جاری ہے اور انشااللہ ہمیشہ جاری وساری رہے گا۔
اہل محلہ میں ایک بیزار صاحب ہیں اور انکے جیسے بے شمار ہوں گے جو اس عمل
خیر پر سخت معترض اور نالاں رہتے ہیں ۔حالانکہ موصوف نے کبھی کسی کو چاے
بھی نہیں پلائی ہوگی انکے خیال میں یہ لوگوں کو مفت خوری کی ترغیب دی جارہی
ہے ۔اچھے خاصے ہٹے کٹے لوگ مفت میں روٹیاں توڑتے ہیں۔یہ سلسلہ فی الفور بند
ہوجانا چاہیے ۔
درویش کی رائے میں یہ سوچ طبعیت کی سخت گیری مزاج کی درشتگی ، بخل اور
احساس مروت سے یکسر عاری شخصیت کا مظہر دکھائی دیتی ہے
کیونکہ آقائے دو جہاں
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی مرتبت ہے
’
’ سلام پھیلاؤ اور کھانا کھلاؤ اور جیسے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے کہ بھائی
بھائی بن جاؤ۔
’"’ تم سے بہتر وہ ہے جس نے کھانا کھلایا ""
ہوسکتا ہے کہ یہ بات جزوی طور پر کسی حد تک درست ہو کہ کچھ لوگ مستحق نہ
ہوتے ہوںے بھی لنگر سے مفت کھانا کھالیتے ہوں مگر استحقاق مصارف زکات میں
دیکھا جاتاہے صدقہ و خیرات میں نہیں۔انسان کی عزت نفس سے بڑھ کر اہم اس
کیلئے کچھ نہیں ہوتا اگر کوئی اپنی عزت نفس کو قربان کر ہی رہاہے تو
انسانیت کے ناطے اس کا احترام کرنا واجب ہے ۔
اکٹریت کھانا کھانے والوں میں کم آمدنی والا طبقہ جیسے گھریلو اور دفتر ی
ملازمین،دیہاڑی دار مزدور ،ڈرایور اور غریب غربا ہوتے ہیں ۔جو مہنگائی کی
وجہ سے اکثر کھانے کی بچت کرتے ہیں کہ اس پر ستم اور پر آشوب دور میں جو
رقم پس انداز کرلی جائے وہ ہی غنیمت ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی بھوک دور کردے
اور تعریف، شکریہ اور بدلہ نہ چاہتا ہو تو اس کی بہت فضیلت ہے اور اسکے لئے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت ری ہے۔
ہمارے پڑوسی کا ڈرایور اکتر گھر کے باہر مل جاتا ہے سلام دعا کرتا رہتا
ہے۔ایک دن باتوں ہی باتوں میں کہنے لگا کہ صاحب کے بچوں کو اسکول چھوڑنا
ہوتا ہے تو صبح ایک گھنٹے پہلے گھر سے نکلتا ہوں تاکہ وقت پر ڈیوٹی پر پہنچ
سکوں بیوی بیچاری بیمار رہتی ہے بنا ناشتے کئے گھر سے آتا ہوں وہ تو بیگم
صاحبہ بہت نیک دل ہیں جو چائے پلادیتی ہیں ورنہ یہ سوسائٹی کا علاقہ ہے
یہاں ہوٹل کافی مہنگے ہیں لہذا میں دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھاتا زیادہ
بھوک ستائے تو اک دو سموسے کھاکر گزارا کرلیتا ہوں آپ خود ہی بتائیں کہ
بارہ ہزار تنخواہ ہے آنے جانے کا بس کا کرایہ پچاس روز کا لگ جاتا ہے اگر
روز ہوٹل پر کھانا کھانے لگوں تو بچوں کو کیا کھلاوں گا۔بیوی کا علاج اور
اسکول کی فیس بھی تو دینی ہوتی ہے تاکہ میرے بچے پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بن
جائیں اور میری طرح غربت کی چکی نہ پیسیں آسکی آنکھوں میں بسے خواب اور
پلکوں کے چلمن میں چھپی نمی واضح محسوس کی جاسکتی تھی ۔معاشرے میں ایسے
نجانے کتنے ہونگے۔
بھوکوں کو کھانا کھلانا اللہ کے محبوب بندوں کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔یہ
فعل اللہ تعالی کو اسقدر محبوب ہے کہ قرآن پاک میں جہاں نماز اور روزے کی
پابندی کا حکم ہے وہیں مسکینوں کو کھانا کھلانے کی تلقین اور ترغیب بھی دی
ہے۔اسی اہمیت کے پیش نظر حضرت نظام الدین اولیاء رح روٹی کو اسلام کا چھٹا
رکن قرار دیتے ہیں ۔
پیٹ اگر خالی ہو تو نماز میں بھی خشوع وخضوع ممکن نہیں ۔اسی لئے حکم ہے کہ
