اسلامی مدارس اور علماء حق کے خلاف پروپیگنڈا

تحریر سعدیہ ملک میرپور آزاد

دنیا کے تمام ممالک میں مذہب کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔اور ہر ملک اپنے مذہبی پیشواؤں کی خدمات کا صلہ بہترین تنخواہوں اور مراعات کی صورت میں دیتی ہے۔اس سلسلے میں میں دنیا کے کچھ مذاہب کی مثال دوں گی اور پھر ان کا موازنہ مملکت خداد پاکستان سے کروں گی۔

1 ہندوستان
براہمن ہندوؤں کی اونچی ذات کا نام ہے۔ جو برہما کے منہ سے پیدا ہوئی۔ اس کے فرائض میں دھرم رکھشا ہے اور ویدوں کو حفظ کرنا ہے۔ یہ ہندوؤں کی سب سے اعلیٰ ذات۔کیونکہ یہ مذہب کے پیروکار ہیں۔انہیں ملک میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔گورنمنٹ کی اعلیٰ ترین ملازمتیں اور بہترین تنخواہیں ان کے حصے میں آتی ہیں۔گویا ہندو مت کے پرچار پر انہیں انعام دیا جاتا ہے۔

2 تمام عیسائی ممالک
پادری مسیحیوں کا روحانی پیشوا جو اسقف اعظم کے بعد اسقف کا درجہ سب سے اونچا ہوتا ہے۔ پہلے وقتوں میں پادری اور ایک بزرگ آدمی کے درمیان کوئی امتیاز نہیں تھا۔ مگر جوں جوں گرجے کے اقتدار اور تعداد بڑھتی گئی پادری نمایاں شخصیت بنتا گیا۔ پادری کا انتخاب لوگ کرتے تھے۔ بعد میں پوپ کی طرف سے نامزدگی ہوتی تھیں۔پادریوں کی تنخواہیں اور مراعات بہت زیادہ ہیں اور کرسچین ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

3 سکھ مت
ہر گرودوارے میں مذہبی فرائض کو سر انجام دینے والے اور دعا کے وقت امامت کرنے والے شخص کو گرنتھی کہا جاتا ہے۔ گرنتھی کو سکھ بہت عظیم مقام دیتے ہیں۔اور انہیں باعزت تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں۔ یہی حال بدھ مت اور یہودیوں کا ہے

4 پاکستان
انسان کی زندگی کا سب سے اہم دن اس کا دنیا میں پیدائش کا دن ہے۔پیدا ہوتے ساتھ موذن کی کان میں اذان کے ساتھ ہم مسلمان ہو جاتے ہیں۔پھر چار سال کی عمر میں بچے کی بسم اﷲ کروائی جاتی ہے اور قرآن پاک کی باقاعدہ تدریس کا آغاز ہو جاتا ہے۔اسلامی مدرس اسلام کی درس و تدریس کی شروعات کر دیتے ہیں۔سات سال کی عمر میں مسجد میں امام مسجد کی امامت میں نماز پڑھنا شروع کی جاتی ہے۔اگلا اہم موڑ شادی کا بندھن ہے۔مولوی صاحب ہی نکاح کا خطبہ پڑھا کر دو دلوں کو ازدواجیت کے بندھن میں باندھ دیتے ہیں۔آخری منزل قبر میں اتارنے سے پہلے نماز جنازہ موذن کی امامت میں ہی پڑھائی جاتی ہے۔مرنے کے بعد بخشش کے لئے مولوی صاحب ہی رسم قل ادا کرتے ہیں۔

ہمیں حیات و ممات کے تمام سلسوں میں اسلامی علوم کے مدرس کی ضرورت ہے۔پاکستان میں مدارس اپنی مدد آپ اور عوام کے تعاون سے چلتے ہیں۔مساجد میں بھی مولویوں کو کوئی باقاعدہ پنشن ایبل نوکری نہیں ملتی۔جس طرح دوسرے محکموں کے ملازمین کے بچوں بچوں کو وظائف دیے جاتے ہیں ایسا کوئی سلسلہ مولویوں کے لئے نہیں۔علماء کرام کی زیادہ تعداد انتہائی غربت میں گزر بسر کرتی ہے -

