اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات اور امتِ مسلمہ
کو اشرف الامم بنایا اور تمام مذاہب میں سے اسلام کو اعلیٰ و ارفع بنایا ہے۔
اسلام ایک فطری دین ہے جس کا ہر پہلو اور قانون، فطرت کے عین مطابق ہے۔
اسلامی تعلیمات کا وہ حصہ جو ’’صنف نازک عورت سے متعلق ہے، بہت زیادہ اہمیت
کا حامل اور لائقِ مطالعہ ہے۔ ایک طرف عورت کی آزادی نا مناسب حد تک بڑھ
کر دنیا کے معاشرتی نظام کو درہم برہم کر رہی اور دوسری طرف عورت کی ترقی
اور آزادی کی حامی تنظیمیں یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ اقوام ومذاہبِ عالم
خصوصاً اسلام نے عورت کے حقوق کی طرف کوئی توجہ نہیں دی حالانکہ عورت پر
اسلام کے غیر معمولی احسانات ہیں۔ شارعِ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام نے
عورت کے وقار اور اس کی عظمت کا تحفظ جس پراگندہ ماحول میں اور جن دگرگوں
حالات میں کیا ہے۔ اس کی مثال تاریخ میں دنیا کی کسی قوم یا مذہب سے نہیں
ملتی۔
اسلام سے پہلے دورِ جاہلیت میں لوگ اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے
تھے اور بیٹی کو اپنے لئے باعثِ عار اور بوجھ سمجھا کرتے تھے۔ قرآن نے اس
کی شہادت دی ہے۔
’’جب ان میں سے کسی کو بیٹی (کی پیدائش) کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ
سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غم میں غرق ہو جاتا ہے۔ وہ اس بری خبر کی وجہ سے (مارے
شرم کے) لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (وہ سوچتا ہے کہ) کیا وہ رسوائی کے علی
الرغم اسے زندہ رہنے دے یا زمین میں گاڑ دے؟ یاد رکھو وہ جو بھی فیصلہ کرتے
ہیں بہت برا کرتے ہیں۔ (النحل: ۵۸-۵۹)
وہ لڑکی کو دوسرے کے نکاح میں دینا باعثِ شرم خیال کرتے تھے۔ اس ذلت سے
بچنے کے لئے انہوں نے لڑکی کو زندہ درگور کرنے کی رسم نکالی۔ چنانچہ اسلام
نے اسے گناہِ عظیم قرار دیا ہے۔
صنفِ نازک پر اسلام کے احسانات:
اسلام سے قبل جاہلی معاشرے اور دیگر اقوام نے عورت کا خوب استحصال کیا۔
عورت کو اس تذلیل و توہین سے بچانے کے لئے اسلام نے درج ذیل اقدامات کئے۔
بیٹی ہونے کے ناطے اس کی بہتر پرورش، تعلیم و تربیت اور اچھے رشتۂ ازدواج
میں منسلک کرنے پر جنت کی بشارت دی۔
ماں ہونے کے ناطے اس سے صرف حسنِ سلوک کی تاکید ہی نہیں کی گئی بلکہ حسنِ
ادب سے پیش آنے، تعمیل حکم کرنے اور خدمت کرنے پر جنت کی نوید سنائی ہے۔
بیوی ہونے پر اس سے حسنِ معاشرت، حسنِ اخلاق، لطف و عنایت اور دلی توجہ کا
حکم دیا ہے۔
جائیداد میں مرد کی طرح عورت کو بھی حصہ دار قرار دیا ہے۔
اسلام سے قبل مرد کے فوت ہو جانے پر اس کی بیوی کو جائیداد میں شامل کر کے
لڑکے اس سے نکاح کر لیتے تھے۔ قرآن مجید میں اس سے منع کر دیا گیا: [ولا
تنکحوا ما نکح اٰباؤکم من النساء الا ما قد سلف]
دورِ جاہلیت میں مرد اپنی عورت کو متعدد طلاقیں دیتا۔ مدت کی تعیین و تحدید
کیے بغیر جب چاہتا رجوع کر لیتا مگر اسلام نے طلاق کی تعداد اور انتظار کے
لئے ’’مدت‘‘ مقرر کر دی۔ مرد اگر رجوع نہ کرے اور مدت گزر جائے تو اسے اس
آدمی کے عقد سے آزاد کر دیا۔
تعلیم میں مردوں کی طرح عورتوں کو بھی برابر حصہ دیا ہے۔
[ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف] ’’مردوں کی طرح عورتوں کے بھی زندگی گزارنے
کے لئے حقوق ہیں۔‘‘ کے سنہری اصول کے ذریعے عورت کو مرد کے لئے شریکۂ حیات
مقرر کر دیا ہے۔
’’خطبہ حجۃ الوداع‘‘ اسلامی تعلیمات کے بہت سے اصول و مبادی اپنے اندر
