اپنے کئے پر پانی ڈالیں

تحریر ۔۔۔فہمیدہ بٹ
آپ سب سوچ رہے ہوں گے کہ پوری دنیا انڈیا کے پائلٹ ابھی نندن اور مودی کی باتیں اورحسب توفیق تبصرے کررہی ہے اور فہمیدہ کو کیا سوجھی کہ فلش کموڈ اور شٹ یعنی کہ پوٹی یعنی کہ فضلے اور آسان زبان یاعرفِ عام میں "ٹٹی" کی بات لے کرآگئی وہ بھی اخبار جیسے چوراہے میں توجناب آپ سوچیں کہ جب انسان سارازور پاپی پیٹ کو بھرنے میں لگاتاہے توپھرجنابِ عالی جب یہ پاپی پیٹ خالی ہوناچاہتا ہے توکیاہوتا ہے یہ آپ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ اس پاپی پیٹ کو بھرنے سے زیادہ زور خالی کرنے میں لگتا ہے.میں نے کیا آپ نے بھی ایسے ایسے مقامات پر اتنے بڑے بڑے "پھڑکے" دیکھے ہوں گے کہ ذہن سوچ سوچ کہ حیران و سرگرداں ہوجاتا ہے کہ یہ ہوا کیسے ہوگا؟