یاد رہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں دہشت گردی کے بعد وفاقی حکومت نے کالعدم جماعۃ دعوۃ اور جیش محمد کے مدارس اور اس کے زیر انتظام فلاحی اداروں کو اپنے کنٹرول میں لے کر محکمہ اوقاف کو حوالے کر دیا ہے۔ سندھ میں جماعۃ دعوۃ، جیش محمد اور تحریک غلبہ اسلام کے 18 مدارس اور مساجد اوقاف نے سنبھالی ہیں جبکہ پنجاب میں صرف جماعۃ دعوۃ کے 160 مدارس اور سکول کنٹرول میں لیے گئے ہیں۔حکومت نے یہ اقدامات کرنے سے قبل ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔مدارس اور ان میں موجودطلبہ و طالبات پاکستان اور قلعہ اسلام کے حریف نہیں حلیف ہیں، انہیں اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔’کالعدم تنظیم اور مدرسہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ مدراس کو کالعدم تنظیموں کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہیے تھا۔ ماضی کا جو تجربہ ہے وہ یہ بتا رہا ہے کہ نام کالعدم تنظیم کا لیا جاتا ہے اور کارروائی مدارس کے خلاف ہوتی ہے۔ مدارس اگر الگ ہیں اور اُن میں تعلیم ہو رہی ہے، اس میں کوئی غیر قانونی چیز نہیں، تو اس کو اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔‘پاکستان میں قومی ایکشن پلان کے نکات میں مدارس کی رجسٹریشن بھی شامل تھی لیکن مدارس کی تنظیموں اور صوبائی حکومت میں اس پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے مدارس کی فنڈنگ پر بھی سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔ یہ سوال رجسٹریشن کے سوال نامے میں شامل تھا۔
حکومت کو ثبوت تلاش کرنے چاہییں جس مدرسے نے غیر ملکی پیسے لیے ہیں، ہم اس کو بند کر دینا چاہئے۔اسلام دشمنوں کے عالمی پروپیگنڈا کے دباو میں آ کر ایسی فرضی باتیں نہیں کرنی چاہییں۔ یہ مدارس عوام کی مدد سے چلتے ہیں۔مدارس کے سرپرست اعلی کو ایک ایک پائی کا حساب رکھنا چاہیے۔ حکومت کو مدارس سے پیسے نہیں مانگنے چاہییں کیوں کہ مدارس حکومتی آمدنی سے نہیں چلتے۔

عوامی تعاون سے چلتے ہیں۔اور اس سلسلے میں ایک اور حکومتی اقدام قابل افسوس و مزمت ہے کہ مدارس پر قربانی کے جانوروں کی کھالوں کے اکٹھا کرنے پر بھی لگا دی جاتی ہے حکومت کو ان ہی اداروں سے پیسے مانگنے چاہییں جنہیں وہ پیسے دیتی ہے۔ انہیں کوئی حق نہیں ہیمدارس سے حساب مانگنے کا۔ ہاں ملک کے قانون کے خلاف اگر کسی مدرسے کے پاس پیسہ ہے تو اس کا ثبوت لا کر قانونی کاروائی کرنی چاہیے اس وقت ملک میں مدارس میں 35 لاکھ طالب علم اور طالبات زیر تعلیم ہیں، لوگوں کا ان پر اعتماد ہے اسی لیے وہ اپنے بچوں کو مدارس میں بھیج رہے ہیں۔

