جب چند عورتیں ذلت کے لئے پکارنے لگیں:
ـ میرا جسم، میری مرضی
ـ میری شادی نہیں، آزادی کی فکر کرو
ـ کھانا گرم کردوں گی، اپنا بستر خود گرم کرلینا
ـ نہ بچہ دانی چاہیے اور نہ تیرا مشورہ
ـ اپنا وقت تو اب آئے گا
خواتین کے عالمی دن 8مارچ کی یاد منانے اسلام آباد اور کراچی کی سڑکوں پر
بلا قید رتبہ و عمر چند لبرل عورتوں نے اظہار یکجہتی کے لئے مظاہروں میں
شرکت کی اور ایسے شرمناک اظہار خیال کے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے کہ مناسب اب
یہی لگتا ہے کہ ان بد نظریہ عورتوں کے لئے روا رکھے گئے لحاظ کو بھی بالائے
طاق رکھ کر انہی کی زبان میں انہیں جواب دیا جائے.
اگر بے باکی بےشرمی اور جنسی آزادی کے مطالبے لئے نکلنا ہی خواتین کے اس
عالمی دن کا ایجنڈا ہے تو سراسر لعنت.... اس سے زیادہ ظلم و زیادتی خواتین
کے ساتھ اور کوئی نہیں ہوسکتی.
پاکستان میں ان مظاہروں کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کردینے کا مطلب یہ ہے
کہ ہم نے اپنی تحریک آزادی کے مقاصد سے آنکھیں پھیر لی ہیں اور اپنی قوم کے
مستقبل یعنی اپنے نوجوانوں کی نظریاتی گمراہی کو قبول کرتے جارہے ہیں. یہ
لاتعلقی تو ہمارے آزاد مستقبل کے لئے ہمارے بزرگوں کی کاوشوں اور قربانیوں
سے بے وفائی اور مجرمانہ غفلت کرنے کے مترادف ہے. ہماری آزادی کے لئے کوشش
کرنے والے ہمارے بڑے تو اللہ اور اس کے رسول کے حضور سرخرو ہو گئے جبکہ
ہمارے لئے یہ وقت اب ہماری آئندہ نسلوں کے اسلامی تشخص کی حفاظت کی ذمہ
داری اور آزمائش کا ہے. اگر ایسے عناصر کو وقت پر روکا نہ گیا اور غفلت کی
چادر اوڑھ کر سوئے رہے تو ہماری شعائر اسلام سے وابستگی کے دعوے، نمازیں،
روزے، حج اور عمرے ہمارے کسی کام نہ آئیں گے. خواتین کے عالمی دن پر اس
ڈھکوسلے کو جب تک ہمارے نظریہ اسلام و پاکستان کی محافط پیروکار خواتین آگے
بڑھ کر اپنی اقدار اور حرمت کے دفاع میں رد نہیں کریں گی اور گھروں کی پردہ
دار خواتین اپنی بچیوں کی عزت و ناموس کی خاطر جب تک خود ایک تحریکی کردار
ادا نہیں کریں گی ان بے دین گمراہ عورتوں کو اس وقت تک کھلی چھٹی ملتی رہے
گی.
