ریموٹ کس — محبت کی آڑ میں ٹیکنالوجی کا نیا فتنہ

دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، اور انسان بھی۔ کبھی ہم چاند پر پہنچنے کو انسانی کامیابی سمجھتے تھے، آج محبت بھی مصنوعی بن چکی ہے۔ چین کے ایک ادارے نے حال ہی میں ایک ایسی ایجاد متعارف کرائی ہے جسے ”ریموٹ کس“ یا ”لانگ ڈسٹنس کسنگ ڈیوائس“ کہا جاتا ہے۔ جی ہاں، اب آپ اپنے محبوب کو ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی ”چوم“ سکتے ہیں — موبائل فون کے ذریعے۔

یہ ایجاد بظاہر ایک چھوٹا سا آلہ ہے، جس پر نرم ربڑ کے ہونٹ لگے ہیں۔ اسے فون سے جوڑا جاتا ہے، اور ایک موبائل ایپ کے ذریعے دونوں فریق اپنے جذبات کا ”دباو¿، درجہ حرارت اور حرکت“ ایک دوسرے کو بھیج سکتے ہیں۔ یعنی ایک مکمل ”ڈیجیٹل بوسہ“۔چین کے Changzhou Vocational Institute of Mechatronic Technology کے طلبا نے یہ ایجاد متعارف کراتے ہوئے کہا کہ مقصد دور دراز محبت کرنے والے جوڑوں کے لیے قربت کا احساس پیدا کرنا ہے۔ لیکن دراصل یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو انسانی رشتوں کو ”مشین“ میں تبدیل کر رہی ہے۔

اسلامی معاشرت میں محبت پاکیزگی، احساس، قربت اور ذمہ داری کا مجموعہ ہے۔ یہ جذبات نکاح کے دائرے میں رہ کر اظہار پاتے ہیں۔ مگر جب محبت کو ربڑ، سینسر اور ایپ میں قید کر دیا جائے تو پھر انسان اور روبوٹ میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ریموٹ کس صرف ایک آلہ نہیں، یہ ایک نیا رجحان ہے۔ ایک ایسی دنیا کا دروازہ کھل رہا ہے جہاں جذبات مصنوعی ہیں، لمس مصنوعی ہے اور شاید ایک دن ”رشتے“ بھی مصنوعی ہو جائیں۔ ہم پہلے ہی ”ڈیجیٹل محبت“، ”آن لائن شادی“ اور ”ورچوئل ریلیشنز“ کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ اب یہ ایجاد ہمیں مکمل طور پر مشینوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گی۔

اسلام نے ہمیں توازن سکھایا۔ محبت کی اجازت دی، مگر حدود کے ساتھ۔قرآن کہتا ہے: "اور زنا کے قریب بھی نہ جاو، بے شک وہ بے حیائی اور بری راہ ہے۔" (سور السرائ : 32) یہ آیت یاد دلانے کے لیے کافی ہے کہ اسلام نے نیت، نظر اور لمس تینوں میں پاکیزگی کا حکم دیا ہے۔ اب اگر ایک نوجوان لڑکا یا لڑکی موبائل پر کسی نامحرم سے ”ریموٹ کس“ کرے تو کیا یہ گناہ نہیں؟ کیا یہ شرم و حیا کے خلاف نہیں؟ مغربی دنیا پہلے ہی ان چیزوں کو ”روایتی“ سمجھ کر مسترد کر چکی ہے۔ اب وہی نظریہ مشرق میں داخل ہو رہا ہے — کہ جسمانی قربت کو بھی ایپ میں سمو دیا جائے۔ مگر جب محبت کا مفہوم صرف ”لمس“ تک محدود ہو جائے تو پھر روحانی رشتہ ختم ہو جاتا ہے۔

ٹیکنالوجی کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ انسان کو سہولت کے ساتھ عادت بھی لگا دیتی ہے۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ مصنوعی قربت انسان کے دماغ کو ”ڈوپامین“ کی جھوٹی خوشی دیتی ہے، جس سے انسان حقیقی محبت سے دور ہوتا جاتا ہے۔یعنی آج ہم جس ”ریموٹ کس“ کو مذاق سمجھ رہے ہیں، وہ کل کی ”ڈیجیٹل لت“ بن سکتی ہے۔ لوگ محبت نہیں، اس کا ”احساس“ خریدنے لگیں گے۔ کوئی ”ایپ“ بیچنے والا ہمارے جذبات کا تاجر بن جائے گا۔ یہی وہ لمحہ ہوگا جب انسان ”محبت“ نہیں کرے گا، بلکہ ”پروگرام“ کرے گا۔ ثقافتی یلغار — جب شرم و حیا کو پرانا فیشن سمجھا جائے

