پاکستان دنیا کی معاشی، دفاعی ضرورت بن کرابھر رہا ہے اس
لئے یہاں دہشتگردی کرائی جارہی ہے، پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے اس کی
زمین اور بھارت کا ہاتھ استعمال ہو رہا ہے ،دشمن کو سی پیک منصوبہ، پاکستان
کی ابھرتی ہوئی معیشت اور دنیا کی پانچویں سٹاک ایکسچینج اچھی نہیں لگ رہی
،پاکستان گذشتہ دو دہائیوں سے شدید دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور دہشت گردی
کی وجہ سے ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے جبکہ دہشت گردی کی
نئی لہر نے ایک مرتبہ پھرپورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے صرف 6روز میں ملک
کے مختلف مقامات پر دہشت گردی کی متعدد کاروائیوں میں 100سے زائد معصوم بے
گناہ شہری پولیس افسران شہید اور 800سوسے زائد زخمی ہوئے ہیں ،ان میں
سیکورٹی فورسز کے بہادر اور قابل ترین افسران اور جوان شامل ہیں لاہورمال
روڈ پر ہونے والے دھماکہ میں ایک انتہائی قابل بہادر ،ذہین پولیس آفیسرڈی
آئی جی کیپٹن ریٹائرڈ سید احمد مبین ،ایس ایس پی آپریشنززاہد محمود گوندل,
6اہلکاروں کے علاوہ شہری شہید ہوئے ،ابھی مال روڈ خودکش دھماکہ کی باز گشت
ختم نہیں ہوئی تھی کہ کوئٹہ،ڈی آئی خان،سیہون شریف دربار حضرت سخی لعل
شہباز قلندر پر دھمال کے دوران شدید نوعیت کا دھماکہ ہوا ،جس میں کم و بیش
76سے زائد افراد شہید ہوئے جبکہ 300سے زائد زخمی ہوگئے شہید ہونے والوں میں
9خواتین21بچے بھی شامل ہیں ۔افسوس کہ دہشت گردی کے واقعات روز مرہ کا معمول
بن چکے ہیں ،ہر شخص کو اپنی جان و مال ،عزت و آبرو کی فکر لاحق ہے۔پولیس کی
بے پناہ قربانیاں قابل تحسین ہیں ،لیکن اب محسوس یہ ہوتا ہے کہ شائد ہماری
پولیس اس قسم کے واقعات پر کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے،اور پولیس پر دہشت
گردی کو روکنے کا بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ،جب بھی کسی جگہ دہشت گردی کا
کوئی بڑا واقعہ ہو تا ہے تو زیادہ سے زیادہ پولیس شہروں کے داخلی خارجی
راستوں بلکہ اندور ن شہر وں میں بھی ناکے لگا کر چیکنگ شروع کر دیتی ہے ۔
ناکوں پر دہشت گرد تو پکڑے نہیں جاتے مگر کاروبار،ملازمت پر جانے والے
افراد اور سکولوں میںپڑھنے والے طلبہ و طالبات کا وقت برباد ہوتا ہے ،عوام
اور پولیس کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے،ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی
سے نمٹنے کےلئے پولیس کو خصوصی ٹریننگ دی جائے ،دہشت گردی کی اصل وجہ
امریکی پالیسیاں ہیں جو کہ جنوبی ایشیا میں امریکہ کی مداخلت کی وجہ سے
شروع ہوئیں جب روس افغانستان سے گیا تو ہونا یہ چاہیئے تھا کہ افغانستان،
پاکستان اور مجاہدین سب مل بیٹھ کر مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرتے تویہ
مسئلہ نہ بگڑتا اور افغانستان میں خون ریزی نہ ہوتی بعد ازاں دہشت گردی کی
لہر نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ،کل تک مجاہدین کہلانے
والوں کوامریکہ نے دہشت گردقرار دے دیا اور مدرسوں میں مذہبی تعلیم حاصل
کرنے والے طلبہ جنہیں فارسی میں طالبان کہا جاتا تھا امریکہ نے مذہبی سوچ
