زمانہ قدیم سے خواتین پر ہو رہے ظلم اور استحصال کے
خلاف رہ رہ کر آواز اٹھتی رہی ہے اور اپنے حقوق اور انصاف کے لئے خواتین
لڑائیاں بھی لڑتی رہی ہیں ۔ جس میں بڑی کامیابی اس وقت ملی ، جب اقوام
متحدہ نے ان کے ساتھ ہو رہی زیادتیوں اور غیر منصفانہ عمل کو ختم کرنے کے
لئے ہر سال یوم خواتین کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ گزشتہ کئی دہایوں سے اقوام
متحدہ کے اعلان اور کئے گئے فیصلے کے مطابق 8 ؍ مارچ کو عالمی سطح پر یوم
نسواں کا انعقاد ، اس کی اہمیت کے پیش نظرتقریباََ پوری دنیا میں کیا جاتا
ہے ۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مرد اساس ہمارے سماج اور معاشرے
میں خواتین کو جو حقوق اور انصاف ملنا چاہئے تھا ، وہ اب تک نہیں ملا ۔
مردو ں کی برتری حاصل شدہ سماج میں، خواتین کے اندر،اپنے ساتھ ہو رہے ظلم ،
تشدّداور استحصال کے خلاف ،آواز بلند کرنے کی پہلے ہمّت تھی ، نہ حوصلہ تھا
اور نہ ہی جرأت تھی۔لیکن دھیرے دھیرے یہ ضرور ہوا کہ اپنے حقوق کے لئے
خواتین سرگرم عمل ہیں ۔ ورنہ پہلے تو امریکہ جیسے ملک میں خواتین کو ملک کے
اندر ہونے والے انتخاب میں ووٹ دینے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔
8 ؍ مارچ 1857 ہی عالمی سطح پر وہ اہم تاریخی دن ہے ، جب امریکہ کے ایک
کپڑا مِل میں مزدور خواتین نے کام کے اوقات کو 16 گھنٹے سے 10 گھنٹہ کرنے
اور اجرت بڑھانے کے لئے پہلی بار صدائے احتجاج بلند کی تھی . اعتراض اور
احتجاج کا سلسلہ جاری رہا اور آخر کار ان مزدور خواتین کو 1908 ء میں جد و
جہد کا صلہ ملا ۔ 8 ؍ مارچ 1915 کو اوسلو (ناروے) کی عورتوں نے پہلی عالمی
جنگ میں انسانی تباہی و بربادی پر سخت ردّ عمل کا اظہار کیا تھا ۔ 8 ؍مارچ
1917ء کو روسی خواتین نے امن اور بقائے باہمی کے لئے آواز اٹھائی۔ دھیرے
دھیرے یہ 8 ؍مارچ عالمی سطح پر خواتین کے لئے حق ، خود اختیار ی اور عزت و
افتخار کے پیغام کا دن بن گیا اورمسلسل خواتین کے مطالبات نے اقوام متحدہ
کو آخر کار مجبور کر دیا اور اس نے خواتین کے حقوق اور انصاف کے لئے8 ؍
مارچ 1975 ء سے 8؍ مارچ1985 ء تک عالمی خواتین دہائی کا اعلان کیا کہ اس
دہائی میں عالمی سطح پر خواتین کے ساتھ ہو رہے ناروا سلوک ، ظلم ، تشدّد،
بربریت، جنسی استحصال اور نا انصافی کو ختم کرکے انھیں حقوق انسانی کا تحفہ
دینے کے ساتھ ساتھ قومی اوربین ا لاقوامی سطح کی ترقیٔ رفتار میں شامل کیا
جائے ۔ اقوام متحدہ کی ایسی کوششوں سے ترقی یافتہ ممالک میں مثبت نتائج
دیکھنے کو ملے ، لیکن دوسرے بہت سارے ممالک بشمول بھارت میں عالمی خواتین
دہائی بس ایک رسم ادائیگی بھر رہی ۔
حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر خواتین کے حقوق اورانصاف کے لئے گزشتہ
چند دہایوں میں بہت ساری کوششیں ہو ئی ہیں۔ جان اسٹوارٹ مل جیسے مفّکر نے
انسانی آزادی کے تصور کو ظاہر کرتے ہوئے حقوق نسواں کی طرف داری کی اور سچ
کو سچ کہنے کے لئے حوصلہ اور جرأت کو وقت کی ضرورت بتایا تھا۔
1967ء کے بعد 1980 ء میں کوپ ہینگن میں دوسری بین ا لاقوامی خواتین کانفرنس
کا انعقاد کیا گیا اور 1985 ء میں نیروبی میں خواتین کی ترقی کے لئے بہت