ہماری مشرقی تہذیب میں حیا عورت کی زینت اور مرد کا وقار ہے۔ مگر اب جو نئی نسل بڑھ رہی ہے، وہ سمجھتی ہے کہ اظہارِ محبت کا مطلب کھلے عام ویڈیو بنانا، ”آن لائن رومانس“ دکھانا یا اب شاید ”ریموٹ بوسہ دینا“ ہے۔ ذرا سوچیں، کل اگر کوئی بچہ اپنے والد سے کہے: “ابو! میں نے اپنی کلاس فیلو کو ریموٹ کس بھیجی ہے” تو والدین کے پاس جواب کیا ہوگا؟ یہی وہ لمحہ ہے جہاں تہذیب دم توڑتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں پہلے ہی موبائل، ٹک ٹاک، فیس بک اور انسٹاگرام نے حیا کو تماشا بنا دیا ہے۔ اب اگر اس میں ”ریموٹ بوسہ“ کا اضافہ ہو جائے تو باقی کیا بچے گا؟

یہ مغرب کا تحفہ نہیں، ایک چال ہے یہ محض ایک ایجاد نہیں، ایک نظریاتی حملہ ہے۔ مغرب نے صدیوں پہلے جسمانی آزادی کو ترقی کا نام دیا، اور اب وہ چاہتا ہے کہ باقی دنیا بھی اسی دلدل میں اتر جائے۔پہلے ہم نے فیشن، موسیقی اور فلموں میں مغرب کی تقلید کی۔ اب محبت اور اخلاقیات میں بھی وہی راستہ اپنا رہے ہیں۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ محبت عبادت ہے، فحاشی نہیں۔ نکاح قربت کا ذریعہ ہے، ایپ نہیں۔جذبات کو دل سے جیتا جاتا ہے، مشین سے نہیں۔ احتیاط ضروری ہے — ایمان وائی فائی پر نہیں چلتا

ہم اکثر کہتے ہیں کہ ”ٹیکنالوجی بری نہیں، انسان کا استعمال برا ہوتا ہے“۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی استعمال کرنا جانتے ہیں؟ ہم نے موبائل کو بھی عبادت سے زیادہ اہم بنا لیا ہے۔ اب اگر محبت بھی فون کی ایپ میں سما گئی تو ایمان کہاں جائے گا؟ ایک وقت تھا کہ لوگ ”پیار“ کے لیے صبر کرتے تھے، اب وہ ”ڈیجیٹل محبت“ ڈاون لوڈ کرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ چہرہ دیکھنے کے لیے نکاح ہوتا تھا، اب صرف ”ویڈیو کال“ کافی ہے۔اور اب، صرف ایک ربڑ کے ہونٹوں سے ”قربت“ محسوس کر لی جائے گی۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں انسان اپنی روح سے خالی ہو جاتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو صرف ٹیکنالوجی کے استعمال نہیں، اس کی حدود بھی سکھائیں۔ جدید ایجادات کو اپنانا برا نہیں، مگر ہر ایجاد کو قبول کرنا بھی ترقی نہیں۔ اگر ہم نے ریموٹ کس جیسے ”معصوم تجربے“ کو مذاق میں لیا تو کل ”ورچوئل نکاح“ اور ”ڈیجیٹل طلاق“ کے دور کے لیے تیار رہیں۔ اسلامی معاشرہ صرف عبادت سے قائم نہیں رہتا، اقدار سے بھی قائم رہتا ہے۔ اور جب اقدار ختم ہو جائیں تو عبادت بھی صرف رسم رہ جاتی ہے۔

یہ ایجاد نہیں، انتباہ ہے ریموٹ کس ایک ایجاد ضرور ہے، مگر اس کے اندر چھپا خطرہ بڑا ہے۔ یہ صرف محبت کا نہیں، تہذیب کا امتحان ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اپنے جذبات کو مشین کے حوالے کرنا چاہتے ہیں یا دل کے۔ محبت اگر مصنوعی ہو جائے، تو معاشرہ حقیقی نہیں رہتا۔اور اگر ایمان مشین سے جڑ جائے، تو انسان باقی نہیں رہتا۔ ریموٹ کس — ٹیکنالوجی کا نیا فتنہ، جس سے ہمیں صرف ہنسنا نہیں، بچنا بھی ہے۔

#kikxnow #remotekiss #musarratullahjan #islam #life #culture


 

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 841 Articles with 689633 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More