رکھنے والے مسلمانوں کو بطور دہشت گرد دنیا کے سامنے پیش کر دیا ۔
پاکستان میں مختلف جماعتوں نے روس کےخلاف جہاد میں حصہ لینے والے گروپوں کی
حمایت کی لیکن بعد میں امریکہ نے انہیں آپس میں دست و گریبان کراکے کمزور
کرنے کی کوشش کی اور پاکستان کو مشکلات سے دوچار کر دیا گیا ۔دہشت گردی کی
یہ جنگ دراصل امریکی مفادات کی جنگ میں تبدیل ہونا شروع ہو گئی اور اس وقت
کے موجودحکمرانوں نے پاکستان کی فضائی حدود ،ایئر پورٹ،زمینی رسد،لاجسٹک
سپورٹ سمیت سپلائی کی سہولیات دیکر پاکستان کی سیکورٹی کو داﺅ پر لگا دیا
اس فیصلہ کی وجہ سے افغانستان کے قبائل پاکستان کو اپنا دشمن اور امریکہ کا
دوست سمجھنے لگے۔جب دہشت گردی کےخلاف آپریشن شروع ہوا تو افغانستان سے
پاکستان میں پناہ گزین افغانی شہریوں نے اسے اپنے خلاف سمجھا اور اس طرح
بات آگے بڑھتی چلی گئی افسوس کہ امریکہ ،بھارت اور افغانستان کی حکومتوں نے
پاکستان کو اکیلئے دہشت گردی کے عفریت کے سامنے چھوڑ دیا اور اس طرح یہ جنگ
بڑھتے بڑھتے براہ راست پاکستان ،افغانستان کی جنگ کی شکل اختیار کر گئی
افسوس کے دہشت گردی کیخلاف اس جنگ میں گذشتہ دو دہائیوں میں پاکستان کو
50ارب ڈالرز کا بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج اور سیکورٹی فورسز کے بہادر اور عظیم جانثار افسران
اور جوان وطن کی حرمت پر قربان ہو گئے اور یہ تعداد کم و بیش 25ہزار تک ہو
چکی ہے جبکہ تقریباََ 2لاکھ سویلین آبادی دہشت گردی کا شکار ہو چکی ہے ۔امریکہ
اور بھارت پاکستان کو کمزور کرنے کےلئے در پردہ اس جنگ کو ہوا دے رہے ہیں
جبکہ افغانستان اس میں براہ راست فریق بن چکا ہے ،افسوس کہ ہمارے قابل ترین
افسران اور جوا ن روز بروز اس جنگ میں شہید ہو رہے ہیں ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس معاملہ کو سنجیدگی سے لے اور افغانستان،
بھارت اورکشمیر کے بارڈر کو کم از کم کچھ عرصہ کےلئے بند کر دیا
جائے،امریکہ بھارت ،افغانستان دہشت گردی کیخلاف اس جنگ میں پاکستان کے
سیکورٹی اداروں کے ساتھ مل کر لائحہ عمل طے کریں پاکستان دہشت گردی کیخلاف
اس جنگ سے نکلنے یا فیصلہ کن فتح کےلئے سول اور ملٹری قیادت ایک پیج پر ہو
کر فیصلہ کریں ۔
پاکستان ہماری مادر وطن اور پاک دھرتی ہے جس کی سلامتی ہر حالت میں مقدم
ہونا چاہیئے،ہماری مسلح افواج ہمارے ملک کا اثاثہ اور ہماری سیکورٹی فورس
اور پولیس کا ہر جوان ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں ،پوری قوم ،علماءکرام ،مشائخ
عظام،وکلاءصحافی اور اہل علم سول سوسائٹی آگے بڑھیں ،دہشت گردی کے خلاف فوج
اور سول انتظامیہ کے شانہ بشانہ اپنا فرض اور اپنے حصہ کا کردار نیک نیتی
سے ادا کریں ۔
بقول شاعر : شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے
جائیں
یہاں یہ امر بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ہماری وفاقی حکومت وزارت
داخلہ گذشتہ 20سال میں ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ اور دہشت گردوں کے نیٹ
ورک کو توڑنے کےلئے کوئی مربوط پالیسی کیوں نہیں بنا سکے کیا وزیر داخلہ کا
ہر دہشت گردی کے واقعہ کے بعد ایک پریس کا نفرنس کر کے یہ کہہ دینا کہ دہشت
