جس طرح دورانِ تعلیم فیلوشپ کے مفید پہلوؤں سے انکار ممکن
نہیں،اسی طرح تکمیلِ تعلیم کے بعد بے روزگاری کے مسئلے سے چشم پوشی بہتر
نہیں۔اس لیے(ہندوستانی تناظر میں) فیلوشب کے ساتھ جب اعلی تعلیم یافتہ ا
فراد کی بے روزگاری کا مسئلہ زیربحث ہو گا تویوجی سی کا تذکرہ بھی آئے
گا۔اس میں شک نہیں ہماری حکومت بذریعہ یونی ورسٹی گرانٹ کمیشن (UGC) مختلف
میدانوں میں ریسرچ کرنے والے طلبا کوتقریباً17 فیلوشب دے رہی
ہیں،مثلاً:ڈاکٹر رادھا کرشنن پوسٹ ڈاکٹرل فیلوشپ، نیشنل فیلوشپ فار اسٹوڈنٹ
آف اوبی سی،کوٹھاری فیلوشب، نیٹ جے آرایف،اندراگاندھی اسکالرشپ اسکیم فار
سنگل گرل چائلڈ،ایم این ایف،آر جے این ایف،اسہان ادیہ اسپیشل اسکالرپ اسکیم
فار نارتھ ایسٹرن ریژن، سوامانی وکانندفلیوشپ،بی ایس آر فیلوشب، وغیرہم۔
ان سب کے علاوہ نان نیٹ فیلوشب کا ذکر بھی مناسب ہے۔2006میں نن نیٹ فلو شپ
کی شروعات ہوئی تھی جس سے آج ملک بھر کے تقریباً 35ہزار طلبا مستفید ہور ہے
ہیں۔کوئی سال ڈیڑھ-دو برس قبل اس فیلوشپ کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا
تھا۔حالاں کہ اس اعلان سے قبل ہی جواہرلال نہرو یونی ورسٹی سمیت کئی تعلیم
گاہوں کے طلبا نے یوجی سی سے اس فیلوشپ میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا، یعنی
ایم فل طلبا کو مل رہے 5ہزار اور پی ایچ ڈی 8000 کوعلی الترتیب بڑھا کر
8اور 12 ہزارکردیا جائے۔ یوجی سی نے اضافے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی،
تاہم یکایک ڈیڑھ برس قبل یوجی سی نے اس فیلوشپ کو بند کرنے کا اعلان کردیا
تھا۔ جے این یو اور دیگر یونی ورسیٹوں کے طلبا نے یوجی سی کے باہر مسلسل
تقریباً تین ماہ دھرنا دیا تو اس کو بحال کردیا گیا۔واضح رہے کہ نن نیٹ
فیلو شپ اسکیم کے تحت ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبا کو علی
الترتیب5اور8ہزاررقم ملتی ہے۔جب کہ مذکورہ 17فیلوشپ اسکیم کے تحت پی ایچ ڈی
کرنے والوں کو(ایچ آر اے کے علاوہ) 25ہزار رقم ملتی ہے۔
نن نیٹ فیلوشپ کے علاوہ جن فیلوشپ کا تذکرہ اوپر کیا گیا،ان سے ہندوستان کی
تقریباً تمام یونی ورسٹیوں میں ریسرچ کرنے والے فائدہ اٹھا سکتے ہیں،تاہم
نن نیٹ فیلوشپ سے مستفید ہونے کے لیے لازمی ہے کہ ریسرچ اسکالر کا داخلہ
ملک بھر کی49 سینٹرل یونی ورسٹی میں سے کسی ایک میں ہو۔اسی طرح یہاں یہ
وضاحت بھی ضروری ہے کہ بیشتر فیلوشپ کے لیے طلبا کا انتخاب مقابلہ جاتی
امتحانات کے بعد ہوتا ہے یا پھر ایم اے کے نمبرات کی بنیاد پر میرٹ لسٹ
تیار کی جاتی ہے، لیکن نن نیٹ فیلوشپ کے لیے کسی سینٹرل یونی ورسٹی میں فقط
