جب پوری قوم دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد رات کو
پرسکون نیند سو رہی ہوتی ہے تو بھارت جیسے ازلی دشمن کی گھناونی وارداتوں
اور ملک دشمن عناصر کی سازشوں کو خاک میں ملانے کے لیے کوئی جاگ رہاہوتا ہے
۔ اپنے وطن عزیز کے پیاروں کے لیے کوئی اپنے سکھ چین کو قربان کر رہا ہوتا
ہے ۔اپنی ماں دھرتی پر بسنے والے باسیوں کے آرام کے لیے کوئی اپنے خوابوں
کی قربانی دیتے ہوئے خوشی و مسرت محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ اپنی نیند پر اپنی
سرزمین کی حفاظت کو ترجیح دے رہا ہوتا ہے ۔ کوئی تو ہے جو جب رات کی تاریکی
چھا جاتی ہے تو اس اندھیرے کا سینہ پھاڑ کر اپنی نظریں دشمن کی حرکات و
سکنات پر جمائے رکھتا ہے ۔دن ہو یا رات صبح ہو شام ہر لمحہ ہر وقت اپنی
عقابی نگاؤں سے پاک دھرتی کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کی نیتیں
بھانپتا رہتا ہے ۔ وہ کون ہے ؟ وہ ہے ہمارا فوجی جوان ۔ جرات و بہادری کی
داستان۔ ہمارا قیمتی سرمایہ ۔ ہمارا گوہر ِ نایاب ہمارا شانداز ماضی ،
درخشاں آج اور روشن کل ۔ ہماری امید ۔ ہمارا فخر۔ انہی قیمتی و انمول ہیروں
کی شجاعت و بہادری کی لازوال داستانوں کو نسل نو سے متعارف کروانے کے لے
کہنہ مشق مصنف ایم تبسم طاہر درانی نے’’ سپاہ وطن‘‘ کے نام سے ایک خوبصورت
گلدستہ ترتیب دیا ہے جس کی مہک سے سرزمین پاکستان صدیوں تک معطر رہے
گی۔خاکسار نے جیسے جیسے اس کتاب کی ورق گردانی کی حب الوطنی کے جذبے سے
بہنے والے خون نے آنکھیں پر نم مگر سر فخر سے بلند کر دیا۔یہ سچ ہے کہ قوت
ایمانی کے سامنے فوجی سازوسامان کوئی معانی نہیں رکھتا۔ہمارے فوجی جوانوں
نے شجاعت و بہاری کی وہ داستیں رقم کی ہیں کہ جنہیں دیکھ جشم فلک بھی حیران
رہ گئی۔راقم الحروف کتب پر تبصرہ کے فن سے نا آشنائی اور ذخیرہ الفاظ کی
کمی کے باعث قرطاس پر کچھ بکھیرنے سے قاصر ہے مگر یہ کہنے پر مجبور ہے کہ
کتاب کا ایک ایک لفظ حب الوطنی کے جذبات اجاگر کرنے کا ضامن ہے ۔
اسی لیے تو پاکستان کے معروف کالم نویس اور علم وادب کے روشن ستارے جناب
محترم ڈاکٹر محمد اجمل نیای صاحب کتاب ہذا پر لکھتے ہیں کہ شہید زندہ ہوتا
ہے مگر ہم اس زندگی کے بارے میں کوئی ادراک (شعور ) نہیں رکھتے۔ اسے ماننا
ایسے ہی ہے جیسے ہم اﷲ کو مانتے ہیں ، میرے خیال میں اَن دیکھے کو ماننا
دیکھے ہوئے کے ماننے سے کروڑ درجے افضل ہے ۔ ہمارا ایمان ہے کہ موت کے بعد
ایک دوسری زندگی بھی ہمارا انتظار کر رہی ہے مگر شہید کی جو زندگی ہے وہ
اُس سے بھی بالا تر ہے۔ایک بہت شاندار بات ہمارے چیف سپاہ سالارِ اعلیٰ
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی میں نے ایسی بات پہلی بار سنی چیف صاحب نے کہا’’
کہ پیغمبر کے بعد شہید کا درجہ سب سے بڑا ہے ‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے
سپہ سالار کا یقین ایمان کی روشنی سے چمک رہا ہے ۔محمد طاہر تبسم درانی نے
پاکستان کے شہداء کے بارے میں یہ کتاب لکھ کر ایک بہت بڑا کام کیا ہے جس کی
مثال شائد پہلے نہیں ملتی، کسی ایک شہید یا کچھ شہداء کے بارے میں تو
کتابیں دیکھنے کو ملی ہیں مگر یہ کتاب جو پاکستان کے تمام شہداء کے بارے
میں ہے ، بہت بیش بہا اور حب الوطنی کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ہم تو سب شہداء
کے نام بھی نہیں جانتے ، دل لگائے بغیر یہ بڑا کام ہو بھی نہیں سکتا۔اِن
لوگوں کو تلاش کرنا اور پھر امر کر دینا ایک بہت بڑی سعادت ہے جو درانی
صاحب کے حصے میں آئی ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ شہید جو زندہ ہوتا ہے اُسے درانی