سمیٹے ہوئے ہے۔ اس بین الاقوامی طرز کے خطاب میں رسول اللہﷺ نے ’’حقوقِ
نسواں‘‘ کا خیال رکھنے کی خصوصی تاکید فرمائی ہے۔
اس کے علاوہ بھی بے شمار ایسی اصلاحات ہیں جن کا تعلق صنفِ نازک کی فلاح و
بہبود، اس کی تعمیر و ترقی اور حقوق سے ہے۔ مگر ان صفحات کی تنگیِ داماں
پیشِ نظر ہے۔
صنفِ نازک سے متعلق بعض احکام:
جہاں اسلام نے عورت کو اتنی عزت و توقیر بخشی ہے وہاں اس کا وقار بلند
رکھنے اور زندگی میں اس کے مؤثر کردار کے لئے کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کی
ہیں جن میں دو سب سے زیادہ اہم ہیں:
خاوند کی اطاعت و فرمانبرداری:
عورت کی فطرت، ساخت اور ضروریات کے پیشِ نظر اسے اپنے معاملات میں ہر لحاظ
سے آزاد اور خودمختار نہیں بنایا گیا بلکہ بعض امور میں اسے مرد کے ماتحت
کر دیا ہے۔ بیوی کو زندگی کے معاملات میں شوہر کا صرف پابند ہی قرار نہیں
دیا بلکہ اس کے حکم کی تعمیل پر اسے ’’صالحہ‘‘ ہونے کی سند جاری کر دی:
[فالصٰلحٰت قانتات حافظات للغیب] عورت کو شوہر کے احکام کی تعمیل کرنے کا
پابند کیوں کیا؟ اس کی علت بھی بتا دی:
{اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ
بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ٭}
یعنی وہ عورتوں کے معاملات، ضروریات اور نان و نفقہ کے ذمہ دار ہیں۔ اگر
عورت ان احکام پر عمل در آمد کرے تو وہ گھر میں خادمہ یا نوکرانی نہیں
بلکہ ’’ملکہ‘‘ ہونے کی حیثیت سے زندگی گزارے گی۔ گھریلو اور ازدواجی
معاملات میں وہ اپنے شوہر کی ’’نائب‘‘ قرار دی گئی ہے … اور اگر وہ خاوند
کی نافرمان ہو گی تو اس کی عبادات اور اعمالِ صالحہ ضائع ہو جائیں گے اور
آخرت میں اس کے لئے سخت عذاب کی وعید ہے۔
پردہ:۔
پردہ عورت کی عظمت، وقار اور عزت کے تحفظ کی علامت ہے۔ اس کے متعلق قرآن
میں فرمایا:
{وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَ یَحْفَظْنَ
فُرُوْجَہُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ
مِنْہَا٭} (النور:۳۱)
’’(اے نبیe) مومنہ عورتوں سے کہہ دو کہ (مردوں کے سامنے آنے پر) اپنی
نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت و
آرائش کی نمائش نہ کریں سوائے اس کے جو (ضرورت یا مجبوری سے) کھل جائے۔‘‘
زینت دو قسم کی ہوتی ہے: ایک قدرتی اور دوسری مصنوعی۔ قدرتی میں خدوخال کا
حسن، جسم کی بناوٹ، قدوقامت کی موزونی وغیرہ شامل ہیں۔
مصنوعی جیسے بالوں کی آرائش، سرمہ، زیور، لباس اور مہندی وغیرہ مراد ہیں۔
یہ دونوں قسم کی زینتیں اپنے اپنے موقع پر مَردوں کے لئے جاذبِ نظر اور
شہوانی ہیجان کا باعث بن سکتی ہیں۔ قرآن کا حکم یہ ہے کہ عورت اپنی ہر طرح
کی زینت چھپائے اور اسے دانستہ نمائش کی غرض سے ظاہر نہ کرے۔ مثلاً عورت کی
بلند قامتی اس کے لئے خوبصورتی کا سبب ہے‘ اسے وہ کبھی نہیں چھپا سکتی۔
چنانچہ اس کے متعلق ارشاد فرمایا:
{وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ} (النور:۳۱)
’’اور وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈالے رہیں۔‘‘
مراد یہ ہے کہ سر پر دوپٹہ اوڑھیں اور ننگے سر نہ پھریں اور اپنے سینے بھی
چادروں میں چھپائے رکھیں۔
اگر عورت کو گھر میں بھی اسی طرح پردے میں رہنے کا حکم ہوتا تو گھر کے کام
کاج میں اسے کافی مشقت ہوتی۔ مگر اس صورت میں قرآن نے چند رشتہ داروں اور
بعض متعلقین (جو عورت سے زیادہ ملتے جلتے ہوں) کو مستثنیٰ قرار دیا ہے:
{وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ
