انتہا پسندی ۔خطرہ یا طاقت!

فیاض الحسن چوہان سے ہندو برادری کے خلاف دئیے گئے متنازعہ بیان پر وزیر اطلاعات کا قلم دان واپس لے لیا گیا۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے عمران خان کی ھدایت پر ایسا کیا،فیاض الحسن کے متنازع بیانات اب زبان زدعام ہیں،انہوں نے کشمیری عوام کو ان پڑھ کہہ کر بھی خوب بے عزتی کروائی۔جبکہ فنکاروں کے خلاف بیان بازی پر بھی انہیں معافی مانگنی پڑی تھی۔اس کی بنیاد ی وجہ وہ تنگ نظری ھے،جس میں فیاض الحسن چوہان کی پرورش ھوئی اور سیاسی اور مذہبی پرداخت کے اثرات مرتب ھوئے۔فیاض الحسن میرے کالج فیلو ہیں موصوف کہی خوبیوں کے مالک بھی ہیں لیکن متلون مزاجی غالب ھے ھم نے جس فیاض الحسن چوہان کو دیکھا تھا اس میں بہت فرق آچکا ھے۔وہ لوگوں کے کام آ نے والا بلکہ حنیف عباسی کو شہرت دینے والا بھی ھے۔دوست نواز اور ھمدرد بھی تھا ۔ھمارا روز کا اصغر مال کالج کے ہوسٹل میں جم کٹھا ھوتا تھا،فیاض روز ھمارے کمرے میں ایک ھنگامہ خیز محفل بپا کرتا اور خود مرکز نگاہ بن جاتا۔کسی کا تھانے کچہری کا مسئلہ ھوتا تو فیاض آ گے ھوتا۔اسی وجہ سے وہ اپنے حلقے میں مشہور تھا،البتہ اس کے اندر آ نے والی تبدیلیاں میرے لئیے حیران کن تھیں،نا مناسب الفاظ،دل آ زادی اور معذرت یہ فیاض انتہا پسند تھا۔وہ یہ جانتا ھے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو کیا اہمیت حاصل ھے،اسلام اقلیتوں کو کیا تحفظ دیتاہے؟اور عمران خان کی سوچ اور نظریہ کیا ھے،اس کے باوجود وہ توازن نہ رکھ سکا۔یہی اس کی کمزوری ھے۔

انتہا پسندی کسی بھی مذھب،عقیدے یا ملک میں ہو وہ معاشرے اور انسانیت کے عدم توازن کا باعث بنتی ھے۔پاکستان میں پانچ فیصد سے زیادہ انتہا پسند نہیں ھوں گے۔مزھب سے سب لوگ محبت کرتے ہیں۔مگر 70 سال سے ھر طبقے اور مکتب فکر کو معاشرہ برداشت کرتا آیا ھے۔وقتی ابال شاید ھو لیکن پورا پاکستانی معاشرہ ھندو،سکھ۔عیسائی سمیت دیگر اقلیتوں سے باھمی رواداری کے اصول پرقائم ہے۔کچھ غیر ملکی مداخلت نے اس کو نقصان ضرورد یا ھے،مگر اجتماعی لحاظ سے معاشرے میں رواداری غالب ھے،اپ انتخابات کو ہی دیکھ لیں۔باوجود کوشش کے انتہا پسندوں اور متوازن مذہبی جماعتوں کو شکست ہوئی ھے۔کیونکہ پوری قوم مذہب اور سیاست کو الگ الگ مقام دیتی ھے۔امریکہ،روس جنگ اور پھر نائن الیون کے بعد پاکستان فرنٹ لائن بنا اس نے پاکستانی معاشرے کو شدید نقصان پہنچا یا۔گویا یہ بیج بھی انہوں نے بویا،جو اس درخت کو کاٹنے کے درپے ھیں۔اس سے انہں کوئی فایدہ نظر آ رہا ہو گا۔دنیا خود یہ کندھا استعمال کرتی ہے اور ھمارے معصوم لوگ ان کا حصہ بن جاتے ہیں۔تعلیم اور شعور کی کمی انہیں پرفریب جال میں پھنسا دیتی ھے۔دین اسلام اخلاق پر کھڑا ھے،یہی آس کا اصل ھتھیار ھے،باقی سب سیاست کے مفادات کے پیرائے میں دیکھا جا رہا ہے۔اپ دیوار کے اس پار چلے جائیں بھارت میں،سیاسی جماعتوں نے ھمیشہ تعصب،نفرت اور انتہا پسندی کو طاقت بنایا۔بی۔جے۔پی تو کھڑی ھی مسلم دشمنی پر ھے۔واجپائی جیسا دانش مند آدمی بھی اس کا شکار رہا جبکہ مودی تو گجرات میں مسلم اقلیت کو کچل کر جگہ بنانے میں کامیاب ہوا۔انسان کا قائل قرار دینے والے۔اس کے دوست بن گئے۔اج بھر اسی فکر پر الیکشن جیتنے کی کوشش کر رہا ھے مگر دنیا کا دوغلا پن دیکھئیے ،کشمیر کی حالت زار ملاحظہ فرمائیں۔انتہا پسندی کو کس نے خطرہ جانا اور کس نے طاقت بنایا۔سیکولرازم کی دعویدار انتہا پسندی کے ذریعے وار ھسٹریا اور نیوکلیئر خطرات پیدا کر رہی ھے،سکھوں،مسلمانوں اور دلتوں کو کچلا جا رہا ہے۔مگر شدت پسندی۔دھشت گردی کا الزام پاکستان پر۔ھمارا آ ئین۔۔قومی پرچم اور رواداری تمام اقلیتوں کو تحفظ اور حقوق دیتا ہے۔ریاست کبھی بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹتی۔بھارت ریاستی طور پر اور ٹرمپ برملا نسلی تفاخر میں مبتلا ھے۔اس کو انصاف سے کون دیکھے گا۔پاکستان دو قومی نظریے کا پاسدار تو ھو گا لیکن نفرت کا وہ بازار گرم نہیں جو بھارت میں ھے۔مودی تعصب پیدا کر کے اپنے انتہائی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔کوئی انگلی اٹھانے والا نہیں،ھم امن چیخ رہے ھیں،5فیصد طبقے کو پابند سلاسل کر رہے ھیں مگر بھارت ھوا دے رہا اس طرح ایک دیوار کے آر پار کتنافرق پڑے گا۔؟ فیاض الحسن چوہان ھندو برادری کے خلاف بیان بازی سے روندہ درگا ھو چکا ۔بھارتی متعصب کب دنیا کی نظر میں آ ئیں گے.

Prof Khursheed Akhtar
About the Author: Prof Khursheed Akhtar Read More Articles by Prof Khursheed Akhtar: 89 Articles with 68466 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.