ساری پالیسیاں اور حکمت عملی تیار کی گئیں ۔ 1992 ء میں خواتین اور
ماحولیات کا جائزہ لینے کے لئے اس بات کو بطور خاص نشان زد کیا گیا تھاکہ
خواتین اور ماحولیات ، ان دونوں پر تباہی کے اثرات نمایاں ہیں۔ لہٰذا
ماحولیات کے تحفظ میں خواتین کی حصّہ داری کی اہمیت کو بطور خاص سمجھا جائے۔
1993 ء میں یوم خواتین کے موقع پر انسانی حقوق پر منعقدہ، ویاناعالمی
کانفرنس میں حقوق نسواں کے ایشو کو حقوق انسانی کی فہرست میں شامل کیا گیا
اور خواتین پر ہو رہے تشدّد اور استحصال کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کا
اعلان کیا گیا ۔ 1995ء میں منعقد چوتھی عالمی خواتین کا نفرنس میں خواتین
کے وجود اور ترقی میں سدّ راہ بن رہے نکات پر گہری تشویش ظاہر کی گئی اور
ان کے سد باب کے لئے ـ’ پلیٹ فارم برائے ایکشن‘ اپنایا گیا ۔ جس پر پوری
دنیا میں بہت سنجیدگی سے غور و فکر کیا گیا ۔ ایسی تمام کوششوں سے بہت سارے
ممالک میں بہتر نتائج سامنے آئے ، لیکن افسوس کہ بھارت سمیت بہت سے ایسے
ممالک ہیں ، جہاں ان کوششوں کی روشنی ، خواتین کے تئیں سطحی ذہنیت کو بدلنے
میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔
خواتین کے جنسی استحصال کیخلاف سخت سے سخت قوانین بنتے رہے ہیں ، لیکن ان
پر سنجیدگی سے کبھی بھی عمل در آمد نہیں ہو پاتا ، جس کی بنا پر خوف ِ
قوانین ختم ہو چکا ہے ۔ ہماری حکومت اس وقت جاگتی ہے ، جب جلسہ، جلوس ،
احتجاج اور مظاہرے زور پکڑتے ہیں ۔ 1980 ء میں آزاد بھارت میں پہلی بار
خواتین نے متحّد ہو کر متھرا عصمت دری کے خلاف اپنی زبردست طاقت کا مظاہرہ
کیا تھا، جس سے حکومت اور انتظامیہ کو مجبور ہو کر متھرا جنسی زیادتی
معاملہ پر دوبارہ غور کرتے ہوئے سنوائی کرنا پڑی تھی، ساتھ ہی ساتھ عصمت
دری سے متعلق قوانین میں ترمیم کے لئے بھی مجبور ہونا پڑا تھا۔ جو یقیناََ
بھارت کی خواتین کے اتحاد اور جد و جہد کی بڑی کامیابی تھی۔ لیکن ان تمام
کوششوں اور قوانین کے باوجود عصمت دری کے واقعات میں کوئی کمی واقع نہیں
ہوئی ۔ جنسی زیادتی کی شکار عورتوں اور بچّیوں کا مستقبل کس قدر تاریک ہو
جاتا ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایسی لڑکیا ں عام
طور پرموت کو گلے لگانے کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں اور جو کسی وجہ کر خودکشی
نہیں کر پاتی ہیں ، وہ زندگی بھر ،بے حِس سماج میں بے وقعت اور ذلّت بھری
زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں ۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ زانی لڑکیوں کو
اپنی ہوس کا شکار بنانے کے بعد اسے بہت بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیتا
ہے۔ دلی کی نربھیا اور کٹھوعہ (کشمیر) کی عاصفہ وغیرہ کے سانحات ان دنوں
عام ہیں ۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ خواتین کے تئیں اب وہ رویۂ نہیں
رہا جو پہلے تھا ۔ اب زندگی کے ہر شعبۂ میں خواتین اپنے وجود اور اپنی
اہمیت کا احساس کر ا رہی ہیں، لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ خواتین کا شعبٔہ
