کس سے منصفی چاہیں۔۔۔؟

میری پیاری امی جان میں اپنی زندگی کاآخری خط لکھ رہاہوں یہ لوگ آپ کوآخری دفعہ فون کریں گے یہ لوگ میری سی ڈی بھی بھیج رہے ہیں اگرآپ نے پیسوں کابندوبست نہ کیا توشایدزندگی میں میری کسی سے ملاقات نہ ہوسکے میرے سب گھروالوں کوزندگی کاآخری سلام ۔

آج سے تقریبا گیارہ سال قبل 5نومبر2007ء کومحلہ قادریہ آبادجناح ٹاؤن جہلم سے اغواء ہونے والے میٹرک کے طالب شاہ زیب ظفرنے یہ آخری خط لکھا تھاہ آخری خط ڈاکخانہ خاص صبورشریف نزدکوٹلہ سے پوسٹ ہوا۔ اس خط اوراس کے بعد آنے والی سی ڈی کوبھی چھ سال گزرچکے ہیں مگرپولیس نے اس مقدمے میں روایتی حیلہ بازی کے ساتھ بدترین غفلت کامظاہرہ کیا اورایک مظلوم خاندان کوانصاف دینے کی بجائے سیاسی آشیربادپرانہیں نشان عبرت بنادیا۔مظلوم خاندان مال ودولت اوراختیارہونے کے باوجود اپنے بچے کی بازیابی کے لیے کچھ نہیں کرسکا یہ سب کچھ شایدان کی کمزوری بن گیا کیوں کہ دوسری طرف حکمران تھے جوکہ ان سے زیادہ طاقت ورثابت ہوئے اورانہوں نے ان کے ساتھ بدترین کھیل کھیلا ۔یہ داستان ہماری پولیس ،عدلیہ،سیاست اوراداروں کے ماتھے پرایک سیاہ داغ ہے ۔جودھونے کی بھی کوشش نہیں کی جارہی ہے ۔

تین بھائیوں میں سے ظفراقبال اورجاویداقبال تقریبا نصف صدی سے دیارغیراٹلی میں بسلسلہ روزگارمقیم ہیں جبکہ تیسرے بھائی مظہراقبال محکمہ پولیس میں اے ایس آئی تھا بدقسمت نوجوان شاہ زیب ظفراقبال کافرزندتھا ،اس مغوی بچے اوراس کے دوبھائیوں کا اٹلی کاویزہ بھی آچکاتھا وہ اٹلی اپنے والدکے پاس پہنچنے سے قبل نامعلوم ہاتھوں یرغمال ہوگیا۔مغوی کے چاچامظہراقبال اس وقت تھانہ سمڑیال سیالکوٹ میں تعینات تھے جب انہیں خبردی گئی کہ ان کے بھتیجااغواء ہوگیاہے ۔وہ فوری طورپراپنے گھرپہنچے اورازخود اس معاملے کی چھان بین کرنے لگے مگرجہاں بااثرمافیاہووہاں ایک پولیس افسرکیاکرسکتاہے ۔ اغواء کاروں نے حسب معمول اس واقعہ کے بیس سے پچیس دن بعد گھرکے نمبرپرفون کیااورکہاکہ اگرمقدمہ درج کروایاتوبچے کوماردیں گے فوری طورپرتیس لاکھ روپے اسلام آبادپہنچادیں مظہراقبال نے پیسوں کابندوبست کیا اوراسلام آبادمطلوبہ مقام پرپہنچ گئے مگراغواء کارنہ آئے پھرفون آیاکہ آپ اٹلی میں فلاں جگہ پیسے پہنچادیں سپین سے ہمارابندہ آئے گا اورپیسے وصول کرلے گا متاثرہ خاندان نے وہاں بھی یہ بندوبست کیا مگران کابندہ نہ آیا ۔یہ کہانی یوں ہی چلتی رہی اورچارہ ماہ گزرگئے چارہ ماہ بعد 22مارچ 2008ء کو تھانہ صدرجہلم میں اغواء کاروں کے خلا ف باقاعدہ ایف آئی آردرج کروائی گئی اورتمام ترثبوت ،خطوط ،فون کالزکاریکارڈ پولیس کے حوالے کردیاگیا ۔