اگر بھوکے ہوتو پہلے کھانا کھاو پھر نماز ادا کرو۔اسی بات کو اگر دوسرے
زاویے سے دیکھیں تو ایک نیا پہلو سامنے آئےگا کہ جس مسکین کو آپ کھانا
کھلائیں گےاور جب وہ کھانا کھاکر عبادت کرے گا تو یقینا آپ بھی اسکی فیوض و
برکات سے بہرہ مند ہونگے۔
کھانا کھلانے کا اجر و ثواب اگر ہم جان جائیں تو سارے کام چھوڑ کر لوگوں کو
کھانا ہی کھلاتے رہیں گے۔
اولیاء اللہ کی خانقاہوں میں بلا رنگ نسل اور مذہب ہر کس و ناکس کیلیے لنگر
عام تھے ۔کیا ہندو کیا سکھ عیسائی یا مسلمان سب یہاں آکر کھانا کھاتے بالکل
اسی طرح جیسے آجکل سیلانی ویلفیئر چھپا جعفریہ اور ایسے دوسرے فلاحی ادارے
دستر خوان لگارہے ہیں۔ اولیاء اللہ کے مہمان بنکر یہ غیر مسلم انکا فیض
پاٹے اور انکے قلوب نور ایمانی سے جگمگا اٹھتے۔آج بھی خواجہ غریب نواز ،
داتا صاحب پر چوبیس گھنٹے لنگر چلتا ہے اور ہر کوئی کھانا کھاسکتا ہے اس
میں امیر و غریب کی کوئی قید نہیں ہے۔
کسی بھوکے کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانے سے جو روحانی خوشی اور زہنئ و قلبی
سکون حاصل ہوتا ہے۔وہ ناقابل بیان ہے۔آجکل معاشرہ جذباتی ہیجان میں مبتلا
ہے ۔ہر دوسرا شخص ڈیپریشن کے مرض میں مبتلا ہے۔اگر وہ اپنی استطاعت کے
مطابق روزانہ کسی کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلادے تو اس کو وہ روحانی کیف و
خوشی حاصل ہوسکے کہ جسکے بعد وہ بہت جلد ڈیپریشن سے نجات حاصل کرلے گا۔
کراچی میں جا بجا ایسے ہوٹل اور فلاحی ادارے موجود ہیں جہاں جاکر آپ یہ
خدمت بزعم خود انجام دے سکتے ہیں ۔
ہمیں چاہیے کہ اپنے گھر کا ماحول ایسا بنائیں کہ ہماری نئی نسل بھی اسلاف
کی ان درخشندہ روایات کو پروان چڑھائے ۔تربیت کے انداز ہوتے ہیں۔بچوں میں
ایسا in built سسٹم انسٹالکردیں کہ خدمت خلق انکی فطرت ثانیہ بن جائے ۔بچے
وہی سیکھتے ہیں جو اپنے بڑوں کو کرتا دیکھتے ہیں ۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں روزانہ نماز عصر کے بعد ایک گگی والا
بابا ہمارے گھر دہلیز پر آتا تھا ہم اس کی مزیدار باتیں سنتے اور ہماری امی
جان اس بابا جی کےلیے تازہ روٹی اور گرم سالن تیار کرکے ٹفن میں ڈال کر
دیتیں اور بابا دعائیں دیتا رخصت ہوجاتا ۔
یہ دعائیں یقینا عالم بالا میں امی جان اور دنیا میں ہمارے کام آرہی ہوں
گی۔
کھانا کھانا صرف غریب ہی کیلیے مخصوص نہیں ہے ۔گھر آئے مہمان کی مہمان
نوازی اور کھانا کھلانا ہماری تابندہ روایت رہی ہے۔مہمان کو کھانا کھلانے
بغیر رخصت نہیں کیا جاتا تھا کرنا مگر اب یہ روایات آہستہ آہستہ معدوم ہوتی
جارہی ہیں ۔
اشفاق احمد صاحب کے بابا جی کہتے ہیں کہ اگر رب سے کچھ مذید حاصل کرنا
چاہتے ہو تو "دتے ہوے سے دیے جاو " یعنی جو کچھ اللہ تعالی بے عطا کیا ہے
اسمیں سے ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرو ۔
صدقہ و خیرات کرنے سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔
آج ہی سے اللہ کے بندوں میں بانٹا شروع کردیں پھر دیکھیے اللہ اتنا دے گا
کہ آپ لیتے تھک جائیں گے مگر وہ دیتے نہیں تھکے گا۔
امیر ہونے کی خواہش تو سبھی دل میں رکھتے ہیں ۔مگر اس کے حصول کی کوشش کوئی
کوئی کرتا ہے۔ یہ آسان سا فارمولا ہے پر آزمائش شرط ہے
۔بابا فرید رح فرمائے ہیں
پانچ ہیں کُل رکن دینِ اسلام کے
اور چھٹا ہے رکن اے فریدا طعام
گر نہیں دسترس میں کسی کے چھٹا
تو پھر ان پانچ کا کام سمجھو تمام |