مسلمان جس ملک، قصبہ، شہر یا بلادمیں پہنچے اس زمیں کو
ترقی کی منزل تک پہنچایا۔ایمان کی بہار سے کائناتِ ارضی کو مشک بار بنا دیا۔
داعیانِ دین میں ایک نمایاں و ممتاز نام حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی
غریب نواز علیہ الرحمہ کا ہے۔ جن کے قدم سے ہندوستان میں گلشنِ اسلام لالہ
زار بھی ہوا اور تعلیماتِ نبویﷺ سے علم و فضل کا سویرا ہوا۔ انھیں کی مقدس
بارگاہ میں نذرِ عقیدت کے لیے یہ سطریں حیطۂ تحریر میں آئیں۔ خواجہ غریب
نواز کے ملفوظات و ارشادات سے اصلاحی فکر دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
اقوال سلف کی اہمیت: بزرگوں کے اقوال انقلاب بداماں ہوتے ہیں۔ بڑی محنت اور
جوشیلی تقریروں سے بسا اوقات وہتبدیلی نہیں آتی؛ جو کسی ولی و صاحبِ دل کے
یک سطری جملے سے ہوتی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ بزرگوں کی زندگی رضائے الٰہی عزوجل
کا آئینہ اور محبت رسالت پناہی ﷺ کا نمونہ ہوتی ہے۔ ان کے قول و فعل میں
یکسانیت، ان کی حیات میں پاکیزگی، ان کے افکار میں روشنی۔ الغرض ایسے ہی
مبارک ارشادات نے قوم کے تنِ مُردہ میں ایمان کی حرارت دوڑا دی۔ حضرت خواجہ
غریب نواز کے چمکتے کردار اور پُر نور قلب کا یہ اثر کہ آپ کا ہر قول قوم
کے لیے رہبر و رہنما ہے؛ اور تاثیر ایسی کہ بات دل میں گھر کر جاتی،
زندگیاں بدل جاتیں۔ آپ بھی ان ارشادات سے دامنِ دل شاد کیجیے۔
خواجہ غریب نواز کے چند اقوال:
[۱] اہلِ محبت کی علامت یہ ہے کہ ہمیشہ اطاعت میں مشغول رہے اور پھر بھی
ڈرتا رہے؛ کہ کہیں عتاب کا شکار نہ ہو جائے۔
[۲]مرید اس وقت فقیر کہلانے کا مستحق ہوتا ہے جب عالم فانی میں باقی نہ رہے،
لوگوں نے دریافت کیا: مرید کو کب ثابت قدم سمجھنا چاہیے فرمایا: جب بیس برس
ہو جائے اور گناہ لکھنے والا فرشتہ اس کا ایک گناہ بھی نہ لکھ سکے۔ (ماخوذ
از سیر الاولیا، کرمانی)
[۳] عارف وہ شخص ہے جو اپنے ما سوا کا خیال دل سے نکال دے تاکہ یکہ وتنہا
ہوجائے جیسا کہ دوست (خدا) واحد ویکتا ہے۔
[۴] میرے مرشد خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: مومن وہ ہے جو
تین چیزوں کو پسند کرے: ۱) فقیری ۲) بیماری ۳) موت۔ جو ان چیزوں کو دوست
رکھتاہے خداے تعالیٰ اور فرشتے اس کو دوست رکھتے ہیں اور اس کا بدلا جنت
ہوگا۔
[۵] فقیر وہ ہے کہ جس کے پاس کوئی اپنی ضرورت پیش کرے تو وہ اسے محروم نہ
کرے۔
[۶]متوکل (توکل والا) وہ ہے جو مخلوق سے تکلیف برداشت کرے اور اس کو کسی سے
بطور شکایت بیان نہ کرے۔
[۷]لوگ قربِ خداوندی سے بہرہ ور نہیں ہوسکتے جب تک کہ نماز کی پابندی نہ
کریں؛ کیوں کہ یہی نماز مومن کی معراج ہے۔ میں ایک مدت تک کعبے کا طواف
کرتا رہا جب حق تک پہنچ گیا، کعبہ میرا طواف کرنے لگا۔
[۸]اہلِ محبت کی توبہ کی تین قسمیں ہیں: ۱)ندامت ۲) ترکِ مجادلت(جھگڑا
چھوڑد ینا) ۳) ظلم وستم سے پاک رہنا۔
[۹] محبت میں سچا وہ ہے کہ جب وہ آزمایش میں مبتلا ہو تو اسے خوش دلی اور
رغبت کے ساتھ قبول کرے۔ (از مونس الارواح:۳۸تا۴۱،ازشہزادی جہاں آرا بیگم،
مترجمہ مولانا ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی)
[۱۰] راہِ محبت میں ولی وہ ہے جو دوعالم سے اپنے دل کو ہٹالے۔
[۱۱] حقیقی صابر (صبر کرنے والا) وہ ہے کہ اسے مخلوق سے تکلیف واَذیت پہنچے
تو وہ کسی سے شکایت کرے نہ کسی سے اس کا ذکر کرے۔
[۱۲]ولی کی علامت یہ ہے کہ موت کو پسند کرے، عیش وراحت کو چھوڑ دے اور اﷲ
عزوجل کی یاد میں مشغول رہے۔
[۱۳] سب سے بہتر وقت وہ ہے کہ جب دل وسوسوں سے پاک ہو۔
[۱۴] جہاں بھی جاؤ کسی کا دل نہ دکھانا اور جہاں بھی رہنا گمناموں کی طرح
رہنا۔
[۱۵] چار چیزیں نفس کا جوہر ہیں(یعنی نفس کی خوبیوں سے ہیں): ۱) درویشی میں
تونگری ظاہر کرنا۔ ۲) بھوک میں آسودہ نظر آنا۔ ۳) غم میں مسرور(خوش) معلوم
ہونا۔ ۴)دشمنوں کے ساتھ بھی دوستی کا برتاؤ کرنا۔(مناقب العارفین ازشیخ
یٰسین جھونسوی مترجم: ۲۵۴تا۲۵۶)
خلاصۂ کلام: ان اقوال میں بڑی معرکہ آرا باتیں ہیں۔ بڑے اہم رموز و نکات
ہیں۔ بڑی قیمتی نصیحتیں ہیں۔ ملفوظات موتیوں کی لڑی ہیں۔ جس میں ہر موتی
نیا حسن اور دل کشی رکھتا ہے۔ کہیں نماز کی تاکید، کہیں محبت و شفقت کی
تعلیم، کسی میں صبر و استقامت کا جوہر اور تحفظِ شریعت کا جذبہ و صفائیِ
قلب و تزکیۂ نفس کا درسِ زریں۔ کسی میں ولایت کی تعریف ہے کسی میں قناعت و
تقویٰ کی جھلک اور عرفان و ایقان کے جلوے۔ ان ارشادات پر موجودہ مادی زمانے
میں عمل کی سبیل نکال لی جائے تو ہزاروں مسائل کا تصفیہ بھی ہو اور قومی
وقار میں چار چاند لگ جائے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اقوال سلف صالحین پر عمل کی توفیق دے اور نفس کی برائیوں
اور شرارتوں سے محفوظ رکھے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم۔
بزرگان دین بالخصوص حضرت خواجہ غریب نواز سے محبت کا تقاضا ہے کہ ان کے
ارشادات پر عمل کیا جائے۔ انھیں شبستان حیات میں سجا لیا جائے تا کہ من کی
دنیا میں نور کی کرنیں پھیل جائیں اور معاشرتی اصلاح و فلاح کے کئی ابواب
مہک مہک اٹھیں۔
٭٭٭ |