پولیس سے مایوس ہوکرمتاثرین نے ڈسٹرکٹ اینڈسیشن کورٹ جہلم میں مقدمہ دائرکیا بعدازاں ہائی کورٹ میں مقدمہ دائرکیاہائی کورٹ نے مقدمہ ہیومن رائٹس سیل کوبھیج دیا متاثرہ خاندان پولیس کی سست روی کی وجہ سے سخت پریشان تھا اس لیے سپریم کورٹ پہنچ گیا جہاں عدلیہ بحالی کی تحریک سے بحال ہونے والے افتخارچوہدری بیٹھے تھے متاثرہ خاندان کوامیدتھی کہ چیف جسٹس ان کے بچے کوبازیاب کروائیں گے مظلوم خاندان اپنے جاننے والے سپریم کورٹ کے انتہائی سینئروکیل کے پاس بڑی چاہ سے اپنامقدمہ لے کرگیا تووکیل موصوف نے 55لاکھ روپے کی ڈیمانڈکی۔ ادھراٹلی کے سفارتخانے بھی بچے کی بازیابی کے لیے سپریم کورٹ کوخط لکھا مگرسپریم کورٹ نے بھی مقدمہ ہیومن رائٹس سیل کوبھیج دیا دوسری طرف پولیس نے متاثرہ خاندان کی طرف سے ملزمان کے خلاف دیے گئے تمام ترثبوت ضائع کردیئے ۔

یہاں سے اس خاندان کے ساتھ ایک اورکھیل شروع ہوتاہے مغوی کے چاچامظہراقبال نے مقدمے کی پیروی کے لیے اپناتبادلہ تھانہ کھاریاں کروایا یہاں تعیناتی کے بعد پولیس افسرمظہراقبال کوبڑے بڑے ٹاسک دیے گئے جواس نے کمال جانفشانی سے پورے کیے ۔ایس ڈی پی اوکھاریاں اورڈی پی اوگجرات نے انہیں ایساہی ایک مشکل ٹاسک دیا ،مظہراقبال نے افسران بالاکی ہدایت پر3جون 2008ء کوپنچاب میں اغواء برائے تاوان کے ٹاپ ٹین ملزمان میں سے اشتہاری عارف باباکانیٹ ور ک پکڑااس سے قبل انہوں نے ایک اوراشتہاری مدثراقبال کوگرفتارکیا۔بس کیاتھا اس گرفتاری سے مقامی سیاسی رہنماء اورافسران ناراض ہوگئے یہاں سے مظہراقبال نشانہ عبرت بنادیاگیا اورایک سال میں 22سے زائدتبادلے کیے گئے ایسابھی ہواکہ مظہراقبال ایک تھانے میں حاضرہواتواسے اگلی جگہ پرتبادلے کاحکم نامہ ہاتھ میں تھمادیاگیا اشتہاری مدثراقبال کوگرفتارکرنے پرمسلم لیگ ن کے اس وقت کے ممبراسمبلی ملک حنیف اعوان کی ایماء پرالٹامظہراقبال اوراس کے ساتھی پولیس اہلکاروں پرمقدمہ قائم کردیاگیا اوردواہلکاروں کو جیل بھی بھیج دیاگیا۔یہی اشتہاری باعزت رہاہوجاتاہے چندسالوں بعد مقامی ایم این اے سے ناراضگی پراس اشتہاری کوپولیس جب دوبارہ گرفتارکرتی ہے توپولیس کواعزازواکرام سے نوازاجاتاہے ۔

انتہائی قابل پولیس افسرذوالفقارچیمہ جب ڈی پی اوگجرات تعینات ہوئے تومظہراقبال بعدنے انہیں ایک خط لکھا جس میں انہوں نے اپنے خاندان کے ساتھ ہونے والے ظلم کی ساری داستان بیان کی اورآخرمیں تحریرکیا کہ ،،بندہ کی توبہ ۔جوپھرکسی مدثراقبال اشتہاری ملزم کو گرفتارنہیں کروں گا جس کی وجہ سے بندہ کی دین ،دنیااورمحکمہ پولیس میں کوئی جگہ نہ رہے ، ۔اس خاندان کوبچے کی بازیابی تورہی ایک طرف اپنی جانوں کے لالے پڑگئے ۔

