ماریہ کو بہت غصہ آ رہا تھاکہ آج پھر سے اُس کے والدین نے
اس سے کب شادی کرنی ہے کا سوال پوچھ لیا تھا۔اُ س نے ایک مرتبہ پھر سے اپنی
شادی کو ٹال دیا تھا کہ وہ ابھی کچھ اور کرنا چاہ رہی تھی۔ابھی ابھی تو اس
کی پڑھائی سے جان چھوٹی تھی۔وہ یوں بھی اپنی کئی دوستوں کی شادیوں کو دیکھ
چکی تھی کہ وہ آج پریشان حال تھیں ۔تو وہ کچھ شادی سے ڈر سی گئی تھی۔وہ
سمجھتی تھی کہ مرد ذات ہمیشہ سے ہی عورت کو کچا کھا جاتے ہیں۔عورت کے پاس
کچھ بھی تو اپنا نہیں رہتا ہے۔
ماریہ نے بچپن میں اپنے کئی خواتین رشتے داروں کو دیکھا تھا جو کہ شادی کے
بعد ظالم شوہروں کی بھینٹ چڑھی ہو ئی تھیں،اُن کو میکے کے لئے بھی پوچھ کر
آنا پڑتا تھا۔اس کے بابا جان تو اُس سے بہت پیار کرتے تھے تو اس لاڈ پیار
کی وجہ سے ماریہ کو شادی سے نفرت ہونے لگی تھی وہ سوچنے لگی تھی کہ وہ
اکیلی رہ سکتی ہے اور مرد کے بنا جی سکتی ہے۔
ماں باپ کے گذر جانے کے کچھ سال تو اچھے گذر گئے ،بھائیوں کی شادی کے بعد
تو وہ اور تنہائی پسند ہو گئی تھی۔نوکری تو من پسند کی تھی مگر اپنی آزاد ی
سے بہت کچھ کرتی تھی کہ اُس نے اپنی دوست بھی وہی رکھی تھیں جو کہ غیر شادی
شدہ تھیں۔اُن کی محفل کی وجہ سے اُس کو یہ احساس تک نہیں ہو رہا تھا کہ
کہیں پر کچھ کمی سی ہے۔
مگر جب آخری وقت میں اس کو سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا تو اُس کو اپنی اس
آزادی سے نفرت ہو گئی تھی کہ کوئی بھی تو اس کی تیمار داری کرنے والا نہیں
تھا ، نہ کوئی ایسا پاس تھا جو کہ اُس کے کفن دفن کا انتظام کرے کہ سب لوگ
اُس کی اکیلے رہنے کی ضد پر الگ ہو گئے تھے۔
وہ جو سب کو خوشیاں دیتی تھیں وہ ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے دفنا دی گئی
تھی جہاں اُسے آزادی سے رہنے پر کوئی اعتراض نہیں سننا پڑنا تھا۔اُ س کو اس
آزادی کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی تھی مگر یہ کوئی بھی تو نہیں جانتا تھا۔ |