تحریر: قیممصری
گزشتہ برس، سال کے اختتام پر یونیورسٹی کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب میں
جانے کا اتفاق ہوا۔ اس تقریب میں اساتذہ بشمول پرنسپل مدعو تھے۔ اس تقریب
کا آنکھوں دیکھا حال کچھ یوں ہے کہ طلبہ و طالبات نے کبھی تنہا تنہا تو
کبھی ساتھ مل کر پڑوسی ملک کے گیتوں پر رقص کرکے وہ سماں باندھا کہ حاضرین
انگشت بدندان انھیں دیکھتے ہی رہ گئے۔ مخلوط درس گاہوں میں اس نوعیت کی
تقریبات ایک عام سی بات ہے مگر اس تقریب کا تذکرہ یہاں کرنے کا مقصد ہمارے
اساتذہ کے تربیتی معیار، ہمارے تعلیمی اداروں کے کردار اور طلبہ کے رجحانات
کا تعیین کرنا ہے۔
ہمارے رجحانات کی تشکیل میں ہمارے معاشرے اور ماحول کا اہم کردار ہوتاہے۔
ہم جو دیکھتے ہیں، جو سنتے ہیں وہ یقیناً ہماری سوچوں پر اثر انداز ہوتا
ہے۔ایک زمانے میں مخلوط محافل صرف امیر ترین طبقے تک ہی محدود ہوا کرتی
تھیں کیونکہ سفید پوش اور غریب طبقے کے پاس وسائل تھے نہ اس قسم کے شوق۔
مگرجیسے جیسے میڈیا کی رسائی ان غریب لوگوں تک اس سفید پوش طبقے تک ممکن
ہوئی ویسے ویسے اس طبقے کی سوچ میں تغیر رونما ہونا شروع ہوگیا۔ ہمارے
ڈراموں میں اعلٰی تعلیمی اداروں کا جو نقشہ کھینچا جاتا ہے اور امیری کے جو
شغل دکھائے جاتے ہیں وہ مہنگی پوشاک میں ملبوس ایک دوشیزہ سے شروع
ہوکربالآخر کسی مخلوط محفل میں مرد وزن کی دوستی یا محبت پر ختم ہوتے ہیں۔
ساتھ ساتھ ہماری خواتین ناول نگار زمین وآسمان کی قلابیں ملاتی ایسے ہی
کردار اور کہانیاں تخلیق کرکے اس کام میں اپنا پورا پورا حصہ ڈال رہی ہیں۔
اب ہمارے معصوم طلبہ جو پہلے ہی اس قسم کیے مناظر ٹی وی پر دیکھ چکے ہوتے
ہیں یا ناولز میں پڑھ چکے ہوتے ہیں ان کے لیے یہ باتیں یہ کام باعث حیرت
نہیں ہوتے۔ ان کو نہ صرف قبول کیا جاتا ہے بلکہ اپنایا بھی جاتا ہے اور
جہاں تک رہا والدین کا کردار تو ان کے لیے تو بس یہی بات اطمینان بخش ہے کہ
ان کی اولادیں جدید دور کے جدیدتقاضوں سے ہم آہنگ ہیں یا والدین اپنی اولاد
کے خلاف آواز اٹھانے سے ہی قاصر ہیں۔جہاں تک رہ جاتی ہے اساتذہ بات تو وہ
بھی ہمارے اسی معاشرے کا حصہ ہیں سو دوسروں ہی کی طرح بے حس۔ ایسے لوگ جو
خود ہی اپنی تعلیمی ذمہ داریوں سے ناآشنا ہوں وہ بھلا طلبہ کی اصلاح کیسے
کریں؟ ہمارے اساتذہ کو تو خود اخلاقی سطح پر تربیت کی ضرورت ہے۔ طلبہ اولا
تو اپنے معاملات میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتے اور رہی سہی کسر
اساتذہ کی بداخلاقی، ان کی جانب سے طلبہ کی بے جا تذلیل اور دھمکی آمیز
رویہ پوری کر دیتا ہے۔ اساتذہ کو طلبہ کی سرگرمیوں چاہے ادارے کی حدود میں
ہی کیوں نہ ہو کوئی دلچسپی نہیں۔
عام طور پر جامعات کی سطح پر ہم نصابی یا غیر نصابی سرگرمیاں طلبہ ہی منعقد
کراتے ہیں۔ ہم یہ بات مانتے ہیں کہ اساتذہ کا ان میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔
اب سوال بھی یہی ہے کہ آپ کا کردار یہاں کیوں نہیں ہے؟ کیا یہ آپ کی ذمہ
داری نہیں کہ طلبہ کو اصول و ضوابط اور ضابطہء اخلاق کا پابند کیاجائے،
انہیں ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو اسلامی تعلیمات کے منافی نہ ہو؟ اس قسم
کا حیا باختہ ماحول فراہم کرکے اور خود اعتمادی کے نام پر ہماری نوجوان نسل
کے کردار کی بنیادیں کھوکھلی کرکے جنسی تعلیم کا واویلا آپ اور آپ جیسے کئی
باشعور لوگوں کی زبانوں سے منافقت ہے۔
ہمارے تعلیمی اداروں کے سربراہان کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہماری قوم کے
یہ نوجوان ان کے پاس امانت ہیں۔ یہ اس امانت کے نگہبان ہیں۔ ان کی اسلامی
خطوط پر شخصیت سازی آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ کا کام صرف اتنا نہیں کہ انھیں
فزکس، کیمسٹری اور سائنس کی تعلیم دے کر ڈگری ہا تھوں میں تھما کر شتر بے
مہار کی طرح معاشرے میں چھوڑ دیاجائے۔ ان کی اسلامی حدود سے شناسائی
اورانہیں اسلامی حدود کا پابند کرنا بھی آپ ہی کا کام ہے۔
بازبان خود نہ سہی مگر بازبان حال آپ تعلیم کو تربیت سے ماورائی قرار دیتے
ہیں۔ اگر صرف پڑھانا یا سمجھانا کافی ہوتا تو یقین کیجیے دنیا کے کسی بھی
نظام میں قاعدے، قانون، اصول اور جزا و سزا کا کوئی تصور ہی نہ ہوتا۔اپنی
ذمہ داریوں، اپنے مقام کو پہچانیں اور انبیاء کے ورثاء ہونے کی جس مسند پر
آپ براجمان ہیں خدارا ! اس کا استحصال بند کیجیے۔
|