کوئی بھی معاشرہ ایک گاڑی کی سی حیثیت رکھتا ہے جہاں مرد
اور عورت اس گاڑی کے پہیوں کی مانند ہیں اگر ایک پہیے یعنی عورت کو نکال
دیا جائے تو معاشرے کی گاڑی نہیں چل سکتی جس کے بعد نظام زندگی ادھورا رہ
جائے گا،اسی لیے تو تو عورت کا معاشرے میں مقام ریڑھ کی ہڈی جیسا ہے۔اور یہ
بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ عورت
کا حصہ شامل نہ ہوعورت ایک اہم معاشرتی ستون کی سی حثیت رکھتی ہے کہ جس کے
ہوتے ہوئے معاشرہ مضبوط اور مکمل نظر آتا ہوویسے تو اگر دیکھا جائے ہر دن
ہی خواتین کا دن ہے کیونکہ کوئی دن بھی ان کے بغیر مکمل نہیں کوئی کام کوئی
رشتہ ان کے بغیر مکمل نہیں لیکن بین الاقوامی سطح پر 8 مارچ کو خواتین کا
عالمی دن منایا جاتا ہے.جسکا مقصد لوگوں میں خواتین کے حقوق انکی اہمیت سے
متعلق آگاہی دینا اور ان پر تشدد کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنا ہے۔زمانہ
جاہلیت میں عورتوں کو نہ تو کوئی عزت حاصل تھی نہ ہی ان کا کوئی مقام
تھابیٹی پیدا کرنا بھی ایک عورت کے لیے جرم تھا اور بیٹی پیدا ہونا بھی اس
کی سزا اس صورت میں ملتی تھی کہ زندہ درگور کر دیا جاتا تھادین اسلام کے
بعد عورتوں کو ان کے حقوق اور عزت ملنا شروع ہوئی عورت کو مرد کے برابر
حقوق دیے گئے نبی پاک نے ماں کے قدموں تلے جنت قرار دے کر ماں کو معاشرے کا
سب سے بلند مقام عطاکیا،حضور ﷺنے خود خواتین کو عام معاملات میں شامل
کیاحتہ کہ خطبہ حجتہ الوداع میں تین مرتبہ آپ نے خواتین سے حسن سلوک کا حکم
بھی دیااسی طرح بیٹی کو جہاں معاشرتی لحاظ سے ہر طرح سے بلند مقام دیا گیا
اس کے ساتھ ساتھ وراثت کی حقدار بھی ٹھہرایا گیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری
ہے۔
''عورت'' چار الفاظ/چار رشتوں کا مرکب ہے یعنی ''ماں,بیٹی, بہن اور
بیوی''عورت چاہے ماں کی صورت میں ہو یا بہن کی صورت میں بیٹی کی صورت میں
ہو یا پھر بیوی کی صورت میں اپنی مثال آپ ہوتی ہے ۔اور ہر رشتے کو بخوبی
نبھاتی ہے۔''بیٹی ہے تو باپ کے لیے باعث رحمت,بیوی ہے تو شوہر کے لیے نصف
ایمان,ماں ہے تو جنت جیسی اور بہن ہے تو بھائیوں کا مان''.عورت ہر روپ میں
اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔عورت جو کہ ایک خاص وقت کی تکلیف کے بعد ایک
زندگی کو دنیا میں لانے کا حوصلہ رکھتی ہے۔عورت ہی ہے جو فاقے کاٹ لیتی ہے
لیکن اپنے بچوں کو بھوکا نہیں سونے دیتی اپنی اولاد کے لیے دنیا سے لڑ جاتی
ہے خود تکلیف برداشت کر لے گی لیکن اپنی اولاد پر آنچ بھی نہ آنے دے گی
عورت ہی ہے جو دنیا کی سختیاں جھیل کر بھی خود کو مضبوط کیے رکھتی ہے۔زمانے
کی تنگ نظری اور چھوٹی سوچ کے باوجود اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے اور اپنے
پاؤں پہ کھڑی ہوتی ہے۔عورت ہر میدان میں اپنی مثال آپ رہی ہے اور ہمیشہ رہے
گی چاہے وہ میدان امن کا ہو یا جنگ کاآج کل کے اس جدید دور میں بھی عورت نے
اپنی قابلیت کا سکہ منوایا ہے عورت چاہے گھر سنبھالے ہویا باہر کام کرتی
ہو,وہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ احسن طریقے سے دونوں ذمہ داریاں ایک ساتھ
سنبھالتی ہے پورے خاندان کو ایک ساتھ لے کر چلتی ہے اپنے بچوں کی بہتر
تربیت کرتی ہے۔کپڑے سلائی کر کے,ٹیوشن پڑھا کر بھی اپنے گھر والوں کے لیے
آسانیان فراہم کرتی ہے.یہاں اگر بات کریں دیہات کی خواتین کی تو وہ بھی کسی
سے کم نہیں اگرچہ وہ تعلیمی لحاظ سے تھوڑی پیچھے ہیں لیکن پھر بھی مردوں کے
شانہ بشانہ کام کرتی ہیں کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ گھر کے کام کاج,بچوں کی
دیکھ بھال اور انکی تربیت بھی اچھی طرح کرتی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ
عورت نے زندگی کے ہر میدان میں خود کو منوایا ہے۔اور ثابت کیا ہے کہ وہ کسی
سے کم نہیں.لیکن آج کل کہ اس دور میں بھی خواتین کی ایک تعداد ایسی ہے جو
کہ فرسودہ رسم و رواج کی بھینٹ چڑھتی ہے۔اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا اس کی
سب سے بڑی غلطی سمجھی جاتی ہے۔چاردیوای اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔بات صرف سوچ
اور سمجھ کی ہے عورت کو جو مقام حاصل ہے اس کی عزت اور قدر بھی کرنی لازم
ہے۔اس خاص دن کے موقع پر دکھاوے کے سیمینارز اور تقاریر کرنے سے بہتر ہوتا
ہے کہ خلوص دل سے حقوق نسواں, ان پر تشدد کے خلاف اقدامات کیے جائیں اور ان
کو جاہلانہ رسم و رواج کی بھینٹ نہ چڑھنے دیا جائے۔
|