خوبصورتی کے نام پر لاہور کا حُسن تباہ

حسیب اعجازعاشرؔ
لاہور۔ یہ نام سنتے ہی دل کے دریچوں میں روشنیوں کا ہالہ اُتر آتا ہے۔رنگوں کی چمک، ثقافت کی خوشبو،ذائقوں کی مٹھاس،اور محبت و مروّت کی نرم سی آہٹ فضا کو مہکا دیتی ہے۔یہ شہر اپنی مٹی میں اپنائیت کی وہ گرمی رکھتا ہے،جو ہر مسافر کو اپنا بنا لیتی ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر گلی مسکرا رہی ہے،ہر درخت بانہیں پھیلائے ایستادہ ہے،ہر پھول اپنے رنگ میں خوش آمدید کہہ رہا ہے۔مگر افسوس،رفتہ رفتہ حکومت کی پالیسیوں اور مصنوعی تزئین کے شور نے اس شہرِ دلآویز کے خمیر سے وہ قدرتی سچائی چھین لی ہے،جو کبھی اس کا اصل حُسن تھی۔آج بھی رنگ بکھیرے جا رہے ہیں،روشنیوں کی قوسِ قزح سجی ہوئی ہے،مگر ان میں وہ کشش، وہ سچائی، وہ رُوح باقی نہیں رہی جو کبھی لاہور کے چہرے پر نور بن کر چمکتی تھی۔یوں لگتا ہے جیسے خوبصورتی نے حقیقت کا لباس اتار کردکھاوے کی ملمع کاری اوڑھ لی ہو۔
قارئین کرام:گزشتہ برسوں میں شہر کو خوبصورت بنانے کے نام پر جو مہمات چلائی گئیں، وہ دراصل حسن کو سمجھنے کی ناکام کوششیں لگتی ہیں۔ خوبصورتی صرف نیا پینٹ، نئی لائٹس یا چند گملوں کا نام نہیں۔ خوبصورتی وہ احساس ہے جو انسان کے دل کو خوش کر دے، جو فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو، جو وقت کے ساتھ قائم بھی رہے۔ منصوبے بنتے ہیں، بجٹ خرچ ہوتا ہے، فیتہ کٹتا ہے اور چند ماہ بعد سب کچھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ کوئی دیکھ بھال نہیں، کوئی ذمہ داری نہیں، کوئی تسلسل نہیں۔ یہی اصل المیہ ہے۔پہلے تحریک انصاف کی بزدار حکومت آئی تو اُس نے اپنی ترجیحات ہی بدل لیں۔ سابقہ منصوبہ جات کو مٹا دینا پالیسی پر غالب رہا یوں لاہور کی خوبصورتی کسی تسلسل کے بجائے سیاست کی نذر ہو گئی۔شاہراؤں، پُلوں، پر سے گملوں اور پودوں کا ہٹایاگیا، جو رہ گئے وہ عدم توجہی کے باعث رفتہ رفتہ مٹی میں مٹی ہو گئے۔ سڑکیں گلیاں توڑ پھوڑ کا شکار ہوئیں، صفائی کا نظام دھرم بھرم کیا گیا، پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی نظرانداز کیاگیا۔سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کی عدم دستیابی معمول بن چکی تھی۔
