تحریر احسن رشید لاہور
ایک دفعہ امیر المومینین حضرت عمر ین عبدالعزیز ریاست کے ا’مور نمٹانے کے
اپنے گھر آئے اور آرام کرنے کے لئے لیٹے ہی تھے کہ بیوی نے غمگین لہجے میں
کہا کہ امیر المومینین اگلے ہفتے عید آرہی ہے بچہ نئی پوشاک کے لئے بہت بے
چین ہے ابھی روتے ہوئے سویا ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز نے سر جھکا کر فرمایا
تمھیں تو معلوم ہے مجھے سو درہم ماہوار ملتے ہیں جس میں گھر کا خرچہ بمشکل
پورا ہوتا ہے ۔حضرت عمر بن عبدالعزیز کی بیوی نے کہا وہ تو میں سمجھتی ہوں
لیکن آپ بیت المال سے قرض لے لیں جس پر آپ نے فرمایا کہ بیت المال تو صرف
فقیروں یتیموں مسکینوں کا حق ہے اور میں تو صرف اس کا امین ہوں ۔بیوی بولی
بے شک میرے سرتاج یہ سچ ہے مگر بچہ تو نا سمجھ ہے اس کے آنسو نہیں دیکھے
جاتے جس پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا کہ اگر تمھارے پاس کوئی چیز ہے
تو اسے فروخت کردو بچے کی خوشی پوری ہوجائے گی ۔بیوی نے جواب دیا امیر
المومینین میرے تمام زیورات آپ نے بیت المال میں جمع کرادیئے ہیں بلکہ میرا
قیمتی ہار جو میرے والد نے مجھے تحفہ میں دیا وہ بھی جمع کرا دیا اب تو
میرے پاس آپ کی محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔امیر المومینین نے سر جھکا لیا
بڑی دیر تک سوچتے رہیاپنے ماضی میں جھانکنے لگیوہ بچپن جوانی خوش پوشی
نفاست جو لباس ایک بار پہنا دوبارہ پہننے کا موقعہ نہ ملا ۔سوچتے سوچتے
آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے بیوی نے دیکھا تو کہنے لگی مجھے معاف کردیں آپ
میری وجہ سے پریشان ہوگئے آپ نے فرمایا کوئی بات نہیں ۔پھر آپ نے بیت المال
کے نگران کو خط لکھا اور اور اپنے ملازم کو دیا اور فرمایا اور جاؤ اور
ابھی دے کر آؤ اس خط میں لکھا تھا کہ مجھے ایک مہینے کی تنخواہ پیشگی بھیج
دو ملازم نے جوابی خط امیر المومینین واپس لا کر دیا جس میں لکھا تھا ’’کہ
اے خلیفتہ المسلین کہ آپ کے حکم کی تکمیل سر آنکھوں پر لیکن کیا آپ کو
معلوم ہے کہآپ ایک ماہ تک زندہ رہ سکتے ہیں اگر آپ کو یہ معلوم نہیں تو
غریبوں کے مال کی حق تلفی کیوں پیشگی اپنی گردن پر رکھتے ہیں ‘‘آپ نے جواب
پڑھا تو رونے لگے اور فرمایا کہ نگران نے مجھے ہلاکت سے بچا لیا۔اگلے ہفتے
دمشق کے لوگوں نے دیکھا کہ امرا کے بچے نئے حسین کپڑے پہنے عیدگاہ جا رہے
تھے مگر امیر المومینین کا بچہ پرانے دھلے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے اپنے والد
کا ہاتھ پکڑے عید گاہ جارہا تھا
یہ ہمارا کل تھا جاندار ٖ ، شاندار اور احساس سے بھرپور کہ جب بیت المال کا
نگران اپنے حاکم کو پیشگی تنحواہ مانگنے پر موت کی یاد دلائے اور پیشگی
تنحواہ دینے سے انکار کر دے اور کہے اس پرصرف غریبوں کا حق ہے ۔مگر آج
ہمارے حکمرانوں اور ان کی اولادوں کا رہن سہن بلکل نرالہ ہے جو کپڑا پہن
لیں شاید ہی دوبارہ اس کپڑے کو ہاتھ لگانے کی نوبت آئی ہو۔ہم بدل گئے ہیں
ہماری روایتیں بدل گئی ہیں اور ہمارے لئے دکھاوا ہی سب کچھ ہے ۔اب اپنی عیش
و عشرت پوری کرنے کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے ہمارے حکمران و امرا کرتے ہیں
پھر کرپشن ہو یا رشوت کا پھر کوئی بھی گھپلا کسی چیز سے نہیں کتراتے۔بلکل
