اس دنیا میں اب تک اربوں نہیں کھربوں انسان آئے ہیں فنا
ہو گئے ہیں ۔فنا ہونے کے لیے اربوں انسان یہاں موجود ہیں۔ان میں ہر طرح کے
انسان ہیں ۔مسلم ،غیر مسلم ، نیک ،بَد ، ظالم ، مظلوم ، جاہل، دانش ور
وغیرہ ویسے کچھ ایسے درندے بھی ہوتے ہیں جو انسان کے لباس میں چھپے ہوتے
ہیں ۔جنہیں انسان کہنا نہیں چاہئے ۔جو نیکی کی بجائے بدی ،عدل کی بجائے ظلم
،رحمن کی بجائے شیطان کے پجاری ہوتے ہیں ۔انسانیت کا متضاد شیطانیت ہے ۔ازل
سے انسانیت اور شیطانیت کے درمیان جنگ جاری رہے اور ابد تک جاری رہے گی ۔انسان
کے روپ میں ہی شیطان چھپا ہوتا ہے ۔جو فساد فی الارض کا سبب بن جاتا ہے ۔انسان
کی شیطانیت نے ہی دنیا کو رنج و الم کی تصویر بنا رکھا ہے ۔انسان نما شیطان
نے ہی انسانوں کے دو شہروں میں ایٹم بم گرائے تھے ۔ہٹلر نے جو یہودیوں سے
جو کیا وہ اب یہودی شیطانیت کا لباس پہن کر کشمیر، فلسطین اور شام میں کر
رہے ہیں ۔رنج والم اور خون خرابے میں ڈوبی یہ تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارے
معاشروں میں شیطان کے بھٹکائے ہو ئے لوگ گھسے ہوئے ہیں ۔جس وجہ سے انسان کی
انسان سے دوریاں بڑھ رہی ہیں۔
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
یہ حقیقت ہے کہ انسانیت ہر جگہ محبت،الفت ،ہمدردی ،ایک دوسرے کے کام آنے،
امن ،بھائی چارہ اور ہم آہنگی سے جڑی ہوئی ہے ۔ انسانیت کیا ہے؟ ۔لوگوں کے
دکھوں کو اپنا دکھ سمجھنا ۔ان کے دکھ کا مداوا کرنا ۔اور ایسا بلا تفریق
مذہب ،قوم ،رنگ، نسل ،زبان کے کرنا ۔ایک انسان کا دوسرے انسان سے انسانیت
کا رشتہ ہے ۔جیسے رہبر انسانیت ﷺ نے یوں بیان کیا کہ ’’تم سب آدم علیہ
السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنائے گئے تھے ۔‘‘ ہم اپنے
ارد گرد دیکھیں تو علم ہوتا ہے کہ انسانوں میں انسانیت خوابیدہ ہے ،اکثریت
کے دل مردہ ہو چکے ہیں،مردہ ہی نہیں انسانوں کے دل پتھر ہو چکے ہیں ۔بلکہ
اس سے بھی سخت ہو چکے ہیں ۔انسان کا دل تو نرم ہوتا ہے وہ دوسرے کے دکھ پر
تڑپ جاتا ہے ۔لرزجاتا ہے ۔تعمیر انسانیت کے لیے انسان کے دل میں درد کا
ہونا ضروری ہے ۔دل کا نرم اورزندہ ہونا ضروری ہے ۔دردِ دل کے واسطے ہی پیدا
کیا انسان کو۔خدمت خلق ہی معراج انسانیت ہے ۔انسان تو وہ ہے ،جو اﷲ کے
بندوں اور اپنے بھائیوں اور دوسرے انسانوں کے لئے جیتا ہو۔ ان کی سردی گرمی
،بھوک پیاس ،دکھ غم میں شریک ہوتا ہو ۔
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
یہ بات حتمی ہے کہ صرف وہ ہی دوسرے انسانوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے
جیسے آخرت کا خوف ہو ۔اسی طرح صرف وہ دین یا مذہب ہی دین انسانیت کہلانے کا
مستحق ہے جو ہمہ گیر اور آفاقی ہو۔اسلام ایک امن پسند، فطرت سے ہم آہنگ دین
ہے صرف اسلام کو ہی دین انسانیت کہا جاتاہے ۔ اسلام میں انسانی حقوق کی
اہمیت اور اس کا احترام جتنا ہے شاید ہی کسی مذہب میں اس کا عشر عشیر پایا
جاتا ہو۔دین اسلام کے خلاف اس کا اصل چہرہ چھپانے کے لیے عالمی پروپیگنڈہ
شیطانیت کے ماننے والوں کی بھرپور سازشوں کے طفیل افواہیں حقائق کی شکل
اختیار کرچکے ہیں اور اسے دنیا کی اکثریت سچاہی یا سچ جیسا تسلیم کرنے لگی
ہے ۔انسان اور انسان کے دوسروں انسانوں سے رشتے ،ناطوں ،لین دین کا مکمل
نظام اسلام نے دیا ہے ۔بھوکے کو کھانا کھلانے ، پیاسے کو پانی پلانے ،
بیماروں کی عیادت اوراس کی مزاج پرسی،ظالم کو ظلم سے روکنے ،سچی گواہی دینے
وغیرہ جیسے احکام اسلام کے ہیں یہاں تک کہ ’’جس نے بھوکوں کو کھانا کھلایا،
پیاسے کو پانی پلایا اور بیمار کی عیادت کی گویا اس نے اﷲ کو کھلایا اﷲ کو
پلایا اور اﷲ کی عیادت کی‘‘(مشکوٰۃ شریف) اسلام نے یہ درس مذہب سے بلند