خوبصور تی کی نام پر لاہور کے حُسن کی تباہی کا منصوبہ کسی نہ کسی صورت میں اب بھی کام کرتا دیکھائی دے رہا ہے۔محسن نقوی کی وزراتِ اعلیٰ میں لاہور کے انڈر پاسز کی کتیر رقم سے تزئین نو کے نام پر جو کام ہوا، وہ بھی اسی رویے کی ایک مثال ہے۔ کہا گیا کہ انڈر پاسز کو نیا رنگ دیا جائے گا، لائٹس لگائی جائیں گی، اور شہر کو ایک نیا چہرہ دیا جائے گا۔پہلے روز یہ تبصرے زیرگردش رہے کہ یہ لائیٹس سے انڈرپاسز کی خوبصورتی کو بڑھاناکوئی دیرپا منصوبہ نہیں۔ پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ کہ انڈر پاسز میں لگائی گئی لائٹس اب یا تو بجھ چکی ہیں یا ٹوٹی ہوئی لٹک رہی ہیں۔ کئی جگہوں پر تو بجلی کے تاریں ہی غائب ہیں۔صورتحال دے بدترین ہوچکی ہے۔ گویا خوبصورتی کے نام پر ہم نے صرف دکھاوے کا بوجھ بڑھایا ہے۔اب جب عوام سوال کرے گی کہ ”کیا تیرے باپ کا پیسہ تھا؟“تو برا لگے گا۔ یہ المیہ محض لاہور تک محدود نہیں،بلکہ ہمارے پورے انتظامی اور فکری نظام کا آئینہ دار ہے۔ہم منصوبے تو جوش و جذبے سے بنا لیتے ہیں،مگر ان کی نگہداشت، دیکھ بھال اور پائیداری کا کوئی بندوبست نہیں کرتے۔نہ کوئی طے شدہ مینٹیننس پلان،نہ ذمے دار ادارہ،نہ کسی سے بازپرس کا امکان۔چنانچہ چند ہی مہینوں میں اربوں روپے کے منصوبے زوال اور بربادی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ہمارے حکمرانوں کو یہ حقیقت سمجھنا ہوگا کہ ترقی کا مفہوم صرف نئے منصوبے تخلیق کرنے میں نہیں،بلکہ موجودہ اثاثوں کو قائم و دائم رکھنے میں پوشیدہ ہے۔خوبصورتی ہمیشہ سادگی میں پنہاں ہوتی ہے۔لاہور جیسے تاریخی شہر کے لیے مصنوعی چمک دمک نہیں،بلکہ اس کی تہذیبی اور ثقافتی پہچان کو اجاگر کرنے والی سادگی درکار ہے۔اگر یہی ذمہ داری نوجوان فائن آرٹس کے طلبا و طالبات اور مقامی مصوّری و پینٹ کمپنیوں کے سپرد کی جاتی اور اگر یہ کام رضاکارانہ جذبے کے ساتھ انجام پاتا تو کروڑوں کے وسائل بچ سکتے تھے،اور لاہور کے انڈر پاسز حقیقی معنوں میں ٹرک آرٹ، خطاطی، اور ثقافتی فن کے شاہکار بن سکتے تھے۔افسوس کہ ہم نے آرٹ کو آرائش سمجھ لیا ہے۔اور یہی وہ خطا ہے جو ہم بارہا دہرا رہے ہیں۔اگر انڈر پاسز کی دیواروں پرپنجابی شاعری کے چند مصرعے تحریر کر دیے جائیں،یا پرانی عمارتوں کے خاکے و نقش ابھارے جائیں،تو یہ نہ صرف جمالیاتی حسن میں اضافہ کرے گا،بلکہ اہلِ شہر کو اپنی مٹی، اپنی زبان،اور اپنی تاریخ سے جوڑنے کا ذریعہ بھی بنے گا۔یہی وہ سادگی ہے جس میں تہذیب کا وقار پوشیدہ ہے،اور یہی وہ فن ہے جو آرائش نہیں شناخت بن جاتا ہے۔
مزید سنیئے:مریم نواز کے عہدِ حکومت میں لاہور کی شاہراہوں، خصوصاً فیروزپور روڈ اور اس سے متصل راستوں پر،موٹر بائیکس کے لیے گرین بیلٹ کے نام پر جو تبدیلیاں کی گئیں، وہ عوام کی آسودگی نہیں بلکہ آزمائش کا سبب بن گئیں۔جہاں پہلے گاڑیاں رواں تھیں اور گزرگاہیں کشادہ، وہاں اب ناقص منصوبہ بندی کے زیرِ اثر بلاکس کی پارٹیشنیں اور بے ربط رکاوٹیں یوں نصب کر دی گئیں کہ نہ رفتار باقی رہی نہ سہولت۔