اٰبَآئِہِنَّ اَوْ اٰبَآئِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَآئِہِنَّ اَوْ
اَبْنَآئِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ
اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخَوٰتِہِنَّ اَوْ نِسَآئِہِنَّ اَوْ مَا
مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ اَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ
مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی
عَوْرٰتِ النِّسَآئِ وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا
یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ}
’’اور عورتیں اپنی زینت کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے شوہر کے یا
اپنے باپ کے یا اپنے شوہر کے والد کے یا اپنے بیٹوں کے یا اپنے شوہروں کے
(دوسری بیویوں سے) بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں اور
بھانجوں کے یا اپنی عورتوں کے یا اپنے غلاموں کے یا مردوں میں سے ایسے
خادموں کے جو (نکاح کی خاص) ضرورت محسوس نہیں کرتے یا اتنے کم عمر بچوں کے
جو ابھی تک عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف نہیں ہوئے۔ اور راہ چلتے وقت
اپنے پائوں اس طرح زمین پر نہ ماریں کہ ان کی چھپی ہوئی زینت ظاہر ہو
جائے۔‘‘ (النور:۳۱)
اِس فہرست میں ان قریبی رشتہ داروں کا ذکر ہے جن کا عورت سے نکاح جائز نہیں
یعنی انہیں اس کے لئے محرم قرار دیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پردہ عورت
کے لیے ایک قید ہے۔ اسلام نے اسے چار دیواری میں مقید کر دیا ہے اور وہ گھر
سے باہر نہیں نکل سکتی۔ جب کہ یہ تأثر بالکل غلط ہے‘ ضرورت کے تحت عورت
گھر سے باہر نکل سکتی ہے لیکن چند قوانین اور شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے‘
مثلاً بنائو سنگھار نہ کرے‘ بے پردہ نہ ہو، خوشبو نہ لگائے، اکڑ اکڑ کر نہ
چلے، پازیب نہ پہنے، زمین پر پائوں زور سے نہ مارے۔ الغرض ہر اس عمل اور
چیز سے اجتناب کرے جس سے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں۔
ایک وہم اور اس کی حقیقت:
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عورت کے میدانِ عمل میں سرگرم رہنے میں ’’پردہ‘‘
بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کی وجہ سے وہ زندگی میں مصروفِ عمل نہیں رہ سکتی۔ جب
کہ عورت کا حقیقی دائرہ عمل اس کے گھر کی چار دیواری ہے۔ اسلام کے مطابق وہ
اپنے گھر میں اتنی مصروف ہے کہ اسے باہر جھانکنے یا خارجی امور کی طرف توجہ
دینے کی فرصت ہی نہیں۔ ’’گھر‘‘ ایک مملکت ہے اور اس میں آباد رعایا کی وہ
’’نگران حکومت‘‘ ہے۔ اس رعایا کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت اور بعض دیگر
امور کی وہ براہ راست ’’مسئول‘‘ ہے۔ اسے اتنی فرصت کہاں کہ وہ مردوں کے
ساتھ محنت و مشقت میں شریکِ عمل ہو جائے اور ویسے بھی یہ اس کی طبع و فطرت
کے خلاف ہے۔ ہاں اگر کسی صورت میں ایسا کرنا اس کے لئے ناگزیر ہو جائے تو
بامرِ مجبوری اس کے لئے جائز قرار دیا گیا ہے۔ اس کے لئے صحابیات کی زندگی
مشعلِ راہ ہے۔ صحابیات بھی میدانِ جہاد میں جایا کرتی تھیں۔ ان کا کام
زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا اور زخمیوں کو پانی پلانا تھا۔ ایک دفعہ تو سیدہ
خولہؓ بنت ازور تلوار لے کر میدانِ جنگ میں کُود پڑیں اور کئی کافروں کو
تہِ تیغ کیا۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود پردے کی پابندی کرتی رہی تھیں۔
………………bnb……………… |