داخلہ لازمی ہے۔
مقابلہ جاتی امتحانات کے بعد فیلوشپ کی حصولیابی کا مسئلہ ہر کوئی سمجھ
سکتا ہے کہ ان میں کامیابی کے بعد کوئی بھی(ریسرچ اسکالر) اس کا اہل ہو
سکتا ہے،تاہم غیر سینٹرل یونی ورسٹیوں کے ریسرچ اسکالروں کا کیا قصور ہے کہ
وہ نن نیٹ فیلوشپ حاصل نہیں کرپاتے ہیں۔ نن نیٹ فیلوشپ میں اس کی گنجائش
ہونی چاہیے کہ سینٹرل یونی ورسٹی کے ریسرچ اسکالروں کی طرح اسٹیٹ یونی
ورسٹیوں کے ریسرچ اسکالر بھی مستفید ہوسکیں۔(یہ الگ بات ہے کہ اس کے لیے
مرکزی اور ریاستی حکومتیں آپس میں تبادلہ خیال کریں۔ ) یہ وکالت یوجی سی کے
فنڈ کے مدنظر بھی کی جاسکتی ہے ۔ گذشتہ دنوں ایک خبر سے حیرت ہوئی کہ مرلی
منوہر جوشی کی قیادت والی پارلیمنٹ کی احتسابی کمیٹی نے اسکالر شپ معاملہ
میں یوجی سی کی نکتہ چینی کی۔ کیوں کہ ایک طرف یوجی سی فنڈ کی قلت کا رونا
روتی ہے تو دوسری طرف اس کا مختص فنڈ ہی خرچ نہیں ہوپا تاہے۔رپورٹ کے مطابق
سال 2010-11میں صرف 13فیصد، 2011-12 میں 31فیصد اور 2012-13میں فقط 14فیصد
فنڈ ہی خرچ کیا گیا۔
اس رپورٹ کے تناظر میں نن نیٹ فیلوشپ کے مسئلے کو د یکھنے سے کئی باتیں
سامنے آتی ہیں۔بنیادی بات یہ کہ جو یو جی سی اپنے فنڈ کا نصف حصہ بھی خرچ
نہیں کرپارہی ہے،اگر وہ فنڈ کی قلت کا رونا روتے ہوئے نن نیٹ فیلوشپ کو بند
کر نے کا ارادہ بنائے تو اس کے نظریات اور اس کی تساہلی کے بارے میں کیا
رائے قائم کی جائے؟اسی طرح یہ سوال ہوتاہے کہ جو یوجی سی اپنے فنڈ کا فقط
13,14اور 31فیصد خرچ کرکے پچھلے کئی برسوں سے سینٹرل یونی ورسٹیوں کے ریسرچ
اسکالروں کو نن نیٹ فیلوشپ دیتی چلی آئے ، تو وہ اپنا فنڈ مکمل خرچ
کرکے(بلا امتیاز سینٹرل اور اسٹیٹ) ملک بھر کے ریسرچ اسکالروں کو یہ فیلوشپ
دے تو کیا حرج ہے؟ کیوں کہ نصف سے کم خرچ کرکے سینٹرل یونی ورسٹی کے 35ہزار
طلبا کو یہ فیلو شپ دے سکتی تو مکمل خرچ کرتے ہوئی ہر ریسرچ کرنے والے طلبا
کو 5-8ہزار اسکالر شپ کے طور پر دینا بھی ممکن ہے، بلکہ اضافے کے ساتھ بھی۔
اس لیے مذکورہ سطور میں مطالبہ کیاگیا کہ یوجی سی غیر سینٹرل یونی ورسٹی کے
ریسرچ اسکالروں کو بھی نن نیٹ فیلوشپ دے۔
فیلو شپ کے ایشوپر تھوڑی بحث کے بعد بے روزگاری کے اعداد وشمار پیش کرنا
ضروری ہے،تاکہ فیلوشپ کا اور بھی اچھی طرح سے تجزیہ کیا جاسکے۔ بی بی سی
یااقوام متحدہ کی ایف اے او تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کا ہر آٹھواں
آدمی بھوک کے مسائل سے کسی نہ کسی سطح پر دوچار ہے۔بالخصوص نوجوان بھی اس
کے شکار ہیں اور بے روگازی کی مار جھیل رہے ہیں۔اس کے علاوہ ایک رپورٹ (جو