یاد رکھیں کہ بے شرم مظاہروں کی یہ یلغار چند بے ہودہ لبرل خیال عورتیں
اکیلے نہیں کرسکتیں. آپ دیکھیں گے کہ ان مظاہروں میں ولدیت اور غیرت کے
خانے سے خالی ننگ آدمیت ہیجڑے نما مرد چند بدکار عورتوں کے سرپر معاون بن
کر ساتھ کھڑے رہتے ہیں. یہ بھیڑئیے وہ حریص جنسی غوطہ خور ہیں جن کی ہوس کا
برتن ان کی دستیاب فاحشائیں بھرنے سے قاصر رہ جاتی ہیں اور وہ اب نئے شکار
بے حیائی کے جنگل میں گھیر کر لانے کے لئے تگ و دو کرتے ہوئے دکھائی دیتے
ہیں. یہ بے غیرتی کے حمایتی مرد و زن اکثر و بیشتر وہی شکلیں ہیں جو مختلف
انگریزی جرائد اور فیشن میگزین کی متفرق مخلوط تقریبات میں آزادانہ بانہوں
میں بانہیں ڈالے فوٹو سیشن مکمل کراتے پھرتے ہیں. فیشن واک کی سرپرستی، موم
بتی بردار امن ریلیاں، آزادی اظہار اور حقوق نسواں کے دھوکے باز نعرے ان کا
پسندیدہ شغل ہیں کیونکہ اس طرح نئے سے نیا بھولا شکار ان کے ہاتھ آنے کا
امکان ہوتا ہے. لیکن ان کا سب سے نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ اپنی متعفن سوچ کا
ڈھکن بار بار کھول کر ہنستے مسکراتے پاکیزہ معاشرے میں بدبو پھیلانے کی
کوشش کرنے لگتے ہیں. اگر آپ کو کبھی ان کی زندگیوں میں قریب سے دیکھنے کا
موقع ملے گا تو انکشاف ہوگا کہ ان کے خاندانی نظام میں شرم و لحاظ اور
رشتوں کے باہم احترام کا جنازہ نکل چکا ہوتا ہے اور یہ بدقسمت طبقہ شدید
اخلاقی زوال اور نفسیاتی تنہائی کا شکار ہے جسے دور کرنے کے لئے رنگ برنگ
آزاد تقریبات اور سرگرمیاں ہی ان کے پاس بطور آخری چارہ رہ جاتی ہیں.
مانا کہ لبرل ازم کا یہ طوفان ہمارے مسلم معاشرے کے سر پر مسلط کرنے کا
ایجنڈہ مغربی اور دجالی فتنہ ہے. لبنان، عراق، شام، لیبیا، یمن وہ مسلم عرب
ممالک ہیں جہاں لبرل ازم کی عفریت نے پہلے وہاں معاشرتی اقدار کی جڑوں کو
کھوکھلا کیا اور بعد ازاں طاقت سے حملہ آور ہوکے بچے کھچے اسلام پسند
باسیوں کو بےدردی سے کچلنا شروع کیا. اب مشرق وسطٰی کے عرب ممالک اور
بالخصوص پاکستان ان کے نشانے پر ہیں.
لیکن سارا الزام بیرونی اور مغربی فتنوں پر دھر دینا خودفراموشی اور
ناانصافی ہوگی. کہیں نہ کہیں ہم خود اس خوفناک بلا کو اپنے گھر میں گھسانے
کے جرم کے ضرور مرتکب ہوئے ہیں. ہم میں سے اکثر لوگ ترقی کی خام خیالی میں
مغربی طرز تعلیم کے مہنگے اسکول ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے بچوں کو داخل کرواتے
ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں. آزاد اور مخلوط محافل و تقریبات میں بطور
تفریح اور فیشن بمعہ اہل خانہ شرکت کرتے ہیں. شادی بیاہ کی تقریبات میں
فلمی انداز پر ڈانس پارٹی حتی کہ شراب نوشی تک کو جائز سمجھتے ہیں. اپنی
عیاشیوں کی خاطر اپنی معصوم اولاد کو غلط ترجیحات کی بھینٹ چڑھا دینے سے
گریز نہیں کرتے. بتائیے ہم اپنی گردنوں پر رکھے قرض کو چکانے کے لئے خود
کیا کررہے ہیں؟
اتنا سخت ردعمل دینے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انسانی معاشرے میں کسی بھی
نوعیت کی اجتماعی بےحسی اور معاشرتی بے شرمی رائج کرنے پر قدرت کی طرف سے
ہمیشہ کڑی سزا بھگتنا پڑی ہے. یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور قرآن پاک میں
جابجا ایسی عذاب یافتہ اقوام کے عبرت ناک انجام سے خبردار کیا گیا ہے. جو
بخت کے مارے ہوئے آسمانی ہدایت کے اطوار کو نہیں مانتے وہ بھی بالآخر قدرت
کے جبری قانون کی سختی کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں.
سوال یہ ہے کہ کتنی بار انسانیت تہذیب کے زینے پر چڑھے گی اور کتنی بار
بلندی پر پہنچنے سے پہلے پستی میں چھلانگ لگا کر واپس گرجائے گی؟ |