اسلام اور آجکا دجالی میڈیا

اسلام میں عورت کا مقام اور آج کے لبرلز کے کرتوت اور قرآن کا غلط ترجمہ کرنا۔

اسلام میں عورت کا مقام اور آج کے لبرلز اور دجالی میڈیا

آج ایک پوسٹ نظر سے گذری جس پر یہ آیت درج تھی :وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌجسکا ترجمہ کچھ یوں لکھا تھا : اور عورتوں کو مردوں پر فضیلت ہے۔ یہ آیت سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۲۸ کا ایک جزء ہے جبکہ پوری آیت اور اسکا ترجمہ کچھ یوں ہے: وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍؕ-وَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ یَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِیْۤ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًاؕ-وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪-وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠(۲۲۸)
اور طلاق والی عورتیں اپنی جانوں کو تین حیض تک روکے رکھیں اور انہیں حلال نہیں کہ اس کوچھپائیں جو اللہ نے ان کے پیٹ میں پیدا کیا ہے اگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہیں اور ان کے شوہر اس مدت کے اندر انہیں پھیر لینے کا حق رکھتے ہیں اگروہ اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں اور عورتوں کیلئے بھی مردوں پر شریعت کے مطابق ایسے ہی حق ہے جیسا ( ان کا)عورتوں پر ہے اور مردوں کو ان پر فضیلت حاصل ہے اور اللہ غالب، حکمت والا ہے۔

آیت کا یہ جزء : وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌؕ اور مردوں کو ان پر فضیلت حاصل ہے ۔ کے تحت اسکے تفسیر صراط الجنان صفحہ ۳۴۷ میں کچھ یوں لکھا ہے:وَ لِلرِّجَالِ عَلَیۡہِنَّ دَرَجَۃٌ: اور مردوں کو ان پر فضیلت حاصل ہے۔ مرد و عورت دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں لیکن مرد کو بہرحال عورت پر فضیلت حاصل ہے اور اس کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں۔

اب جس شخص نے یہ آیت آگے پیش کی اسکا ادراک حاصل نہیں مگر دکھ اس بات کا ہے کہ آجکل ایسے نام نہاد چند ٹکوں کے خاطر بک جانے والے مولوی جنکو صَرف و نحو سے ذرہ برابر آگاہی حاصل نہ ہو وہ بھی قرآن کریم کا ترجمہ کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ جنکو ضمیر کے مرجع تک کا علم نہیں وہ بھی ترجمہ کر رہے ہیں۔ ایک وہ دور تھا کہ لوگ قرآن مجید جیسی عظیم کتاب تو کیا بلکہ احادیث کو روایت کرنے میں بھی احتیاط برتتے تھے ۔ میرے آقا اعلی حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَةُ اللهِ تَعَالٰی عَلَيْه ایک جگہ فرماتے ہے کہ قرآن پاک کا ترجمہ کرنے کے لیے ایک شخص کے پاس کم از کم ۲۱ علوم پر دسترس حاصل ہونا ضروری ہے۔

مگر افسوس آجکل وومن ڈے مناکر یہ بتایا جاتا ہے کہ عورت مظلوم ہے حالا نکہ کڑوا سچ یہ ہےکہ عورت زمانہ جاہلیت اوردیگرمذاہب میں ظلم وستم کا نشانہ بنائی گئی،لیکن مذہب اسلام نے آکر اس کے مقام کو بلند کیا،اس کی عزّت وتکریم کی،اوراسے زندگی کے تمام جائز حقوق عطا کئے۔اوردنیا کی سب سے بہترین پونجی قراردی۔ لیکن عورت اپنے حق سے ناواقف ہے،اورمیڈیا کی غلط پروپیگنڈہ کا شکارہوکرآج بھی اپنے حق سے محروم اورجگہ جگہ ماری پھرتی ہے۔

اسلام سے قبل معاشرے میں عورت کی حیثیت ڈھور ڈنگر سے زیادہ نہیں تھی بلکہ عورت کا وجود معاشرے کے لیے وجہ شرم و ننگ سمجھا جاتا تھا نتیجہ یہ کہ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زمین میں دفن کر دیا جاتا تھا۔ اسلام دین فطرت کے طور پر ابھرا تو اس نے معاشرے کی اس ناانصافی کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ صرف احتجاج ہی نہیں بلکہ مسلمانوں نے اپنے حسن عمل سے خواتین کو وہ مقام اور وہ مرتبہ عطا کیا جس کا تصور نہ ماضی نہ حال اور نہ مستقبل کرسکے گا۔

اسلام نے طبقہ خواتین کو جو عزت و توقیر بخشی اس سے متاثر ہو کر دوسری قوموں نے بھی عورتوں کو کسی حد تک معزز سمجھا۔ جب بحیثیت مجموعی مسلمان زوال پذیر ہوئے تو خود مسلم معاشرے میں بھی عورت اس عظیم مقام سے گر گئی جو اسے اسلام نے عطا کیا ہے۔ اسلام نے عورت کا جو متوازن، معتبر اور قابل قدر کردار متعین کیا تھا مسلمانوں نے اسے ملحوظ خاطر نہ رکھا۔