حیات مختلف طور پر استحصال ہو رہا ہے ۔ خواہ وہ دفاتر ہوں ، فلمی دنیا ہو،
کھیل ،ادب و آرٹ کا میدان ہو یا سیاسی و صحافتی دنیا ہو یا جنگی حالات
ہوں،مٹھ یاآشرم ہوں یا پھر لڑکیوں کے شیلٹر ہوم ہی کیوں نہ ہو ۔ ان تمام
شعبوں میں خواتین کے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کے جیسے جیسے سانحات سامنے آ
ئے ہیں ، وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں ۔ حال ہی میں کچھ آشرموں کے اور
پھر بہار کے مظفرپور کے شیلٹر ہوم میں معصوم بچیوں کے ساتھ کئے جانے والے
سلوک کا پردہ فاش ہوا ہے ، اس نے تو انسانیت کو بھی شرم سار کر دیا ہے ۔
ابھی حالیہ دنوں میں جس طرح ’ می ٹو ‘ مہم کے تحت خواتین نے اپنے ساتھ ہونے
والی جنسی زیادتیوں کو اجاگر کیا ہے، اس تحریک نے اچھے اچھوں کی پول کھول
دی ہے ۔ یہاں تک کہ سب کی پول کھولنے والے صحافی رہ چکے اور وزارت کی کرسی
پر براجمان ایم جے اکبر کو اسی جرم میں اپنی وزارت کرسی بھی گنوانی پڑی۔
سیاسی سطح پر تہلکہ مچانے والے صحافی ترون تیج پال کا پورا کیرئر اسی بنیاد
پر تباہ ہو گیا اور ابھی تک وہ جیل میں سڑ رہے ہیں ۔چند ماہ قبل 2018 ء کا
نوبل امن انعام کی وجہ بھی خواتین کے ساتھ بڑھتے ظلم اور جنسی تشدد ہی بنا
ہے ۔ 2018 ء کا نوبل امن انعام دو ایسی شخصیتوں کو ملا ہے ، جنھوں نے جنگ
کے حالات میں جنسی مظالم اور استحصال کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے
خلاف آواز بلند کی ہے ۔ ان میں کانگو سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ڈینس مکویگے
اور دوسری شخصیت نادیہ مراد ہیں ، جو عراق کی شہری ہیں اور جرمنی میں قیام
پزیر ہیں ۔ 2014 ء میں داعش جنگجو ؤں نے نادیہ کے ساتھ تین ماہ تک جنسی
تشدد اور ظلم کرتے رہے ، بڑی مشکلوں سے وہ اس قید و بند سے آزاد ہونے میں
کامیاب ہوئیں ۔ ان پر ہونے والے جنسی تشدد کو بی بی سی کی ایک فارسی زبان
کی نامہ نگار نفیسہ کہن ورد نے بے نقاب کیا ۔ جنسی استحصال کی شکار نادیہ
اور صحافی نفیسہ نے جنگی حالات میں خواتین پر ہونے والے جنسی تشدد اور
بربریت کے خلاف تحریک چلائی۔ اس دونوں کی دلیرانہ کوششوں سے عالمی سطح پر
جنگ کے دوران ہونے والے جنسی ظلم و تشدد کے خلاف مؤثر رائے عامّہ تیار کرنے
میں مددملی اور آخر کار ان مظالم کی شکار ہونے والی اس خاتون کو امن کے لئے
نوبل انعام کا مستحق سمجھا گیا ۔
زمانے کی ستائی جانے والی خواتین کے لئے ، میروالا،پاکستان کی بہادر ،
جانباز ، جرأت مند اور حوصلہ مند مختارن مائی اور جہادی عورت کی علامت بن
کر سامنے آتی ہے ۔جو پوری دنیا کی دبی کچلی اور نا خواندہ عورتوں کی نگاہوں
کی مرکز بنی ہوئی ہے۔ عالمی یوم خواتین 2019 ء کے موقع پراقوام متحدہ نے
2030ء تک خواتین کو برابری کا حق دئے جانے، انھیں شانہ بہ شانہ نئی راہ
دکھاتے ہوئے دنیا کے سامنے اسمارٹ بنا نے میں تعاون دئے جانے کا ہدف رکھا
ہے ۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اس ہدف کو پورا کرنے میں سماج کے ہر طبقہ کا
تعاون ملے گا اور بقول علّامہ اقبال ہم یہ کہہ سکیں گے کہ
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
|