ہوکر دیا اور مسلم اور غیرمسلم کی کوئی تفریق نہیں کی۔یہ ایسی سچائیاں ہیں
جن کا انکار یا جن کو نظر انداز کوئی اندھا اور کورچشم ہی کرسکتا ہے ۔
دنیا پہ ایسا وقت پڑے گا کہ ایک دن
انسان کی تلاش میں انسان جائے گا
ارشاد نبوی ﷺ ہے ’’ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے ، اور سب سے زیادہ اﷲ کا محبوب
بندہ وہ ہے جو اﷲ کے کنبے کو نفع پہنچائے ‘‘۔جس نے کسی جان کو قتل کیا نہ
جان کے بدلے نہ زمین پر کسی مجرمانہ سورش کی بناء پر تو گویا اس نے قتل
کرڈالا سب لوگوں کو (المائدہ) قرآن کا یہ منشور اسلام کی انسانیت پسندی کے
موقف کی تائید کے لئے کافی ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ اسلام میں امن وامان،
انسانیت کے احترام اور اس کے حقوق کی حفاظت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔دوسروں
کو نفع پہنچانا انسانیت کا تقاضا ہے ۔ترجمہ حدیث ﷺہے’ ’لوگوں میں سب سے
اچھا وہ ہے جو لوگوں کو نفع اور فائدہ پہنچائے ‘‘
قرآن حکیم، آنحضرت ﷺکے ارشادات اور آپ ﷺ کی سیرت کا بغور مطالعہ کیا جائے
تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کی تعلیمات ساری انسانیت کے لئے خیر
اور بھلائی کا پیغام رکھتی ہیں۔ قرآن مجید نے آنحضرت ﷺ کو رحمت اللعالمین
قرار دیا ہے۔صرف مسلمانوں کے لیے رحمت نہیں کہا ۔آپ ہر انسان کے لیے رحمت
ہیں چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو۔آپ ﷺ نے فرمایا ’’خبردار جو
کوئی معاہد (دوسرے مذہب کا پیرو کار ) پر ظلم کرے گا یا اس کا حق چھینے گا
، اسے کوئی اذیت دے گا یا جبراً اس سے کوئی چیز ہتھیائے گا تو قیامت کے روز
میں اس ( معاہد ) کی جانب سے ایسے مسلمان کے خلاف لڑوں گا ‘‘۔
ہم ایک مثال لیتے ہیں اپنی اس بات کو سمجھانے کے لیے کہ اﷲ نے جتنے مذاہب
بنائے سب انسانیت کو فروغ دینے کے لیے بنائے ہیں۔بے شک ان میں سے اکثر اپنی
اصل صورت میں باقی نہیں ہیں، سوائے دین اسلام کے ۔ ہر شخص خواہ اس کا مذہب
اور عقیدہ کوئی بھی ہو اپنی جان و مال کی عزت و حفاظت کو مقدم سمجھتا ہے
۔اس بارے میں اﷲ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ’’ایک بے گناہ انسان کا قتل
پوری انسانیت کا قتل ہے ۔ ‘‘انجیل مقدس میں ہے ’’ کسی بشر کی حیات کی ڈوری
کاٹ دینا ، یہ تو بہت بھیانک گناہ ہے ۔‘‘ مقدس متی میں ’’ تم سن چکے ہو کہ
اگلوں سے کہا گیا تھا۔ کہ تو خون مت کر۔ اور جو کوئی خون کرے گا عدالت میں
سزا کے لائق ہو گا۔‘‘شریعتِ موسوی کا پانچواں حکم ہے کہ ’’ کسی کی زندگی
مقدس اور اﷲ کا عزیز ترین تحفہ ہے ۔ زندگی ایک بار ملتی ہے ، سب کی زندگی
سے پیار کرو۔‘‘ ایسے ہی دیگر مذہب میں احکام الہی ہیں ۔آج ہم اپنی من مرضی
کے مطابق مذہب کو کچھ اور ہی شکل دے رہے ہیں۔انسان، انسانیت کو بھول گیا ہے
ہمیں ضرورت ہے کہ ہم انسانیت کے علم بردار بنیں۔اﷲ تعالی مسلمان کو دیگر
مذاہب سے مشترک نکات پراتحاد کا حکم قرآن پاک میں کچھ یوں دیتے ہیں ۔
’’کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں
(تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ، وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ
کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو
خدا کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان
سے ) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا کے ) فرماں بردار ہیں‘‘آیئے اﷲ اور
آخری رسول رحمت اللعالمین حضرت محمد ﷺ کو اپنا حقیقی رہنما بنا لیں اور آپس
میں اتحاد وبھائی چارہ قائم کر کے انسانیت کی فلاح امن وسلامتی کے دین کوسب
انسانوں تک پہنچانے اور مظلوم انسانیت کی نجات کے لئے ایک ہو جائیں،متحد ہو
جائیں۔ |