یہ انتظامات، سہولت کے بجائے اذیت کا سامان بنے۔ایمرجنسی گاڑیوں کے لیے راستے تنگ ہوئے،پبلک ٹرانسپورٹ کے پک اینڈ ڈراپ مقامات پر خلل پیدا ہوا،اور رش کے اوقات میں ٹریفک کا نظام یوں درہم برہم ہوا،گویا شہر کی سانسیں بھی کسی انجانی گرفت میں آگئیں۔اور پھر وہی ہوا کہ جس پر سوشل میڈیا پر بحث چل رہی تھی،پہلی ہی تیز بارش نے سبز رنگ کی سجاوٹ کو بہا لے گئی،وہ رنگ جو چند دن پہلے تک ”خوبصورتی“ کے نام پر شاہراہوں پر بکھیر دیا گیا تھا،بارش کی چند بوندوں کے سامنے اپنی اصلیت دکھا گیا۔اب اگر عوام نے سوال کیا تو سرکار کو گراں گزرتا ہے،مگر سوال تو بہرحال باقی ہے کہاگر منصوبہ عوام کے لیے تھا تو آسانی کہاں ہے؟خیر، دیر آید درست آید،بارش نے کچھ کو خود ہی بے نقاب کر دیااور کچھ راستے اربابِ اختیار کو ہوش آ جانے کے بعدپارٹیشنوں سے صاف کر دیے گئے۔اب بھی وقت ہے کہ شاہراہوں کو عقل و تدبیر کے ساتھ منظم کیا جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون سازی کے ساتھ عملدرآمد بھی یقینی بنایا جائے،اور ایسا نظام قائم ہو کہ موٹر بائیک اور سائیکلیں انتہائی بائیں طرف چلنے کی پابند ہوں،تاکہ رفتار، حفاظت اور نظم،تینوں ہم قدم رہیں،اور لاہور کی شاہراہیں پھر سے وہی کشادگی اور ترتیب حاصل کر سکیں جو کسی مہذب شہر کی پہچان ہوتی ہے۔
اب ذرا بیجنگ انڈر پاس کی مثال لیجیے۔جہاں خوبصورتی اور سہولت کے نام پر جو انتظامات کیے گئے، وہ دراصل مشکلات کا نیا باب کھول گئے۔انڈر پاس کے دونوں اطراف ایمرجنسی پارکنگ زون ختم کر دیے گئے،اور ان کی جگہ ہریالی کے نام پر پودے لگا کر دیوار نما پارٹیشنز قائم کر دی گئیں۔نتیجہ یہ کہ اگر خدانخواستہ کوئی گاڑی خراب ہو جائے،یا کسی ایمبولینس کو گزرنے کے لیے جگہ درکار ہو،تو پورا راستہ جام ہو جاتا ہے،گویا وہی سہولت جو شہریوں کی آسانی کے لیے تھی، اب ان کے لیے اذیت کا سبب بن گئی ہے۔اکثر اوقات لوگ اپنی خراب موٹر سائیکلوں کوٹریک کے عین درمیان گھسیٹتے نظر آتے ہیں،جبکہ رکشے اور گاڑیاں بیچ سڑک میں کھڑی ہو کرپورے ٹریفک کے بہاؤ کو مفلوج کر دیتی ہیں۔یوں نظم و ضبط کا وہ تصور جو کسی بھی بڑے شہر کا حسن ہوتا ہے،بدنظمی کی نذر ہو گیا ہے۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ خوبصورتی خریدی نہیں جا سکتی، پیدا کی جاتی ہے،یہ دکھاوے سے نہیں،نیک نیتی اور دیانت سے آتی ہے۔
Haseeb Ejaz Aashir | 0334-4076757
Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 140 Articles with 157287 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More