انڈین اکسپریس سمیت ملک کے کئی مؤقر اخبارات میں 30اگست 2018کو شائع ہوئی
تھی )ہے کہ یوپی میں چپراسی کی 62سیٹوں کے لیے 93000لوگوں نے فارم بھرا، جن
میں سے 3700پی ایچ ڈی یافتگان تھے،حالانکہ اس پوسٹ کے لیے فقط آٹھویں کی
تعلیم ہی ضروری تھی۔ان رپورٹس پر غور کرنے کے بعد کئی سوالات ہوتے ہیں؟بے
روزگاری کے بڑھتے معاملات پر حکومتیں سنجیدہ کیوں نہیں؟اگر اعلی ڈگر ی
یافتگاں بے روزگاری کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں تو عالمی سطح پر خود ملک کی
بھی بدنامی ہوتی ہے۔ساتھ ہی ساتھ یہ سوال ہوتا ہے کہ فیلوشپ کے نام پر پانچ
برسوں میں حکومت تقریباً ایک طالب علم کو جو18لاکھ روپے دیتی ہے،اس رقم کا
ماحصل کیا ہے ؟ اس صورت حال میں کیا یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ہمارا نظام
ہی کچھ ایسا ہے کہ حکومت خود اپنا سرمایہ برباد کررہی ہے۔ کیوں کہ فیلوشپ
کی رقم اس لیے بھی دی جاتی ہے کہ ریسرچ اسکالر پریشانیوں کو ذہن سے نکال کر
بہتر ین ریسرچ کرسکیں اور روزگار سے جڑ کر ملک کے لیے بہترین فریضہ ادا
کرسکیں۔ ظاہر ہے ریسرچ کرنے کے بعد ان کے روزگار کا مسئلہ حل نہ ہوتو گویا
ایک اعتبار سے حکومت خود اپنے ہاتھوں اپنے پیسے برباد کر رہی ہے۔اس لیے یہ
کہنا پڑتا ہے کہ حکومت روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر غور کرے۔ تعلیمی
اداروں میں خالی پڑیں اسامیوں کو پُر کرے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی اُن رقومات پر
بھی غو ر کرے جو اسکالر شپ کے نام پر دی جارہی ہیں اور ان کا فائدہ برآمد
نہیں ہورہا ہے۔ بحالتِ مجبوری یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ 25-30 ہزار ملنی
والی فیلو شپ میں کچھ کمی کردی جائے، مگر پی ایچ ڈی سند یافتگان کو کوئی نہ
کوئی ملازمت بغیر کسی ٹسٹ کے دی جائے،30ہزار کی ہی سہی۔ حکومت اختیار دے کہ
تم نے پی ایچ ڈی کرلی ہے۔ لکچرر شپ نہ جانے کب ملے، مگر یہ چھوٹی
ملازمت(تعلیم یا نظم وضبط کے کسی شعبے میں) حاضر ہے۔ کیوں کہ تم نے پی ایچ
ڈی کی ہے اور ہم نے اسکالر شپ کے نام پر ایک خطیر رقم بھی دی ہے۔ اس رقم کو
برباد ی سے بچانے کا ایک یہ بھی طریقہ ہے۔اب جسے یہ نوکری چاہیے لے،جسے نہ
چاہیے وہ نہ لے۔ اگر کوئی ایک دفعہ نوکری سے انکار کردے تو اسے پھر یہ کم
تنخواہ والی یہ نوکری نہ ملے، لکچرر شپ مل جائے تو اور بات ہے۔اس طرح تعلیم
کی ناقدری نہیں ہوگی۔ تعلیم یافتہ افراد نفسیاتی مریض ہونے سے محفوظ رہیں
گے اور بذریعہ یوجی سی حکومت سے ملنی والی رقم بھی ضائع نہیں ہوگی۔ |