اپنا پیٹ خالی کرنے والوں نے دوسرے لوگوں کے بارے میں خیال تک نہیں کرتے کہ یہ پبلک مقامات,اور گزر گاہوں پر "ہگنا" یعنی کہ فارغ ہونا یعنی کہ رفع حاجت کرنا انتہائی قبیہہ فعل ہے اسوقت جی چاہتا ہے کہ ان ماں کو لائن میں کھڑاکر کے پبلک کے سامنے اتنے جوتے مارے جائیں کہ دنیا بھر کی مائیں اور انکی نسلوں کیلئے عبرت کانشان بنیں. چونکہ میں نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی فل کونسل ممبر ہونے کی وجہ سے پمز ہسپتال میں علاج معالجے کیلئے انٹائیٹل ہوں توگزشتہ کئی سال سے اکثر جانا ہوتا ہے جب بھی جاؤں کوئی نہ کوئی نئی ڈویلپمنٹ اور امپروومنٹ دیکھنے کو ملتی ہے ہسپتال انتظامیہ ہسپتال کومریضوں اور اٹینڈنٹ کیلئے نت نئی سہولیات کیلئے کوشاں رہتی ہے جبکہ پبلک کا رویہ انتہائی قابلِ مزمت اور گھٹیا ہے.میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ ہسپتال پاکستانیوں کیا غیرملکیوں کیلئے بھی ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے مگر ہمارے عوام انتہائی ناشکرے, بدتمیز اور بد اخلاق ہیں ہیں.ماں کی تربیت تو کہیں نظر ہی نہیں آتی لگتا ہے ماں نے بچے جن کے معاشرے کادرد سربنانے کیلئے گلیوں میں چھوڑ دیئے.نہ کوئی تمیز نہ طریقہ نہ سلیقہ ہسپتال میں جگہ جگہ کوڑے دان رکھے گئے ہیں مگر لوگ ہرطرف جہاں جی چاہتاہے گندگی پھیلاتے رہتے ہیں.کئی تو کوڑے دانوں کے آس پاس ہی گند پھینک دیتے ہیں گویا انہیں ماں نے سمجھایا ہو کہ ڈسٹ بِن کوگندا نہیں کرنا. خود موٹی موٹی بھینسوں جیسی ہٹی کٹی مائیں بھی لان میں بچوں کیساتھ دریاں بچھا کہ آس پاس مالٹے ،کیلے, مونگ پھلیوں کے چھلکے اور استعمال شدہ اشیا کی بوتلیں اور گند ایسے پھیلارہی ہوتی ہیں جیسے اباجی کا ویڑہ ہو. یاکسی پرفضا مقام پر پکنک منانے آئی ہوں. صاف ستھرے فرش پر تھوکنا توایسے ہے گویا یہ فرش بنایا ہی انکے جراثیم ذدہ بلغم کیلئے ہو. ایک دن میں نے دیکھا ایک شخص نے فرش پر تھوکااور پھر اپنے جوتے سے اسے مسل مسل کر پھیلا دیا,گویااپنی طرف سے اپنے گند کی صفائی کرکیاس نے پمزانتظامیہ اور پبلک پر بڑااحسان فرمایا,اسکی اس غلیظ حرکت پر مجھے تو ابکائیاں آنے لگیں اور الٹی آنے سے پہلے میں وہاں سے ہٹ گئی.یوں لگتاہے جیسے لوگوں کے گھروں کاماحول بھی ایسا ہی ہے کہ فلش کے اندر "ہگنے"یعنی کہ "فارغ" ہونے کی بجائے فلش کے باہر فارغ ہوتے ہوں گے شائد انہیں ڈر ہوکہ کہیں انکانکالا ہوا مال ومتاع فلش میں بہہ کر ضائع نہ ہوجائے.ایسی کئی باتیں ہیں جویہاں مثال کے طور پرکی جا سکتی ہیں مگر آپکو کالم کی طوالت اور بوریت سے بچانے کیلئے صرف ایک مثال دوں گی کہ ہمارے پورے ملک میں جگہ جگہ دیواروں پر لکھا ہوتا ہے,یہاں پیشاب" کرنا منع ہے." اور آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ اسی جگہ اور دیوار پر پیشاب کی دھاروں سے نقش و نگار بنے ہوں گے اورماحول بدبوسے متعفن ہوتاہے. مجھے حیرت ہے کہ ایسی حرکت کرتے ہوئے ان لوگوں کو شرم بھی نہیں آتی.میں تو یہی جانتی ہوں کہ یہ سب ماں کی تربیت کا فقدان ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو سرِ عام "موتنے"والی حرکت کیلئے شرم ہی نہیں دلائی کیونکہ اکثر مائیں بچوں کو سکول بھیج کربے فکر ہی نہیں لاپرواہ بھی ہو جاتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ بس انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے حالانکہ تعلیمی اداروں کی تربیت اور نظم ضبط ایک طرف جبکہ ماں کی گود کی تربیت ایک طرف. بچے وہی سیکھتے اور عمل کرتے ہیں جو ماں باپ کی اولین تربیت اور ماحول انہیں سکھاتا ہے. بچے کی سکولنگ کے آغاز پر ہم یہ نہ سمجھیں کہ وہ کورا کاغذ ہوتا ہے حقیقتًا وہ پورا تربیت یافتہ ہوتا ہے جسکا اظہار وقت کیساتھ ساتھ آہستہ آہستہ سامنے آتا ہے.پمز ہسپتال پر پورے پاکستان کے مریضوں کا بوجھ ہے اس ہسپتال کی انتظامیہ اور سینئر و جونئیرڈاکٹرز قابلِ ستائش ہیں کہ عوام کے ناقابل برداشت رویوں کے باوجود اپنا کام انتہائی تن دہی وجانفشانی سے کرتے رہتے ہیں کسی کو کوئی مسئلہ ہوتو پیار,عزت اور بااخلاق طریقے سے پیش آتے ہیں. بزرگوں کیلئے الگ کانٹر اور کرائسس سنٹر بھی بنا دیا گیا ہے اورانکا مکمل علاج,ٹیسٹ, ایم آر آئی, الٹراسانڈ وغیرہ مفت ہوتے ہیں.غریب و نادار مریضوں کیلئے زکٰوۃ بیت المال اور سوشل ویلفیئر کی سہولت بھی موجود ہے. پورے پاکستان سے بالعموم اور خیبر پختونخوا و آزاد کشمیر سے بالخصوص بڑی تعداد میں مریض آتے ہیں اور تو اور افغانوں کی بھی ایک بڑی تعداد اس ہسپتال پر بوجھ بنی ہوئی ہے.مقامِ حیرت ہے کہ یہ افغان ابھی تک پاکستان میں دندناتے پھررہے ہیں اپنے وطن جانا ہی نہیں چاہتے ہماری معیشت پر بوجھ اور سکیورٹی رسک بنے ہوئے ہیں جبکہ حکومتوں کے دعوے کچھ اور ہیں,خیر یہ ایک الگ موضوع ہے اس پر پھر کبھی بات ہو گی. اسوقت بات ہورہی ہے پمز ہسپتال کی, تو اس ہسپتال کاتمام عملہ دلجمعئی, خوش اخلاقی اور دلجوئی کیساتھ اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھاتاہے مگر ہماری قوم ہرسرکاری سہولت کو باپ کی جاگیریا مالِ مفت کی طرح بے رحمی سے استعمال کرتی ہے. اور میں سمجھتی ہوں یہ سب ماں کی بے تربیتی کا شاخسانہ ہے. افسوس صدافسوس کہ من حیث القوم ہماری ماں کی تربیت کا کبھی خیال تک نہیں کیاجاتا.مجھے ہسپتال کی صفائی کرنے والوں کو بالعموم اور ٹائیلٹ کی صفائی کرنے والے عملے کو بالخصوص خراج تحسین پیش کرنا ہے انکے حوصلے کو سلام کرنا ہے کہ جولوگ "اپنے کئے پر" پانی تک نہیں ڈالتے یہ صفائی کا عملہ انکی غلاظت کو صاف کرتا ہے, جب ہم اپنی غلاظت کو خود صاف نہیں کرتے تو سوچیں کہ دوسروں کی غلاظت صاف کرتے ہوئے اس انسان کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟ایک لمحے کیلئے ذرا غور کریں کہ کیا ہم کسی اور کی اس طرح کی غلاظت کو صاف کر سکتے ہیں؟اسلئے کم ازکم اپنے کیئے پر اتنا پانی ضرور ڈالیں کہ دوسرا بھی اس ٹائیلٹ کو استعمال کرسکے اورصفائی کرنے والے کا دل بھی خراب نہ ہو. اپنے نبی پاک ﷺکی حدیث مبارک پر بھی ذرا غور کرلیں,فرماتے ہیں کہ," دوسروں کیلئے بھی وہی پسند کرو جو تم چاہتے ہو. "تو کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم دوسروں کا فضلہ صاف کریں؟نہیں نا!!! بس یہی میری گزارش ہے کہ دوسروں کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں جو ہم اپنے لئے چاہتے ہیں. اکثر لوگ ایسی باتوں کو ناقابلِ تحریر اور بے کار سمجھتے ہیں جبکہ میرے مطابق نہ صرف یہ کہ ایسے معاملات پر بات کرنا بے حد ضروری ہے بلکہ انتہائی اہم بھی ہے.
 

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 463614 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.