انہوں نے گھر کی چاردیواری کو اس لیے تنگ کر دیا کہ وہ اس کے لئے قیدخانہ بن کر رہ گئی۔ پردے کو اس قدر سخت کر دیا کہ سانس لینا بھی دشوار ہو گیا۔ دوسری طرف وہ قومیں جنہوں نے اسلام ہی کی تقلید میں طبقہ نسوا ں کو عزت عطا کی تھی وہ آزادی نسواں میں اس قدر آگے بڑھ گئیں کہ عورت ہر میدان میں مرد کی ہمسربن گئی اور اب یہ ہمسری بے راہ روی کے سانچے میں ڈھل کر فحاشی کی حدوں کو چھو رہی ہے دوسری طرف مغربی معاشرے کے رنگ ڈھنگ کو اکثر مسلمان خاندانوں نے بھی ترقی پسندی کی علامت سمجھ کر اپنا لیا ہے۔

اب معاشرہ دو حصوں میں بٹا ہوا محسوس ہونے لگا ہے۔ ایک وہ جن کے ہاں عورت محبوس و مقید اور مجبور ہے اور دوسرا جن کے ہاں عورت آزاد، خودمختیار اور غا لب و کار آفرین ہے اور یوں اسلام کا حقیقی نظریہ نگاہوں سے اوجھل ہو گیا جو فی الواقع متوازن او ر قابل عمل تھا اور ہے۔

اسلام نے عورت کو وہ تقدس عطا کیا کہ ماں کے پاؤں تلے جنت ہے۔ اور ظاہر ہے کہ عورت کے مقدس رشتے چار ہیں، وہ بیٹی ہے ، ماں ہے،بہن ہے، بیوی ہے اور یہ چاروں رشتے از حد مقدس اور قابل عزت ہیں اور وہ شخص جسے ان رشتوں کی عظمت کا پاس نہیں وہ اخلاقی لحاظ سے ایک قابل نفرین ہستی ہے۔ اسلام نے تعلیم کے حصول کو عورت اور مرد دونوں کے لیے لازم قرار دیا ہے۔

اپنے اپنے دائرہ کار میں الگ الگ، عورت تعلیم بھی حاصل کرے اور اس تعلیم کو دوسروں کی بہتری کا ذریعہ بھی بنائے مگر آج کی تعلیم یافتہ خواتین کھلم کھلا عورت اور مرد کی مساوات کا دعوٰی کرتی ہیں۔
اسلام نے عورت اور مرد کو جو مساوات عطاکی ہے وہ احترام انسانی کی مساوات ہے۔باہمی سلوک اور راوداری کی مساوات ہے ،عزت وتکریم اور محبت و شفقت کی مساوات ہے۔ یعنی مردو عورت کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے جیسا وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے اسے محکوم و مقہور نہ سمجھے بلکہ اس کا قلبی احترام کرے۔ یہ مساوات کلیتہ معاشرتی اور خانگی ہے۔ دفتری، کاروباری اور بازاری نہیں ہے۔

اسلام عورت کو خواتین کی دنیا میں کام کرنے، ملازمت کرنے اور کھیلنے کودنے سے نہیں روکتا مگر وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ مردوں کے ساتھ گھل مل جائے جس سے معاشرتی خرابیاں جنم لیں۔ عورت کو حیا وعصمت کا آبگینہ ہونا چاہیے اسے علم ودانش کے زیور سے کماحقہ آراستہ ہونا چاہیے۔ اسے ایک مضبوط کردار کا مالک ہونا چاہیے۔ اس میں جرات و بہادری کے جوہر بھی ہونے چاہیں۔

تاریخ اسلام میں ایسی روایات بھی ہیں کہ قلعے میں بند خواتین نے قلعے کی طرف بڑھنے والے دشمنوں کوموت کے گھاٹ اتارا۔ اسلامی پردے کا راز یہ ہے کہ مسلمان عورت حسن وجمال کا اشتہار بن کرباہر نہ نکلے کہ اس کی عزت آوارہ نگاہوں کا ہدف بن کررہ جائے بلکہ اشد ضرورت کے وقت مناسب پردے کے انتظام کے ساتھ، حیا اور پاکیزگی کا پیکر بن کر نکلے اور اس میں اس قدر جرت و ہمت بھی ہونی چاہیے کہ وہ قوی سنگینیوں کا مقابلہ کر سکے۔

اس میں اس قدر حوصلہ اور خود اعتمادی ہونی چاہیے کہ وہ ناسازگار حالات میں اپنی عزت کا تحفظ کر سکے گویا اسلام عورت کا ایک متوازن کردار پیش کرتا ہے۔


العارض: شیخ حارث رضا المدنی

Sheikh Haris Raza Madani
About the Author: Sheikh Haris Raza Madani Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.