پنجاب کے باسیوں کے لئے خوشخبری ہے کہ اب پولیس کے
سافٹ امیج کے اجاگر ہونے کا وقت آن پہنچا ہے۔ خوشخبری میں مزید خوشی کی بات
یہ ہے کہ اس تبدیلی کی منظوری خود وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے
عنایت کی ہے۔ سافٹ امیج کو اجاگر کرنے کے لئے جو قدم پنجاب حکومت نے اٹھایا
ہے وہ ہے پولیس کی یونیفارم کی تبدیلی۔ اس سے پہلی بات تو یہی ثابت ہوتی ہے
کہ پولیس کے بدنما رُخ کی واحد اور اہم ترین وجہ یہی وردی تھی۔ عشروں سے
کالی شرٹ اور خاکی پینٹ پولیس کے لئے بیزاری کی علامت بن چکی تھی اور اسی
طرح پولیس عوام کے لئے۔ سالہاسال کی اس روایت کو گزشتہ حکومت نے ختم کیا
تھا، میاں شہباز شریف کے دور میں بہت سی دیگر تبدیلیوں کے ساتھ پولیس کی
یونیفارم بھی تبدیل کر دی گئی تھی۔ مرحلہ وار تبدیل ہونے والی یونیفارم میں
پینٹ اور شرٹ کا ایک ہی رنگ کر دیا گیا تھا، گہرا مونگیا رنگ۔ دل لگتی بات
تو یہی ہے کہ ہمیں ذاتی طور پر تو یہ وردی بہت پسند آئی۔تاہم چند ماہ کے
بعد ہی یہ خبر بھی گردش کرنے لگ گئی تھی کہ یونیفارم دوبارہ تبدیل ہو رہی
ہے، اگرچہ اس میں رنگ کا فیصلہ سامنے نہیں آیا تھا۔ اب نئی حکومت نے نیا
فیصلہ کر ہی لیا ہے، کہ نئے مالی سال سے پولیس یونیفارم تبدیل ہو جائے گی،
جس میں گہرے نیلے رنگ کی پتلون کے ساتھ ہلکے نیلے رنگ کی شرٹ تیار کی جائے
گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اس تبدیلی کی منظوری دے دی ہے۔
حکومت نے یونیفارم کی تبدیلی کو ’’سافٹ امیج‘‘ سے مشروط قرار دیا ہے، یہی
وعدہ سابقہ حکومت نے یونیفارم تبدیل کرتے وقت عوام سے کیا تھا۔ حیرت کی بات
ہے کہ عوام نے یونیفارم کی تبدیلی کو دیکھنے میں تو شاید بہتر قرار دیا ہو،
مگر سو فیصد عوام کو یقین تھا کہ یونیفارم تبدیل کرنے سے پولیس کے رویے اور
رجحان تبدیل نہیں ہوسکتے۔ اور اگر عوام اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے تو کیا
حکومت کے ذمہ داروں اور تبدیلیوں کے علمبرداروں کو اس بات کا علم نہیں تھا
کہ کپڑے بدلنے سے حقیقی تبدیلی نہیں آتی؟ یا سرکاری بیان اور احکام واقعی
سوچنے ، دیکھنے اور سننے کی صلاحیت سے بے بہرہ ہی ہوتے ہیں؟ یا وہ عوام کو
اس قدر بے وقوف تصور کرتے ہیں کہ جو کچھ کہہ دیا جائے گا، یا جو بیان جاری
کر دیا جائے گا وہ حرف بہ حرف تسلیم ہوگا، اسے سچ ہی قرار دیا جائے گا۔ یہ
سرکاری سچ کی ہی ایک مثال ہے، کیونکہ حکومتوں کے تمام بیانات ’’سرکاری سچ‘‘
کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔
اگر گزشتہ برس یونیفارم تبدیل کئے جانے سے پولیس کا سافٹ امیج بہتر ہوا ہے
تو اس برس تبدیل کرنے سے اس میں مزید بہتری آ سکتی ہے، اگر یونیفارم کی
تبدیلی سے واقعی بہتری آتی ہے تو یہ کام ہر سال کیا جاسکتا ہے۔یوں پولیس کے
رویوں میں جو تبدیلی سات دہائیوں میں نہیں آئی تو ایک دہائی میں آسکتی ہے۔
ہر سال اگریونیفارم تبدیل کرنے سے دس فیصد بہتری آئے تو دس سالوں میں اپنی
پولیس بہترین ہو سکتی ہے۔ ناقدین اگر صرف دس برس صبر سے کام لے لیں تو
پنجاب پولیس عالمی معیار پر پورا اتر سکتی ہے۔ چونکہ حکومت کے پاس بہترین
اذہان موجود ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کے بہت سے تجربہ کار افراد اب موجودہ
حکومت کے ستون ہیں، اس لئے ہر کام تجربے کی بنا پر ہی کیا جارہا ہے، اور تو
اور کہا جاتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں موجودہ وزیراعلیٰ بہت ہی کار آمد
ثابت ہوں گے ، تو یقینا اُن کا غوروفکر بھی یونیفارم کی اس تبدیلی میں شامل
ہوگا۔ جب کوئی کام بہت سوچ بچار کے بعد کیا جاتا ہے، تو اس سے بہتر نتائج
ہی سامنے آتے ہیں۔
پولیس یونیفارم کی تبدیلی کے موقع پر حکومت نے ماہرین نفسیات سے بھی مشاورت
کی ہوگی، کیونکہ لباس اور رنگ کے اپنے اثرات ہوتے ہیں۔ گزشتہ روز خبر آئی
تھی کہ حکومت وفاقی وزارتوں کے لئے ٹیکنیکل مشیروں کی تعیناتی کی منظوری دے
رہی ہے، اسی طرح پولیس کی یونیفارم کے معاملہ میں بھی مختلف زاویوں سے ضرور
دیکھا گیا ہوگا۔ پولیس میں مختلف ونگ بھی کام کر رہے ہیں، جنہیں جدید اسلحے
یا سواریاں وغیرہ بھی دی گئی ہیں، لیکن حقیقی تبدیلی کہیں بھی دکھائی نہیں
دیتی۔ پولیس کے نام سے صرف موٹر وے پولیس ہی ایک ادارہ ہے، جس نے نہ صرف
نیک نامی کمائی ہے، بلکہ دوسرے سرکاری اداروں کے لئے بہترین مثال بھی قائم
کی ہے۔ پنجاب پولیس کے سافٹ امیج کو بہتر کرنے کے لئے یونیفارم کی تبدیلی
پر کروڑوں روپے اڑانے اور ضائع کرنے کی بجائے پولیس کی تربیت کا اہتمام کیا
جائے، اس کے لئے کوئی راکٹ سائنس درکار نہیں، بلکہ موٹر وے پولیس سے ہی
تربیت کے حصول کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں حکومت کی پولیس کے سافٹ
امیج کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکیں، خواہ وہ تنخواہ میں اضافہ
کی بات تھی، یا براہ راست میرٹ پر نئی بھرتیوں کا سلسلہ تھا یا پھر وردی کی
تبدیلی کا معاملہ، یہ سب کچھ کر گزرنے کے باوجود اگر پولیس کے رویے درست
نہیں ہوتے تو سب سے زیادہ ضرورت خود پولیس کے لئے سخت قوانین اور سخت تربیت
کی ہے۔ یہاں ایک بات تمام حکومتوں میں مشترک ہے کہ فضولیات میں خود کو
مصروف رکھتی ہیں، اور اس سے بے شمار سرکاری عہدیدار وں کی معاشی صحت بہت
بہتر ہو جاتی ہے۔ |