تعلیم نفسیات اور سماجی دباو

تعلیم، نفسیات اور سماجی دباؤ
---------------------------------------------
موجودہ دور میں تعلیم محض علم کی فراہمی کا ذریعہ نہیں بلکہ سماجی تشکیل، شخصیت کی تعمیر اور فکری بلوغت کا بنیادی وسیلہ بن چکی ہے۔ تاہم جدید تعلیمی نظام کے اندر نفسیاتی دباؤ ایک بڑھتا ہوا بحران بن چکا ہے جو نہ صرف طلبا بلکہ اساتذہ اور مجموعی تعلیمی ماحول پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں یہ مسئلہ ایک سنگین سماجی و نفسیاتی چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے، جس کے مضمرات فرد اور معاشرے دونوں کی فکری صحت کے لیے تشویشناک ہیں۔
جدید تعلیم جہاں فکری ترقی، مسابقت اور کارکردگی کی بنیاد پر کامیابی کے مواقع فراہم کرتی ہے، وہیں اس نے کامیابی کے سخت اور غیر انسانی پیمانے بھی قائم کر دیے ہیں۔ امتحان زدہ نظام، گریڈز کی دوڑ، والدین کی بلند توقعات اور سماجی موازنہ نے طلبا کی ذہنی سلامتی کو شدید متاثر کیا ہے۔ مختلف تحقیقی مطالعات کے مطابق، پاکستانی تعلیمی اداروں میں تقریباً ساٹھ فیصد طلبا کسی نہ کسی درجے کے ذہنی دباؤ یا اضطراب میں مبتلا ہیں۔ یہ اعداد و شمار محض انفرادی کمزوری نہیں بلکہ اس نظامِ تعلیم کی ساختی خرابیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو انسانی جذبات کے بجائے محض عددی کارکردگی کو ترجیح دیتا ہے۔
اس نفسیاتی بحران کے اثرات تعلیمی کارکردگی سے آگے بڑھ کر طلبا کی شخصیت، خود اعتمادی اور تخلیقی صلاحیت پر بھی گہرے نقوش چھوڑتے ہیں۔ تعلیمی کامیابی کو اگر معاشرتی قبولیت کا واحد ذریعہ سمجھا جائے تو نوجوان نسل احساسِ ناکامی، خود کم قدری اور مایوسی میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ یہی کیفیت وقت کے ساتھ ذہنی تھکن میں تبدیل ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں تعلیم بوجھ بن جاتی ہے، نہ کہ سیکھنے کا خوشگوار عمل۔
اساتذہ کا کردار اس پورے تناظر میں نہایت اہم ہے۔ وہ نہ صرف علم کے نگران ہیں بلکہ طلبا کی فکری و جذباتی نشوونما کے معمار بھی ہیں۔ تاہم متعدد مطالعات سے معلوم ہوتا ہے کہ خود اساتذہ بھی مسلسل دباؤ، کم مراعات، اور پیشہ ورانہ عدم اطمینان کے باعث "Burnout Syndrome" کا شکار ہیں۔ ایسے ماحول میں تدریس محض رسمی فریضہ بن جاتی ہے اور وہ انسانی ربط، ہمدردی اور رہنمائی جو تعلیم کا روحانی جوہر ہے، کمزور پڑ جاتا ہے۔ نتیجتاً تعلیمی اداروں میں جذباتی ہم آہنگی کی کمی اور بے حسی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔
پاکستانی تعلیمی اداروں میں نفسیاتی مشاورت (Psychological Counseling) کے فقدان نے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ بیشتر اسکولوں اور جامعات میں نہ تو مستقل ماہرینِ نفسیات موجود ہیں اور نہ ہی مؤثر "کاؤنسلنگ سیل" قائم ہیں۔ نتیجتاً طلبا کے نفسیاتی مسائل کو نظم و ضبط کی خرابی یا محض سستی سمجھ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں "Student Counseling Centers" طلبا کو نہ صرف نفسیاتی مدد فراہم کرتے ہیں بلکہ ان کے لیے جذباتی تحفظ کا احساس بھی پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس پہلو پر توجہ دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
ڈیجیٹل عہد نے اس بحران کو ایک نئے رُخ پر ڈال دیا ہے۔ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز نے کامیابی، خوبصورتی اور مقبولیت کے ایسے مصنوعی معیار قائم کر دیے ہیں جن سے نوجوان نسل کا مسلسل تقابل انہیں ذہنی دباؤ اور احساسِ محرومی میں مبتلا کر رہا ہے۔ کووِڈ-19 کے دوران آن لائن تعلیم کے تجربے نے اس تنہائی اور بے اطمینانی کی فضا کو مزید بڑھایا۔ ایک تحقیق کے مطابق، طلبا کی اکثریت نے آن لائن کلاسز کے دوران خود کو "disconnected" اور "emotionally drained" محسوس کیا، جو تعلیم میں انسانی ربط کے بحران کی علامت ہے۔
سماجی اور خاندانی سطح پر بھی اس مسئلے کے اسباب نمایاں ہیں۔ والدین کی جانب سے پیشوں اور مضامین کے انتخاب پر دباؤ، معاشرتی توقعات اور معاشی دوڑ نے تعلیم کے اصل مقصد کو مسخ کر دیا ہے۔ کامیابی کا معیار جب صرف مالی یا ظاہری کامیابی تک محدود ہو جائے تو نوجوان اپنی فطری صلاحیتوں کے اظہار سے محروم رہ جاتے ہیں۔ نتیجتاً وہ ذہنی اور جذباتی خلفشار میں مبتلا ہو کر خود تباہی کے راستے اختیار کر لیتے ہیں۔ مختلف کیس اسٹڈیز میں خودکشی جیسے واقعات اس المیے کی شدت کو آشکار کرتے ہیں۔
اس بڑھتے ہوئے بحران کے حل کے لیے محض نصاب میں تبدیلی کافی نہیں، بلکہ ایک جامع سماجی و تعلیمی اصلاحی عمل درکار ہے۔ ہر تعلیمی ادارے میں تربیت یافتہ ماہرینِ نفسیات کی تعیناتی، اساتذہ کے لیے "mental health training programs"، اور طلبہ کے لیے باقاعدہ رہنمائی و مشاورت کے مراکز قائم کیے جانے چاہییں۔ ساتھ ہی نصاب میں ایسے مضامین شامل کیے جائیں جو جذباتی ذہانت ، خود آگہی، اور سماجی ہمدردی کو فروغ دیں۔
لہذا تعلیم کا مقصد محض امتحانی کامیابی نہیں بلکہ ایک بااعتماد، متوازن اور باشعور انسان کی تشکیل ہے۔ جب تک ہم ذہنی سکون، جذباتی توازن، اور سماجی ہم آہنگی کو تعلیم کا لازمی جزو نہیں بناتے، ہماری تعلیمی کامیابیاں محض سطحی رہیں گی۔ حقیقی تعلیم وہ ہے جو فرد کو خودی، شعور اور سکونِ قلب عطا کرے ، یہی وہ تعلیم ہے جو سماج میں فکری استحکام اور انسانی خوشحالی کی ضمانت بن سکتی ہے۔

 

Dr Saif Wallahray
About the Author: Dr Saif Wallahray Read More Articles by Dr Saif Wallahray: 16 Articles with 4727 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.