مغوی بچے کے دوسرے چاچاچوہدری جاویداقبال جومسلم لیگ ن اٹلی کے چیف آرگنائزرتھے وزیراعلی پنچاب کے نام خط لکھ کردادرسی کی فریادکی ان کایہ خط میاں غلام حسین شاہد کے ہاتھ لگا جونائب صدرپی ایم ایل این پنچاب اورصدریوتھ ونگ پنچاب تھے انہوں نے بچے کی بازیابی کابیڑھ اٹھایا اورمتاثرہ خاندان سے ملاقات کرکے یقین دہانی کروائی کہ ان کابچہ گھرپہنچ جائے گا وہ ذاتی طورپروزیراعلی پنچاب میا ں شہبازشریف سے اس کیس کی درخواست کریں گے اس ہمدردی کاانہوں نے ساڑھے چارلاکھ روپے بل وصول کیا اورپھرلائن کٹ گئی ،وہ اپنی دیہاڑی لگاکرسائڈپرہوچکے تھے مگرمتاثرہ خاندان آج بھی ماراماراپھررہاہے انہیں اپنے ملک پاکستان میں اپنے بیٹے کاکچھ پتانہیں چل رہاہے ،وہ ہراس جگہ پرجاتے ہیں جہاں سے انہیں کچھ امیدہوتی ہے مگرہرجگہ سے انہیں مایوسی ہوتی ہے ۔
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

اب نیاپاکستان بن چکاہے اورحکمران ریاست مدینہ بنانے کے دعویدارہیں پنچاب میں خادم اعلی کی بجائے ایک درویش وزیراعلی براجمان ہے اوروزار ت داخلہ کاقلمدان وزیراعظم کے پاس ہے ان کے پاس اگروقت نہیں ہے تووزیرمملکت کے عہدے پربھی دبنگ وزیرشہریارآفریدی براجمان ہیں ،بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لیے زلفی بخاری جیسانوجوان ہمہ تن مصروف ہے ،جس علاقے سے بچہ اغواء ہوئے اسی سرزمین سے تعلق رکھنے والے فوادچوہدری نہایت تگڑے وزیرہیں ،جبکہ گجرات سے تعلق رکھنے والے پرویزالہی پنچاب اسمبلی کے طاقت ورسپیکرہیں ان میں سے ایک بھی فردتھوڑی سی توجہ دے تویہ معاملہ حل ہوسکتاہے ، متاثرہ خاندان ان حکمرانوں سے امیدلگائے بیٹھاہے شایدپہلے والے حکمران توان کے بچے کوبازیاب نہیں کرواسکے ہیں اب تبدیلی آچکی ہے ان کے بچے کی بازیابی کے لیے کوئی پیش رفت ہوسکے ،کیوں کہ اغواء کاروں کاتعلق نہ کسی دہشت گروہ سے تھا اورنہ ہی وہ بیرون ملک بیٹھے ہیں،بلکہ اسی شہرمیں گھوم رہے ہیں ،بلکہ دندناتے پھررہے ہیں ۔متاثرہ خاندان کوتویہ بھی معلوم نہیں کہ انہیں کس جرم کی سزادی گئی ہے یادی جارہی ہے ۔

اسی طرح انہیں چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ سے بھی بڑی امیدیں ہیں جو پرانے مقدمات کوتیزی سے حل کررہے ہیں جھوٹی شہادتوں کاقلع قمع کررہے ہیں ان کامقدمہ بھی ہیومن رائٹس سیل میں پڑاہواہے چیف جسٹس آف پاکستان بے شک کسی نئے مقدمے کانوٹس نہ لیں مگراس سیل میں پڑے ہوئے اس مقدمے کی پیش رفت کے حوالے سے رپورٹ ہی طلب کرلیں ۔شایدمتاثرین کوانصاف مل سکے،پاک بھارت اس کشیدگی کے ماحول میں اگرہماری عدلیہ انصاف دے رہی ہوگی تویہ جنگ پہلے کی طرح ہم ہی جیتیں گے ۔جہاں تک مظلوم خاندان کاتعلق ہے تووہ اپنامقدمہ اﷲ کی عدالت میں پیش کرچکے ہیں ، اس خاندان کے ساتھ اگراس دنیامیں انصاف نہیں ہواتواس عدالت میں ضرورانصاف ہوگا ۔

Umar Farooq
About the Author: Umar Farooq Read More Articles by Umar Farooq: 47 Articles with 36793 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.