صاحب نے زندہ تر کر دیا ہے ۔کتاب کا نام بھی بہت بامعنی اور خوبصورت ہے
’’سپہ وطن‘‘ پہلے درانی صاحب نے سپہ سالارِ اسلام کو بیان کیا ہے پھر وطن
کے سالاروں کی باری آئی ہے جسے انہوں نے سپہ وطن کہاہے اس طرح یہ کتاب بہت
جامع اور خصوصی ہو گئی ہے۔انہوں نے شہداء کے بارے بڑے جذبے سے کلام کیا ہے
اور قربان ہونے والے زندہ لوگوں سے ہم کلام ہوئے ہیں ۔ میرے لیے یہ فخر کی
بات ہے جس پر میں انہیں مبارکباد پیش کر رہا ہوں۔طاہر درانی نے چالیس برس
میں کئی زندگیاں گذاریں اب جو زندگی اُس کے سامنے ہے وہ زندگی سے بھی بڑی
چیزہے ۔ اب وہ زندگی کو فتح کرنے کے کام پر نکلا ہوا ہے اور اُس نے قلم کو
جھنڈا بنا لیا ہے ۔جبکہ
لیفٹیننٹ کرنل (ر)محمد اشرف ربانی ۲۹۔پنجاب رجمنٹ (ستارہ امتیاز) لکھتے ہیں
کہ فوج اور قوم کا ساتھ چولی دامن کا ساتھ تصور کیا جاتا ہے ۔ اور یہی وہ
حقیقت ہے جس سے انکار کر دینا نہ صرف محال ہے بلکہ خود کو فریب دینے کے
مترادف ہے۔جنگ ہو یا امن، ریاست کی یہ دو بڑی قوتیں یعنی عوام اور فوج جب
تک ہم آہنگ و ہم خیال نہ ہوں، اندرونی یا بیرونی خطرات پر قابو یا دشمن کو
شکست دینے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتیں ۔فوج ریاست کا ایک ایسا ادارہ ہے جو
زمانۂ امن میں بھی حالت جنگ میں رہتا ہے یعنی چوبیس گھنٹے اس کی نگاہ دشمن
پر مرکوز رہتی ہے چاہے وہ اندرونی دشمن ہو یا بیرونی علاوہ ازیں ملک و ملت
پر آنے والا کھٹن سے کٹھن مر حلہ یا دقت چاہے وہ آفات ارضی ہوں یا سماوی ،
پاک فوج کے افسران و جوان اپنی جانوں پر کھیل کر موت سے پنجہ آزمائی کرتے
دکھائی دیتے ہیں اس لیئے کہ ایسا کرنا اِ ن کے فرائض میں شامل ہے اور پاک
افواج اپنے فرائض میں کوتاہی گناہِ کبیرہ خیال کرتی ہے ۔
بطور ایک آرمی آفیسر ہونے کے مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں اس فوج کا ایک
حصہ رہا ہوں جو دنیا کی بہترین اور باصلاحیت فوج ہے جو اپنے وطن کا دفاع
کرنا خوب جانتی ہے اور مجھے اس بات پر بھی فخر ہے کہ میں ایک پاکستانی شہری
ہوں، اس پاکستان کا شہری جس نے مجھے عزت بخشی وگرنہ شائد میں کسی غیر قوم
کے فوجی افسر کا اردلی ہوتا اور بطور اردلی ہی ریٹائرہو جاتا۔ میں اپنی قوم
کا بھی بے حد مشکور و ممنون ہوں کہ انہوں نے پاک افواج کی قومی و ملی خدمات
کو دل و جان سے تسلیم کیا جس کا ثبوت محترم محمد طاہر تبسم درانی صاحب کی
یہ کتاب ــ’’سپہ وطن‘‘ ہے جس کے مطالعہ میں آپ اس وقت مصروف ہیں ۔ محترم
درانی صاحب نے اپنے جن خیالات و احساسات کا اظہار کیا، اس نے نہ صرف پاک
افواج کے ہر افسر اور جوان کے حوصلوں کو جِلا بخشی بلکہ ان کی قدرومنزلت
میں مزید اضافہ کیا۔دعا ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ تبسم درانی صاحب کے قلم سے
نکلی ہوئی وہ سیاہی جو الفاظ کا روپ دھار گئی ، اپنی بارگاہِ ربوبیت میں
قبول و منظور فرمائے اور روز ِ محشر انہیں ان غازیوں ، مجاہدوں اور شہیدوں
کے ساتھ اُٹھائے جس کی تمنا ہر پکا اور سچا مسلمان کرتا ہے اور جن کی بخشش
کا وعدہ خالقِ کائنات نے کر رکھا ہے ۔۔آمین ٹرینر ، سپیکر، مصنف ، دانشور
جناب محترم قاسم علی شاہ صاحب کیا ہی خوبصورت الفاظ میں ’’سپاہ وطن ‘‘ پر
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ محترم قاسم علی شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ محمد
طاہر تبسم درانی ہمارے شہداء کی سچی داستانیں اپنے مشاہدات کے ساتھ بڑی
محبت اور عزم سے لکھتے ہیں ۔ نوجوانوں کی بے مثل بہادری اور قوت ارادی کی