پاکستان میں پلوامہ حملہ کے بعد ہندوستانی اور دیگر کفار کی اسلام دشمن سازش کے تحت اسلامی مدارس پر پابندی عائد کی گئی جو قابل مزمت ہے اس کے ساتھ ساتھ کئی علماء دین کو مسجد میں اذان دینے سے روکا گیا ہے۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد سے لیکر آج تک کفار کی سازش ہے کہ اسلام سے دشمنی میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔اب قریش مکہ ہوں یا یزید اسلام دشمن عناصر ہمہ وقت اسلام اور علماء اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہے ہیں۔دینی مدارس شعائر اسلام میں داخل ہیں اور شعائر اسلام کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کرنے والے اپنے انجام کو نہ بھولیں۔دینی مدارس کے علماء کرام کو کشتی کے ذریعہ سمندر میں پھینکنے کا اعلان کرنے والے کے انجام کو یاد رکھیں۔ حکومت کو دین دشمنی سے باز رہنا چاہیے۔ شاہراہوں پر قائم دینی مدارس کو سیکیورٹی رسک قرار دیکر بند کرنے کے منصوبے اور بیان انتہائی قابل مذمت ہے۔ دینی مدارس امن و آشتی کے پاکیزہ مراکز ہیں۔ انہیں سیکیورٹی رسک قرار دینے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔اول تو دینی مدارس پر یہ الزام عائد کرنا دین سے بیزار لوگوں کا براہ راست دین اسلام پر حملے کے مترادف ہے،اس لئے کہ روز اول سے آج تک پاکستان میں ہونے والی کسی بھی دہشتگردی کا دینی مدارس سے تعلق نہیں رہا بلکہ دینی مدارس خود ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ہزاروں علماء کرام، طلباء،ائمہ مساجد،خطبا اور انکے محبین کو سر عام شہید کیا گیا ہے جن میں کسی ایک کے قاتل نہیں پکڑے گئے،دوم دینی مدارس کے علماء کرام نے ہمیشہ دہشت گردی اور فرقہ واریت کو ملک کیلئے زہر قاتل سمجھ کر ملک میں قیام امن کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دیتے ہوئے مسلح جدوجہد کو حرام قرار دیکر ریاست کی رٹ قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ علماء کرام نے ملک میں قیام امن کیلئے کتنی قربانیاں دی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں مدارس اور دینی علما کے لئے باقاعدہ محکمہ قائم ہوں جس کی سرپرستی محب الوطن اور دیانتدار سرپرست اعلی کے سپرد کی جانی چاہیے۔جس طرح باقی محکموں کے لئے باقاعدہ مقابلہ کے امتحانات منعقد ہوتے ہیں بالکل اسی طرح مدارس سے فارغالتحصیل طلبہ و طالبات امتحانات میں شامل ہوں۔پاس ہونے والوں کے لئے سرکاری پینشن ایبل تنخواہیں مقرر کی جائیں۔
حکومت باقاعدہ طور پر مراعات کا اعلان کرے۔
تا کہ کوئی بھی طالب علم منفی اثرات قبول نہ کرے۔
اگر اسلام کی خدمت کرنے والوں لے لئے پاکستان میں زمین تنگ ہوئی تو بخدا مٹ جاو گے۔

اس سلسلے میں آسیہ مسیح ملعونہ کی سزا معافی اور خفیہ لندن روانگی کا حکومتی اقدام قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔ناموس رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم پر انگلی اٹھانے والے کی اتنی پشت پناہی اور سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حمایت و حفاظت اور شمع اسلام کے پروانو ں کے ساتھ ذلت بھرا سلوک۔اصل میں ہم سپر پاورز کے مقروض ہیں۔جس کی وجہ سے ہمارے ہاتھ ان لوگوں کے گریباں تک نہیں پہنچ سکتے جو اسلام پر انگلی اٹھاتیہیں (پھر چاہے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے نعوذ باﷲ گستاخانہ خاکے اور فلمیں بنائی یا اسلام کے خلاف کوئی اور سازش ہو) ہم سپر پاورز کے ذہنی غلام ہیں اور غلام معاشرے آقاوں کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے افسوس صد افسوس۔

M H Babar
About the Author: M H Babar Read More Articles by M H Babar: 83 Articles with 73028 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.