پاکستان سمیت دنیا بھرمیں خواتین کاعالمی دن آج 8 مارچ کو
منایاجارہاہے، اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کی اہمیت کو تسلیم کرنا اوران
کے حقوق سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔خواتین جو کہ انسانی آبادی کا نصف
حصہ ہیں، انہیں ہمارے معاشرے میں عام طور پر صنف نازک کہا اور سمجھا جاتا
ہے،آج کے جدید دور میں بھی کارو کاری، وٹہ سٹہ، ونی اور ستی جیسے جاہلانہ
رواج عروج پر ہیں، جہاں عورت کو حقیر اور کم تر سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں
گزشتہ تین برسوں میں قانون سازی کی گئی ہے۔خواتین نے دنیا کے ہر میدان میں
مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کرکے ثابت کیا ہے کہ ان کی شمولیت کے بغیرکوئی
بھی معاشرہ ترقی کی راہ پرگامزن نہیں ہوسکتا۔ خواتین کی معاشرے میں اسی
اہمیت کواجاگرکرنے کے لیے دنیا بھرمیں سیمینارز،کانفرنسیں،ریلیاں ہو رہی
ہیں۔خواتین کے حقوق کا عالمی دن منانے کا مقصد ان بہادرخواتین کو خراج
تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے اپنے حقوق کے حصول کی جنگ لڑی آج سے تقریباً سو
سال قبل نیو یارک میں کپڑا بنانے والی ایک فیکٹری میں مسلسل دس گھنٹے کام
کرنے والی خواتین نے اپنے کام کے اوقات کار میں کمی اور اجرت میں اضافہ کے
لیے آواز اٹھائی تو ان پر پولیس نے نہ صرف وحشیانہ تشدد کیا تھا بلکہ ان
خواتین کو گھوڑوں سے باندھ کرسڑکوں پرگھسیٹا بھی گیا تاہم اس بد ترین تشدد
کے بعد بھی خواتین نے جبری مشقت کے خلاف تحریک جاری رکھی۔خواتین کی مسلسل
جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے نتیجے میں 1910 میں کوپن ہیگن میں خواتین کی
پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوتی ہے، جس میں 17 سے زائد ممالک کی سو کے قریب
خواتین نے شرکت کی۔اس کانفرنس میں عورتوں پر ہونے والے ظلم واستحصال کا
عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ
اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھرمیں، ترقی یافتہ اورغیر ترقی یافتہ ممالک کی
درجہ بندی سے قطع نظر ہر تین میں سے ایک عورت کسی نہ کسی قسم کے ذہنی، جنسی
یا جسمانی تشدد کا شکار ہے اوریہی خواتین کے بے شمار طبی و نفسیاتی مسائل
کی وجہ ہے۔اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں
خواتین کے خلاف جرائم بشمول تشدد و زیادتی کے واقعات رپورٹ ہونے کی تعداد
میں تشویش ناک اضافہ ہوا ہے۔پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کی جانے
والی قانون سازی ہمیشہ سے ایک مشکل مرحلہ رہی ہے اور اس کی سب سے بنیادی
وجہ مذہبی حلقوں کی مخالفت بتایا جاتا ہے‘ سن انیس سو تہتر کے ا?ئین میں
غیرت کے نام پر قتل اور خواتین پر جنسی تشدد کو روکنے کی پہلی کوشش 43 سال
بعد کامیاب ہوسکی۔غیرت کے نام پر قتل فساد فی الارض تصور ہوگاکم عمری میں
شادی کی روک تھام کے قانون کے مطابق جرم میں شریک ملزمان کو تین سال تک کی
قید اور 45 ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ سنائی جاسکتی
ہیں۔خواتین پر گھریلو تشدد، معاشی استحصال، جذباتی اور نفسیاتی تشدد،
بدکلامی اورسائبرکرائمز سے تحفظ دینے کا بل بھی منظور ی پا چکا ہے۔ خواتین
کے تحفظ کا بل منظورہو چکا ہے۔ خواتین کو جسمانی ‘ جنسی ذہنی یا معاشی
استحصال کا نشانہ بنانے والے شخص کے لیے جرم کی نوعیت کے حساب سے سزائیں
متعین کی گئی ہیں یہاں تک کہ پروٹیکشن آفیسر کو اس کے کام سے روکنے کی صورت
میں بھی چھ ماہ کی قید ہوسکتی ہے۔قانون سازی توہورہی ہے اورانسانی حقوق کی
تنظیمیں بھی آواز اٹھارہی ہیں لیکن اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت
اورخواتین کے حقوق سے جڑے تمام افراد یہ طے کریں کہ خواتین کے حقوق سلب نہ
کیے جائیں ‘ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے عوام میں آگاہی پھیلائی جائے۔
خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا جائے‘ مردوں کو یہ بات باور کرائی جائے
کہ ہمارے معاشرے میں موجود خواتین ہمارے برابرکی انسان ہیں اور اتنے ہی
حقوق رکھتی ہیں جتنے ہم رکھتے ہیں۔یاد رکھیے کہ ایک آزاد‘ خود مختار اور
مستحکم ماں ہی ایک آزاد‘ خود مختار اورمستحکم معاشرے کی تعمیر کرسکتی ہے
اور آج عورتوں سے ان کے حقوق چھیننے کا مطلب ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں سے
جینے کا حق چھین رہے ہیں۔معاشرے میں خواتین کو مقام کی اہمیت کو کھلے دل،
کھلے ذہن سے تسلیم کرنا ہوگا، ان ہاتھوں کو روکنا ہوگا جو خواتین پر تشدد
کرتے ہیں، ان جاہلانہ رسم و رواج کیخلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا جس سے ناصرف
ہمارا ملک بلکہ اسلام بھی بدنام ہورہا ہے، حکومت سنجیدگی سے نئے قانون
بنانے اور بنے ہوئے قوانین پر عملدرآمدیقینی بنا ئے۔ |