مثالوں کو پڑھنے کے بعدایمان کی نئی روح بیدار ہو جاتی ہے ۔ ہمارے اصل ہیرو
یہ نوجوان شہداء ہی ہیں ۔ میں کیپٹن اسفند یار بخاری کو اپنا ہیرو مانتا
ہوں۔جب میں اسفند یار شہید کے والد محترم سے ملا اور کیپٹن اسنفد یار کے
عزم و جرأت کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں جانا تو وہ
میری روحانی تسکین کا باعث بنے ۔ میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ مجھے شہیدوں سے
محبت کیوں محسوس ہوتی ہے۔ تو پھر احساس ہو ا کہ اﷲ تعالیٰ شہیدوں سے محبت
کرتا ہے اُس کی محبت لوگوں کے دلوں میں اُتار دیتا ہے۔
واصف علی واصفؓ صاحب فرماتے ہیں ’’ باقی سے محبت بقاء ہے اور فانی سے محبت
فنا ہے ‘‘ جنا ب محمد طاہر تبسم درانی بڑے عزم سے دفاع وطن کا مقدس فریضہ
ادا کرنے والوں کے عظیم جذبہ جہاد اور شجاعت کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ
کیسے انہوں نے دہشتگردی کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ بڑی
استقامت سے پیش کیا۔ حب الوطنی سے بھر پو ر اِن کے لکھے ہوئے حیرت انگیز
واقعات جذبہ ، ایک نئی اُمنگ اور نئے عزم کے ساتھ سوچ بچار کے مختلف پہلو
اُجا گر کرتے ہیں۔
میری دعا ہے کہاﷲ تعالیٰ جنا ب محمد طاہر تبسم درانی کو لوگوں میں شہداء کی
یادیں ہمیشہ زندہ رکھنے کی ہمت ، طاقت اور مدد فرمائے (آمین ثم آمین )
محترمہ ڈاکٹر صغرا صدف صاحبہ ڈائریکٹر جنرل پلاک ۔لاہور کالم نگار، شاعرہ
کے یہ الفاظ بھی ایک سند کا درجہ رکھتے ہیں محمد طاہر تبسم درانی ایک جانے
پہچانے کالم نگار ہیں ، طاہر درانی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ وطن کی
آن سے جُڑے ہوئے ہیں اُن کے اندر بھی ایک سپاہی کا جذبہ پنہاں ہے جو انہیں
ہر وقت مقدس دھرتی کی سلامتی اور خیر کے لیے متحرک رکھتا ہے ۔اُن کی
تحریروں میں پاک فوج سے محبت کا عنصر نمایاں ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہے
کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس مُلک کو چاروں طرف سے حملہ آور دشمنوں سے بچانے
کے لیے پاک فوج ہر وقت چوکس ہے۔اس لیے ہر شہری کو حق کے ساتھ کھڑے ہونے اور
ان کا حوصلہ بڑھانے کی اشد ضرورت ہے ۔’’سپہ وطن ‘‘ اُنکی کتاب کا ایک ایک
حرف وطن کی محبت میں بھیگا ہوا ہے ، کو پڑھ کر دل میں تشکر کا احساس
جاگا،میری دعا بھی ہے کہ ہمارے وطن میں طاہر درانی جیسے لکھاری اور خیرخواہ
جب تک زندہ ہیں اِس ملک کو کوئی خطرہ نہیں۔یہ کتاب اپنے اندر کئی حیرتیں
سمیٹے ہوئے ہے اس کا انتساب آرمی چیف جناب قمر جاوید باجواہ کے نام ہے ، اس
کا آغاز اسلام کے اولین شہداء سے کیا گیا ہے ۔ جہاد پر ایک پورا باب موجود
ہے اس کے بعد پاک فوج کے شہداء جنہوں نے بڑے کارنامے سرانجام دیے لیکن عام
لوگوں تک نہ پہنچ سکے اُن کا ذکر بھی کیا گیا ہے ۔میں سمجھتی ہوں یہ کتاب
خیراج تحسین بھی ہے ایک معاہد ہ بھی، اک اعلان بھی ہے کہ ہم پوری قوم اپنی
پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم سب اس دھرتی کے سپاہی بن کر 1965ء کی جنگ
والا جذبہ بیدار کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ۔ میں دُعا گو ہوں کہ طاہر تبسم
درانی کے لکھے حروف کو لوگوں کے دلوں تک رسائی حاصل ہو اور وہ بھی اپنے وطن
کی مٹی کا قرض اتارنے کی سعی کریں۔یہ وطن ہے تو ہم ہیں ،یہی ہمارا اثاثہ ہے
ہماری آن ہے ہماری شان ہے ۔ پاک فوج زندہ باد۔حرف آخر کے طور پر بس یہی عرض
کروں گا کہ یہ ایک راویتی کتاب نہیں بلکہ ہمارے لیے زاد راہ کا درجہ رکھتی
ہے جسے ہر لابرئیری کی زینت بننا لابرئیری کے قابل فخر ہے - |