گردی میں کالعدم تنظیمیں ملوث ہیں یا یہ کہ ہم نے ان واقعات کی پیش گی
اطلاع متعلقہ ادارون کو دے دی تھی نے اسی طرح اسی طرح پنجاب حکومت کے وزیر
قانون رانا ثناءاللہ کا یہ کہنا کہ دہشت گردی میں فرقہ وارانہ تنظیمیں اور
بیرونی ہاتھ ملوث ہیں کافی ہیں یا ان کی جانب سے یہ غلط بیانی کیا جانا کہ
پنجاب میں کوئی دہشت گرد موجود نہیں سب اچھا ہے ،یہ سراسر جھوٹ اور قوم کو
دھوکے میں رکھنے والی بات ہے ۔ایک قومی ایشو کو اپنی کو تاہ نظری کے ساتھ
دیکھنا اور سیاسی ایشو بنانا بھی دانش مندی نہیں اس سوچ کو رکھنے والے یہ
بھی ذہن میں رکھیں ضرب عضب اپریشن بلا تخصیص چاروں صوبوں میں بلا امتیاز
کیا جا رہا ہے اور پاکستان کی بہادر مسلح افواج اس کی نگران ہیں ،افسوس کہ
ہمارا دشمن نا صرف کمینہ اور بزدل ہے بلکہ پاکستان دشمنی میں ہمارا ازلی
دشمن بھارت اور افغانستان بھی دہشت گردوں کے سرپرست بنے ہوئے ہیں ۔
دہشت گردی صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں جہاں جہاں بھی امریکہ نے امن کے
نام پر مداخلت کی ان ملکوں میں قتل و غارت انسانیت سوز مظالم خانہ جنگی ،بم
دھماکے اور بر بریت نے اپنے ڈیرے جما لئے ہیں ،عراق ،شام ،لیبیا اور
افغانستان امریکی انسانیت سوز پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ،داعش جو کہ
شام اور عراق میں قتل و خون کا گھناﺅنا کھیل رہی ہے اور پاکستان کو داعش کے
نام سے ڈرایا جاتا ہے یہ انسانیت کے دشمن دنیا میں امن کی تباہی کے ذمہ دار
نہ شیعہ ہیں نہ سنی اور نہ ہی مسلمان نہ ہی انسان بلکہ یہ ایک شیطان صفت
ماضی کے فرعون ،نمرود ،یزید ،چنگیز خان اور ہلاکوں خان کے ان بے ضمیر
غلاموں کی طرح ہیں جن کی سفاکانہ اور ظالمانہ حرکتوں کی وجہ سے تاریخ
انسانی شرمندہ ہے افسوس کہ داعش کی تشکیل کے سرے بھی امریکہ سے ملتے ہیں
اور عالمی میڈیا میں داعش کی تشکیل میں ہیلری کلنٹن کانام نمایاں طور پر
لیا گیا ہے ۔
قرآن پاک میں صاف کہا گہا کہ یہودو نصارا کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں
ہوسکتے لہذا ہمیں قومی سطح پر تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی
بھی از سر نو تشکیل دیا چاہیئے امریکہ پر انحصار خود کو دھوکہ دینے کے
مترادف ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان جو کہ اسلام کا قلعہ ہے یہاں کہ
سیاسی مذہبی اور فوجی قیادت متحد ہو کر عالم اسلام کی رہنمائے کےلئے اپنا
کردار ادا کرے اور دنیا بھر کے مسلمانوں خصوصاََ عراق، شام ،فلسطین، کشمیر
افغانستان برما اور سوڈان میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کی آواز سنیں اور
انہیں انصاف دلائیں پاکستان اسلامی سربراہی کونفرنس طلب کر کے مسلمان ممالک
کہ مسائل اور امریکی چنگل سے نجات حاصل کرنے کےلئے اسلامی اقوام متحدہ کا
اعلان کرے تو انشا ءاللہ ہم سب مل کر دہشت گردی کے عفریت کو نیست و نابود
کر دینگے
آج کا پیغام بقول شاعر مشرق علامہ سر محمد اقبال یہی ہے ............ایک
ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کےلئے..........نیل کے ساحل سے لیکر تا بخاک کاشغر
|