سہی بات ہے جیسی عوام ویسے حکمران کیونکہ حکمران بھی ہم میں سے ہی تعلق
رکھتے ہیں۔آج ہم بحیثیت قوم تنزلی کا شکار ہیں ہم اگر خود پر نظر دوڑائے تو
ہمیں ایمان میں منافقت،ناپ تول میں کمی ،ٹیکس میں چوری و ہیرا پھیری ،گوشت
کی دکان پر مردار کا گوشت ،دودھ میں پانی،ہر طرف شفارش کا گرم بازار اور
خود غرضی ہر طرف نظر آتا ہے ایسے میں کیسے ہم اپنے حکمرانوں کو صاف ستھرا
اور کرپشن کے الزام سے پاک پا سکتے ہیں؟کیا تھے اور کیا ہو گئے ہمارا ماضی
کتنا روشن کتنا چمکدار تھا اور آج ہم اپنی غلطیوں کوہتاہیوں کا بوجھ اٹھائے
کہاں آنپہنچے ہیں کہ ہماری آج دنیا میں کوئی نہیں اور اگر ہے تو بے ایمان ،رشوت
خور کی ہے۔ہمیں دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا ہوگا اور اس
کے لئے ہمیں اپنے دوبارہ اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہوگا تاکہ ہم مسلمان دوبارہ
اپنا اصل مقام حاصل کرسکے ۔آج ہم بحیثیت قوم کہاں آ پہنچے ہیں کہ جہاں ہر
طرف اندھیرا ،افرا تفری ،غربت ،دہشتگردی ،کرپشن ،زنا اور جہاں بیٹیاں
سانجھی نہیں او ر ان کی عصمت دری کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا
ہے۔ ذہن میں بہت سے سوالات جنم لے رہے ہین کہ آج ہم جو اس حالت کو پہنچے
ہیں اس حالت کا ذمہ دار آخر کون ہے اور ہم کسے اپنی حالت کا ذمہ دار
گردانے؟کیا ساری ذمہ دار حکومت پاکستان ہے کہ آج جو کچھ بھی ہمارے معاشرے
میں ہو رہا اس کی تمام ذمہ داری حکومت کی ہے مگر ذہن اس کو تسلیم کرنے سے
انکاری ہے ۔ہم حکومت کو بھی اس میں ضرور قصور وار ٹھہرا ئیں گے مگر آج جو
ہمارے ملک پاکستان کی حالت ہے ہم اس میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ ہم نے
اپنی کوئی ذمہ داری پوری نہیں کی بلکہ اپنے ملک پاکستان کی تنزلی میں بڑھ
چڑھ کر حصہ لیا کہ اپنے ملک میں رشوت ستانی عام کردی یا ہونے دی۔ہم کرپشن
میں پاؤں سے گردن تک ڈوب چکے ہیں مگر ہمیں صرف اپنا پیٹ عزیز ہے اور سوچتے
ہیں کہ ملک کا اﷲ مالک ہے بیشک اﷲ مالک ہے مگر ہماری بھی تو ذمہ داریاں ہیں
جو ہم نبھائے گے تو ہی ہمارا ملک ترقی کی طرف گامزن ہو پائے گا ۔ہمیں تمام
ذمہ داریاں حکومتوں پہ نہیں ڈال دینی چاہیے بلکہ ہمیں خود اپنے اپنے حصے کا
کام ایمانداری سے کریں ہمیں چاہیے کہ ہم خود رشوت اور کرپشن جیسی لعنت سے
دور رہیں اور حکومت کو بھی رشوت کرپشن جیسی لعنت کو روکنے کے لیے سخت سے
سخت قانون بنائے جس کی امید کم ہی ہے مگر ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا ہے ۔ہم
نے اپنے ملک کو امن کا گہوارا بنانا ہے ،ہم نے اسے رشوت اور کرپشن جیسی
لعنت سے پاک کرنا ہے ۔بس ہم نے خود کو بدلنا ہوگا اور ہم نے خود سے عہد
کرنا ہوگا کہ ہم نے رشوت اور کرپشن میں اپنے ہاتھ نہیں رنگنے بلکہ ہم نے
رنگے ہوئے ہاتھوں کی نشاندہی کر نی ہے اور ہم نے اپنے ملک سے بــرـائی کا
خاتمہ کرنے کے لیے آخری دم تک کوشش کرنی ہے۔اگر آج ہم خود سے عہد کر لیں کہ
ہم نے کسی اور کو نہیں بلکہ پہلے خود کو بدلنا ہوگا تو ایمان مکمل ہے کہ
ہمارا ملک پاکستان بدل جائے گا اور ترقی کی طرف گامزن ہو جائے گا اور ہم
اپنی آنے والی نسلوں کو ایک مضبوط ،امن کا گہوارا اور ایک ترقی یافتہ
پاکستان دے پائیں اور ہم ایسا تب ہی کر سکتے جب رشوت اور کرپشن کا خاتمہ
کردیں۔ |